ڈاکٹر سلیم خان
فلسطین کے اندرغاصب اسرائیل کی دراندازی میں 2015 سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ سیکڑوں یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اپنا تہوار منانے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد والے سال میں یہودیوں کا ایک جتھا اپنی روایت کے خلاف رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کےاندرداخل ہوگیا۔ غاصبوں کی ان اشتعال انگیز ی سے بار بار تشدد پھوٹ پڑتا تھا ۔ یہی آتش فشاں امسال 14 جون کو بھی پھٹ پڑا جس کے نتیجے میں دواسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے اور جواباً ان لوگوں نے 3 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ اس واقعہ کا بہانہ بناکر اسرائیل نے مسجد کو جمعہ کی نماز کے لیے بند کردیا اور اتوار کو میٹل ڈٹیکٹر اور کیمرےلگا نے کے بعد کھولا۔ مسجد اقصیٰ کا انتظام و انصرام مسلم وقف ذمہ ہے اور اسرائیل کااس پرکوئی قانونی اختیار نہیں ہے اس لیے صہیونیوں کی بدعہدی کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا اور مسجد میں داخل ہونے کے بجائے باہر سڑک پر نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصفانہ احتجاج پر کان دھرنے کے بجائے اسرائیل کے علاقائی تعاون کے وزیر ژاشی ہنیگبی نے فلسطینی مسلمانوں کو دھمکی دی کہ وہ 1948 اور 1947 کو یاد کریں اور اپنے رہنماوں کے بہکاوے میں آکر احتجاج نہ کریں ورنہ انہیں پھر ایک بار ملک بدر ہونا پڑے گا۔
اس کے برعکس اسرائیل کی فوج اور پولس نے پچھلے ہفتہ جمعرات ہی کے دن حکومت مشورہ دیا کہ وہ میٹل ڈٹیکٹر ہٹا لے لیکن بنیامن نیتن یاہو کو عقل نہیں آئی اور اس کی حکومت نے اعلان کردیا کہ وہ مسجد اقصی کے باہر نصب کیے گئے الیکٹرانک اسکینگ دروازے ہر گز نہیں ہٹائے گی البتہ ان کے استعمال میں کمی ہوسکتی ہے۔اس کے جواب میں اوقاف کے فلسطینی ذرائع نےغاصب اسرائیلی پولیس کی جانب سے بابِ اسباط کے سامنے فولادی پُل پر کیمروں کی تنصیب کو مسترد کردیا اور اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شہر کی تما م مساجد میں نماز جمعہ منسوخ کرکے سارے لوگوں کو مسجد اقصیٰ کے باہر سڑک پر نماز ادا کرنے دعوت دی۔ اس جرأتمندانہ فیصلے کا اثر محمود عباس کی فتح پر ہوا اس نے اعلان کیا مسجد اقصی میں داخلہ خالصتاً مذہبی معاملہ ہے جس کو اسلامی اوقاف کا محکمہ اور مسجد اقصی کے متولی انجام دیتے ہیں اور اسرائیل کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ کیمروں کی تنصیب کویکسر مسترد کردیا گیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈی نیشن روک دی بلکہ سارے رابطے منقطع کرلیے۔ اس بیچ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک خصوصی اجلا س کا اعلان ہوا جس میں اسرائیلی جارحیت پر بحث ہونا تھی۔ اردن کے اندر بھی زبردست مظاہرہ ہوا۔ ان واقعات کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نوٹس لیا اوراپنے مشیر خاص جیسن گرین بلاٹ کو کشیدگیکم کرنے کے لیے فلسطین و اردن کے دورے پر روانہ کیا ۔ فلسطینوں کے عظیم احتجاج اور عالمی دباو کے آگے بالآخر اسرائیل کو جھکنا پڑا اور اس نے ذلیل ہوکر میٹل ڈٹیکٹر ہٹانے کا اعلان کردیا ۔ فلسطینیوں کی یہ جزوی کامیابی ہے۔ ٓگے مرحلہ کیمرےہٹوانے کا ہے ۔ اس فتح کے لیے انہوں نے غیر معمولی مزاحمت کی اور زبردست قربانیاں دیں ۔ ان دس دنوں کے احتجاج سےپہلے 3 لوگ شہید ہوئے تھے اس دوران 4 اور لوگوں نے جام شہادت نوش کیا اور تقریباً ایک ہزار لوگ زخمی ہوئے اور تین یہودی بھی مارے گئے۔ اس جدوجہد کے دوران ایک لمحہ کے لیے بھی ان لوگوں نے اپنا حوصلہ نہیں چھوڑا جس کے سبب اللہ کی نصرت ان کے شاملِ حال ہوئی ۔ اس فتح میں ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ مقابلہ کسی بڑی سےبڑی ظالم طاقت سے کیوں نہ ہو اگر اہل ایمان عزم و حوصلہ کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے لیکن یہ کام صرف ماتم کرنے یا شکوے شکایت سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیےایثارو قربانی شرط لازمی ہے۔
فلسطینی مسلمان جس وقت سڑکوں پر نماز جمعہ ادا کررہے تھے اس وقت دنیا بھر کے اہل ایمان ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے۔ کوئی جلوس نکال رہا تھا تو کوئی دعا کررہا تھا ۔اس بیچ سعودی عرب سے سابق شاہ فہد کے بیٹے عبدالعزیز بن فہد نے ٹویٹر پر اپنا پرزوراحتجاج درج کرایا جس نے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا اس لیے کہ درمیان میں امام حرم عبدالرحمٰن السدیس کا ایک پیغام سماجی رابطوں کی سائیٹس میں نمودار ہوا جس میں اسے فلسطینیوں کا داخلی مسئلہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے برعکس عبدالعزیز بن فہد نے ساری دنیا کے عربوں اورمسلمانوں القدس کی خاطریکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا فلسطینی بھائیوں کی ہر طرح سے حمایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو دنیا کو بتا دو کہ تم کون ہو؟ مسجد اقصیٰ کو نظر انداز کرنا اللہ کی ناراضگی کا سبب بنے گا اور ہم اس کے لیے عنداللہ جوابدہ ہوں گے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ اے اللہ اور رسول کے ماننے والو ! تیسری مقدس ترین مسجد غاصبانہ قبضے میں مقید ہے کیا ہم میں سے کوئی عقل نہیں رکھتا۔ہمیں مل جل کر اس کے لیے لڑنا ہے۔ اس میں یا تو ہم کامیاب و کامران ہوں گے یا شہید ہوجائیں گے ہر دو صورت میں اللہ ہماری مغفرت کرے گا۔ ان پیغامات کا درس یہ ہے کہ جب اخلاص کے ساتھ جدوجہد کی جاتی ہے تو ان مقامات سے تائید و نصرت حاصل ہوتی جو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
( یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔)