-
اسرائیل نابودی کی طرف گامزن
- سیاسی
- گھر
اسرائیل نابودی کی طرف گامزن
392
m.u.h
21/04/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
فلسطین اور اسرائیل کےدرمیان کشیدگی نئی بات نہیں ہے ۔دونوں کے درمیان جنگ کی خبریں بھی اب کسی کو چونکاتی نہیں ہیں ۔عرصۂ دراز سے فلسطینی عوام اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کرتی آرہی ہے ۔موجودہ فلسطین اسرائیل کی توقعات کے برخلاف ہے اس لئے مزاحمت کب جنگ میں بدل جائے ،اس کا اندازہ خود اسرائیل کو بھی ہے ۔گذشتہ کچھ ماہ سے فلسطین کے مغربی کنارے پر حالات تشویش ناک ہیں ۔خاص طورپر جس طرح اسرائیلی فوجیں مسجد اقصیٰ میں دراندازی کررہی ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کو مسجد سے کھدیڑ رہی ہیں ،اس کی بناپر جنگ کے خطرات منڈلارہے ہیں ۔اسرائیلی فوجوں نے مسجد اقصیٰ میں موجود نمازیوں کے ساتھ جارحانہ سلوک برتا ۔انہیں زدوکوب کیا ۔عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا ۔مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فوجیں دندناتی پھررہی ہیں ،اس کے شواہد میڈیا میں موجود ہیں ۔عالم اسلام قبلۂ اول کی بے حرمتی کو کیسے برداشت کرتاہے ؟یہ سوال ہمیشہ سے قائم ہے ۔صرف مذمتی بیانات جاری کردینے سے مسئلۂ فلسطین حل نہیں ہوسکتا ،اس کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اب جبکہ عالم اسلام کااتحاد وجود میں آرہاہے انہیں شدومد کے ساتھ مسئلۂ فلسطین کے حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے ۔خاص طورپرسعودی عرب کو دیگر مسلمان ملکوں کو اس سلسلے میں بیدار کرنا ہوگا ،تاکہ ایران کے ساتھ ایک مستقل مقاومتی محاذ تیار ہوسکے ۔
نتین یاہو کو کبھی امن پسند لیڈر تسلیم نہیں کیا گیا۔ان کا گذشتہ عرصۂ اقتدار اشتعال انگیزی،جنگی منصوبے ،مشرق وسطیٰ کی تباہی اور علاقائی مسائل کو مہمیزکرنے کے لئے جانا جاتاہے ۔انکارویہ کبھی امن پسندانہ نہیں رہا ۔خاص طورپر انہوں نےفلسطین ،یمن ،شام اور عراق کے مسائل کو مزید پیچیدہ کرنے کی کوشش کی ۔اس بار تو یوں بھی انہیں بن گویر جیسے انتہا پسند لیڈرکی حمایت حاصل ہے جن پر دہشت گردی کا مقدمہ چل رہاہے ۔بن گویر کو اسرائیلی عدالت نے نسل پرستی اور دہشت گردی کا مجرم پایا تھا ،اس کے باوجوداس کو وزیر برائے سلامتی مقرر کرنا اسرائیل کے سیاسی بحران کو ظاہر کرتاہے۔یہ شخص میر کہانے کا شاگرد ہے جس کی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور امریکہ نے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔بن گویر عربو ں سے بے اتنہا نفرت کرتاہے ۔وہ متواتر یہ مطالبہ کرتارہاہے کہ غرب اردن کے ساتھ غزہ اور اسرائیل میں آباد عرب شہریوں کو ملک بدر کردیاجائے ۔نتین یاہو بھی اسی طرح کے سیاسی نظریات کے حامل ہیں ۔ان کے مطابق’ مغربی کنارہ سمیت اسرائیل کے تمام تر علاقوں پر فقط یہودیوں کا حق ہے ‘۔انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے داماد جارڈ کشنز کے ساتھ مل کر ’’صدی معاہدہ‘ ‘ کا مسودہ پیش کیا تھا ،جس کی رو سے یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کیا گیا تھا ۔اس مسودہ کی فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سخت مخالفت کی تھی اور عالمی پیمانے پر بھی اس مسودہ کو مسترد کردیا گیا تھا ۔اس کے باجود عالمی استعمار کی کوششوں سے اسرائیل اور امریکہ کے حلیف ملکوں نے اس مسودہ کے نکات کو تسلیم کرلیا تھا جن میں بعض مسلمان ملک بھی شامل ہیں ۔’’صدی معاہدہ‘‘ در اصل فلسطینیوں کی خود مختاری اور انسانی حقوق پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالنے کی ایک کوشش تھی،جس کو ناکام بنادیا گیا،حالانکہ اسرائیل آج بھی اس معاہدہ کے نفاذ کے لئے کوشاں ہے ۔اس معاہدہ کی روسے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر غلاموں کی طرح زندگی گذارنی ہوگی اور انہیںشہریت کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہوں گے ۔حد یہ ہے کہ ان کے دفاع کی ذمہ داری بھی اسرائیلی فوج پر ہوگی جس کے لئے فلسطینیوں کو ایک معین رقم کی ادائیگی کرنا ہوگی۔اس معاہدہ کے اکثر شرائط منصہ شہود پر نہیں ہیں ،اس لئے پورے طورپر ان پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا ،لیکن یہ معاہدہ فلسطین کی خودمختارانہ حیثیت کو ختم کرنےکی ایک ناکام سعی تھی۔فی الوقت بن گویر جیسا انتہا پسند اس منصوبے کو عملی جامہ پنہانے کے لئے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی بھٹّی میں جھونکنا چاہتاہے ۔ایسے دہشت گردوں کے خلاف اسرائیلی عوام کو سڑکوں پر ہونا چاہیے تھا ،لیکن صہیونی سازشوں نے ان کے دل و دماغ کو بہکایا ہواہے ۔بہت جلد وہ خواب غفلت سے بیدارہوں گے ۔لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
