-
آزادی کا ۷۴ واں سال: ملک، اقلیتیں اور مسلمان کتنا آزاد؟
- سیاسی
- گھر
آزادی کا ۷۴ واں سال: ملک، اقلیتیں اور مسلمان کتنا آزاد؟
941
M.U.H
16/08/2020
2
0
بنگلورو تشدد کے تناظر میں ایک تجزیہ
تحریر: شکیل رشید
مبارک ہو !
آزادی کا 74 واں سال شروع ہوگیا ہے 75 سال پورے ہونے میں ایک سال کم ۔ یہ مدت ایک آزاد ملک ، وہ بھی بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک کے لیے ، اپنے قدموں پر مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونے ، ملک میں انصاف کے حصول کو ممکن بنانے ، قانون کی بالادستی قائم کرنے ، اور ملک بھر کے لوگوں میں ، بلا لحاظ مذہب اور ذات پات ، احساس تحفظ کو تقویت دینے کے لیے کافی ہے ۔ لیکن بھارت میں یقیناً بہت سارے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو رات میں عدم تحفظ کے احساس کو ایک چادر کی طرح اوڑھ کر سوئے ہوں گے اور 15 اگست کی صبح اسی احساس کے ساتھ پھر جاگے ہوں گے ۔ بھلا کیوں آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی بہت سارے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کا خوف سمایا ہوا ہے اور بھارت کی جمہوری اور سیکولر بنیادیں کمزور اور قانون کا سارا نظام ، سارا لاء اینڈ آرڈر اور قانون نافذ کرنے والی ساری ایجنسیاں تقریباً غیر جمہوری اور غیر سیکولر بنیادوں پر چل رہی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب بنگلورو کے تشدد میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس تشدد پر بات کرنے سے قبل گزرے ہوئے 73 سالوں پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو مذکورہ سوال کا جواب تلاش کرنے میں مزید آسانی ہو سکتی ہے ۔
آزادی کے بعد تقسیم اور قیام پاکستان کا عمل ملک کی تاریخ میں ایک زخم کی طرح شائد ہمیشہ تروتازہ رہے گا، اس لیے نہیں کہ یہ زخم بھرا نہیں جا سکتا ، بلکہ اس لیے کہ کچھ لوگ اس زخم کو بھرنے دینا ہی نہیں چاہتے ۔ بٹوارہ سے بہت سارے لوگوں کو مسلمانوں پر انگلیاں اٹھانے اور اسی بہانے اپنے مفادات _ سیاسی ، تہذیبی اور مذہبی _ حاصل کرنے کا موقع مل گیا ہے ۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں مسلمان ایک طرح کے احاس شرمندگی کا شکار تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ بٹوارے کا سارا الزام اسی کے سر دھر دیا گیا تھا ، آزادی کے لیے اس کی ساری قربانیاں فراموش کر دی گئی تھیں ، محمد علی جناح مسلمان تھے اس لیے ان کا عمل سارے مسلمانوں کا عمل قرار پایا تھا ، ان مسلمانوں کا بھی جو بھارت چھوڑنے کو تیار نہیں ہوئے تھے، بٹوارے کے فسادات نے لوگوں سے بہت کچھ چھین لیا تھا، محبت کی جگہ نفرت نے لے لی تھی ۔ لیکن اس وقت کی سیاسی اور مذہبی قیادت آج جیسی مطلبی نہیں تھی بلکہ مخلص تھی اس قیادت نے حوصلے بڑھائے اور نئے سرے سے زندگی گزارنے کی امنگ پیدا کی اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے بھارت میں اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی کامیاب کوشش کی اور سیاست، تعلیم اور تجارت تینوں ہی میدانوں میں کامیاب رہے اور اپنی کامیابیوں سے ملک کو ترقی کی راہ پر آگے بھی بڑھایا ۔ مگر جب قیادت بدلی اور سیاست میں فرقہ پرستی کچھ یوں در آئی کہ سیکولر سیاست داں بھی اقتدار کے حصول کے لیے مذہب اور ذات پات کا کھیل کھیلنے کو درست سمجھنے لگے ، فرقہ وارانہ فسادات عام ہوگیے اور مسلم قیادت مایا جال میں پھنس گئی تب سیاست ، تعلیم و تجارت ان تینوں ہی میدانوں میں مسلمانوں کو ناکامیاں ملنے لگیں ۔ لیکن اس کا ایک سبب کچھ ان کی نااہلی اور حالات کو نا سمجھنے کی روش بھی تھی اور کچھ مسلم قیادت کا اپنے سیاسی آقاؤں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے قوم کو نظر انداز کرنے کا چلن بھی ۔ میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ بھارت کو مضبوط جمہوری اور سیکولر بنیادوں پر کھڑا کرنے اور اقلیتوں میں ، بشمول مسلم اقلیت ، تحفظ کا احساس جگانے میں ناکامی کی سب سے بڑی مجرم سیکولر فورس یا باالفاظ دیگر سیکولر سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں میں شامل مسلم لیڈران ہیں ، ان میں مذہبی لیڈران بھی شامل ہیں ۔ آج بھارت کا مسلمان اپنے وجود کی لڑائی لڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے ۔ 1980ء کے بعد سے سیکولر قیادت نے اپنا چہرہ ایسا پھیرا ہے کہ سیکولر اور غیر سیکولر کا فرق ہی مٹ گیا ہے ۔ بھلا یہ کون سی سیاست ہے کہ اقتدار میں رہنے کے لیے رام ولاس پاسوان ، جارج فرنانڈیز، نتیش کمار، شرد یادو جیسے لوگ ، جن کی زبانیں خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتیں ، بی جے پی کو حکومت سازی میں مدد دیں ! این ڈی اے کے سیکولرسٹوں نے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستوں کو مضبوط کرنے کا ہی کام کیا ہے اور آج بھی یہی کام کر رہے ہیں ، انہوں نے جمہوری اور سیکولر بھارت کو کمزور کیا ہے ، اقلیتوں کے مسائل نظرانداز کیے بلکہ اقلیتوں کے مسائل کو پیچیدہ بنانے میں فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا ہے ۔ این آر سی ، این پی آر کو ان سب کی حمایت حاصل رہی ثبوت ان کی مدد سے سی اے اے کی منظوری ہے ۔ کانگریس بھی اسی صف میں شامل ہے کہ اس نے بڑے ہی منظم انداز میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کی معاشی، تعلیمی اور سماجی کمر توڑنے کا کام کیا ہے ۔ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کرنا ، سرکاری نوکریوں میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو جگہ دینا ، بابری مسجد اور یکساں سول کوڈ جیسے مسائل زندہ رکھنا ، اردو زبان کو اس کے جائز حق سے محروم رکھنا ، اور سیاست میں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا ، کیا یہ کانگریسی قیادت کے وہ سیاہ کارنامے نہیں ہیں جو اس ملک کے مسلمانوں میں مایوسی کے پھیلنے اور ملک کو کمزور کرنے کا سبب بنے ہیں؟ جب مسلمانوں کو سیکولر سیاسی قیادت کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ، ایودھیا آندولن کے وقت ، جب سب کچھ کیا مذہب اور کیا وجود داؤ پر لگا تھا ، جب فسادات کرائے اسی لیے جاتے تھے کہ مسلمان خوف کی نفسیات سے باہر نکل کر تجارت ، تعلیم اور سیاست وغیرہ پر توجہ دے ہی نہ سکیں ، تب جب سہارا مطلوب تھا بے سہارا کر دیا گیا تھا ، اور آج تک مسلمان بے سہارا ہی ہیں ۔ بھلا ان سیکولرسٹوں سے جو بابری مسجد کی جگہ تمام ثبوتوں کے باوجود بھی مندر کو دینے پر خاموش رہے بلکہ بھومی پوجن پر اڈوانی ، اوما بھارتی اور آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت سے بھی زیادہ پرجوش اور خوش تھے ، کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے!
آج ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہو گیا ہے جس کے دونوں ہی طرف کھائی ہے ۔ اگر ایک جانب ملک سے سیکولر اور جمہوری آئین ختم کرکے بھارت کو ہندو راشٹر کی طرف تیزی کے ساتھ ڈھکیلنے والے بھگوادھاری ہیں تو دوسری جانب سیکولرسٹوں کی وہ ٹولی ہے جو دھوکہ دیتی رہی ہے اور اب کھل کر ، ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ دھوکہ دے رہی ہے ۔ اس دو راہے پر کھڑا ہوا مسلمان یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کیا جائے؟ کئی تجربے کیے جا چکے ہیں ، کہا جاتا تھا کہ ایک بار اسے آزما لیا جائے جسے اب تک آزمایا نہیں گیا ہے ، جب آزمایا تو وجود کے ساتھ مذہبی اور تہذیبی شناخت بھی داؤ پر لگ گئی ۔ آج بی جے پی تقریباً سارے ملک پر چھائی ہوئی ہے ، اسی لیے سنگھ پریوار کے سارے ایجنڈے لاگو ہو رہے ہیں ۔ آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک گرو گولوالکر نے مسلمانوں کو ، اور ان کے ساتھ عیسائیوں اور یہودیوں کو ، بھارت کے اصلی باشندے کبھی نہیں قرار دیا تھا ، یہی آر ایس ایس کا نظریہ اور فلسفہ ہے ، بھارت ہندوؤں کے لیے ۔ عیسائی اور یہودی تو محفوظ رہ سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے سارا یوروپ اور امریکہ اور اسرائیل کھڑا ہوا ہے ، لیکن مسلمان کہاں جائیں گے کہ مسلم دنیا تو خود فلسطینیوں کو تنہا چھوڑ کر اسرائیل سے دوستی کررہی ہے ۔ اکا دکا اٹھنے والی آوازیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوسرے دور میں بڑی تیزی کے ساتھ سنگھ کے ایجنڈے پر عمل شروع ہو گیا ہے ۔ آئینی ادارے حکومت کے اشارے پر آنکھیں بند کیے عمل پیرا ہیں ۔ بابری مسجد کی جگہ کو یہ ثابت ہونے کے باوجود کہ کسی مندر کی بنیاد پر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی ہے اور اس کی شہادت غیر قانونی تھی ، رام مندر کی تعمیر کے لیے عدالت ہی نے سونپی ہے ، اسی عدالت نے جس نے سینئر وکیل اکٹیوسٹ پرشانت بھوشن کی حق بیانی کے لیے انہیں توہین عدالت کا مجرم قرار دیا ہے، اس طرح سب کو تنبیہ دی ہے کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب ہم جو نکالیں گے وہ ہوگا نہ کہ تم جو سوچو گے وہ ۔ اب عام انسانوں کی زبان بندی کے دن قریب آ گیے ہیں ۔ بلکہ دن آہی گیے ہیں ۔ اب بھلے یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت اور ان کی دیکھا دیکھی دوسری ریاستی سرکاریں حقوق انسانی کے رضاکاروں کو زندان میں ڈالتی رہیں ، جمہوری اور آئینی احتجاج کے حق کا استعمال کرنے والوں کو ملزم مان کر ان کی املاک قرق کرتی رہیں ، اور عدالت فریادیں نہ سنیں تو زبان پر حرف شکایت لانا آسان نہیں ہو گا کیونکہ یہ عمل عدلیہ کی توہین کا باعث قرار پا سکتا ہے ۔ لوگ کہاں جائیں ، کس سے فریاد کریں؟
ملک کو اس حالت میں پہنچانے کے جو ذمہ دار ہیں وہ کوئی جواب نہیں دیں گے لوگوں کو خود ان سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے ۔ خیر ہم یہ تو جان گیے ہیں کہ ملک میں فرقہ پرستی کے عروج کی وجہ سیکولر قیادت کی دھوکہ دھڑی رہی ہے ، اس میں مسلمانوں کی سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں سے جڑے سیاسی اور مذہبی قائدین بھی شامل ہیں ، جی ہاں یہ بھی دھوکے باز ہیں ۔
اگر ہم بنگلور کے تشدد پر نظر ڈالیں تو یہ سچ بہت ہی واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ کانگریسی ایم ایل اے اکھنڈا سری نواس مورتھی کے بھتیجے پی نوین کے ذریعے فیس بک پر پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ اور اماں حضرت عائشہؓکی شان میں گستاخانہ پوسٹ کی خبر عام ہونے کے بعد جب مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑی اور انہوں نے پولیس اور کانگریسی ایم ایل اے سے انصاف کی گہار لگائی تب پولیس ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ، پی نوین کو حراست میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ، مسلمانوں کے مجروح مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے اقدامات کرنے میں پولیس ہچکچاتی رہی یہاں تک کہ رپورٹ بھی فوری طور پر درج کرنے کی بجائے یہ کوشش کرتی رہی کہ فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملے کو نمٹا لیں ۔ ایک سچ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جو بھیڑ جمع ہوئی اور بتدریج جس میں اضافہ ہوتا رہا اسے تتر بتر کرنے کے لیے پولس فورس کو آنے میں تقریباً دو گھنٹے کی تاخیر ہوئی ۔ مذکورہ حقائق سے کئی سوال اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے یہ کہ پی نوین کو فوری طور پر حراست میں کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا کانگریسی رکن اسمبلی کا پولیس پر دباؤ تھا؟ پولیس کیا کسی کے اشارے پر پی نوین کے خلاف رپورٹ لکھنے سے ہچکچا رہی تھی؟ کیا پولیس فورس اس لیے جلد نہیں بھیجی گئی کہ بھیڑ بڑھتی رہے اور لوگوں کا غصہ تشدد میں بدل جائے؟ یہ بات بہت صاف ہے کہ اگر بھیڑ بڑھنے نہ دی جاتی اور فوراً رپورٹ لکھ کر پی نوین کے خلاف کارروائی شروع کردی جاتی تو تشدد نہ ہوتا ۔ یہ ممکن ہے کہ بھیڑ میں شرپسند عناصر شامل کر دیے گیے ہوں ، سیاسی حریفوں نے ایک دوسرے کو چت کرنے کے لیے تشدد پھیلا دیا ہو ۔ کانگریس اور بی جے پی کی رسہ کشی کی خبر ہے ۔ یہ بھی خبر ہے کہ ایس ڈی پی آئی کے مزمل پاشا اور مورتھی و پی نوین بھی ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں ۔ مسلمانوں کے جذبات کو جوش دے کر پہلے بھی سیاستدان سیاست کے توے پر روٹیاں سینکتے رہے ہیں ۔ اور اب بھی سینک رہے ہیں ۔ بنگلورو کے ان ہی مسلمانوں نے جن پر تشدد کا الزام ہے انسانی زنجیر بنا کر مندر کی حفاظت کی اور پی نوین کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچایا بھلا وہ کیسے اس قدر متشدد ہو گیے کہ ساٹھ سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو گیے اور رکن اسمبلی کے ساتھ پی نوین کے مکان میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی ہوئی اورمتعدد گاڑیاں پھونک دی گئیں؟ ان سوالوں کا جواب سامنے ہے ، مسلمانوں کے غصے کو بھڑکنے دیا گیا ، مسلم قیادت سوتی رہی ، سوائے ایس ڈی پی آئی کے مزمل پاشا کے کوئی بھیڑ کو سنبھالنے والا نہیں تھا ، سیکولر قیادت لاپتہ رہی اور پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی اس نے گولی باری کی ، تین افراد شہید ہوئے دوسو سے زائد گرفتار اور مسلمانوں و دلتوں میں پھوٹ پڑ گئی ۔ پی نوین واضح رہے کہ دلت ہے ۔ یہ آزادی کے 74 ویں سال میں وہ جمہوری اور سیکولر بھارت ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخی پر احتجاج بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے مظاہرے کو تشدد میں تبدیل کرکے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کر دیا جاتا ہے اور لوگوں کی ان سے نفرت مزید گہری کر دی جاتی ہے ۔ مسلمان احتجاج کریں لیکن کسی کو تشدد پھیلانے کا موقع نہ دیں۔ نہ گولی کھائیں نہ جیل جائیں ۔ اس کے لیے انہیں اپنی صفوں میں موجود شر پسند عناصر کو چھانٹنا ہوگا ، فرقہ پرستوں کی سازشوں کو سمجھنا ہو گا اور اپنی صف میں جو مفادپرست قائدین ہیں انہیں پہچان کر باہر کرنا ہو گا ۔ ایک چیز اور ہے ، اتحاد ۔ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوگا نئے بھارت میں رہنا اس کے لیے عذاب بنا رہے گا ۔
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)