نتین یاہو نے اقتدار کی ہوس میں دہشت گردوں سے اتحاد کیا تھا ،جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہی تھا ۔بن گویر جیسے لیڈروں کی حمایت کبھی امن کی فضا سازگار نہیں کرسکتی ۔گذشتہ کچھ ماہ سے جو کچھ مسجد اقصیٰ میں ہورہاہے اس کی ذمہ داری بن گویر کی سیاسی حکمت عملی پر عائد ہوتی ہے ۔یہ شخص فلسطینیوں کے خاتمے کی بات کرتاہے ۔ان کے بنیادی حقوق سلب کرنے کا حامی ہے ۔’اسلاموفوبیا‘ تو جیسے اس کی رگ رگ میں سرایت کرچکاہے ۔یہ شخص کبھی اپنی پارٹی کے ایجنڈہ سے الگ نہیں جاسکتا ،اس لئے اسرائیل اس کے دوراقتدار میں اسی طرح سیاسی بحران سے دوچار رہے گا ۔اسرائیلی عوام نتین یاہو اور بن گویر جیسے لوگوں سے تنگ آچکی ہے ۔انہیں کسی نئے رہنما کی ضرورت ہے جو ان پر مسلسل جنگیں تھوپنے کی سنک سے عاری ہو۔ورنہ اسرائیل کی موجودہ صورتحال اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ وہ اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہاہے ۔فلسطین کی مزاحتمی تنظیمیں اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف سینہ سپر ہیں ،اس لئے فلسطین کو حاصل کرنے کا خواب تو کبھی پورا نہیں ہوسکتا ۔کہیں ایسا نہ ہویہ خواب دیکھتے دیکھتے اسرائیل اپنا وجود ہی کھوبیٹھے ۔آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کئی سال پہلے پیشین گوئی کی تھی کہ اسرائیل کی عمر ۲۵ سال سے زیادہ نہیں ہے ۔وہ مسلسل اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہاہے ۔اسرائیل کے موجودہ سیاسی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئےانہوں نے حال ہی میں کہاہے کہ لگتاہے اسرائیل کو اپنے خاتمے کی عجلت ہے ۔اور یقیناً خاتمے کے آثار نظر آرہے ہیں۔
مسجد اقصیٰ میں صہیونی فوجوں کے تشدد کے بعد حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی برسات کردی ۔ اس سے پہلے بھی گیارہ روزہ جنگ کے موقع پر اسرائیل کا دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ ناکام ثابت ہواتھا ،اس لئے اسرائیلی عوام خوف و دہشت کےسائے میں جی رہے ہیں ۔حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران پر حملے کا پرانا راگ الاپا۔جبکہ وہ بھی بخوبی جانتاہے کہ ایران پر حملہ آسان نہیں ہے ۔اگر وہ حماس کو گیارہ روزہ جنگ میں ٹکر نہیں دے سکتے تو پھر ایران تو خطّے کی بڑی طاقت ہے ،اس کے ساتھ نمٹنا ’جوئے شیر‘ لانے کے مترادف ہے ۔بہرکیف! اسرائیلی وزیر کی ہرزہ سرائی کے بعدہندوستانی میڈیا میں جنگ کی خبریں آگ کی طرح پھیل گئیں۔یوں بھی ہمارا قومی میڈیا جنگ میں زیادہ یقین رکھتاہے ۔امن کی بات کئے اس کو زمانہ گذرگیا ۔اس لیے اسرائیل سے پہلے اسے معلوم ہوگیاکہ ایران پر کب اور کہاںحملہ ہونے والاہے ؟ ظاہر ہے یہ تمام خبریں ’اسلاموفوبیا‘ کا نتیجہ ہیں ۔دوسری اہم بات یہ کہ عالم اسلام کے اتحاد نے اسلام دشمن طاقتوں کو بے چین کردیاہے ۔خاص طوپر ایران اور سعودی عرب کےاتحاد سے عالمی طاقتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔اس کی زد میں ہمارا قومی میڈیا بھی ہے ۔یوں بھی اس کے پاس عالمی خبروں کے خودساختہ ذرائع کی کمی ہے ۔وہ جو بھی دکھلاتے ہیں مغربی میڈیا بلکہ استعماری میڈیا کا چبایا ہوا لقمہ ہوتاہے ۔قومی میڈیاکا وقار تو پہلے ہی ختم ہوچکاہے ،رہی سہی عزت استعماری میڈیا نے دائوپر لگادی ہے ۔وہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کےمناظر دیکھنے کے لئے اتاولے ہیں ۔کیا ان کا دل روس اور یوکرین جنگ کے انسانیت سوز مناظر سے نہیں بھرا ؟یہ سرمایہ دار اور کتنی لاشیں ،کتنی تباہی دیکھناچاہتے ہیں؟کیااسرائیل اور حماس کے درمیان گیارہ روزہ جنگ کے نتائج اس کے سامنے نہیں ہیں؟ کیا حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کی جنگ کی حقیقت کسی سے چھپی ہوئی ہے ؟ اگر اسرائیل حماس اور حزب اللہ سے منہ کی کھاسکتاہے توپھر اسے ایران جیسی طاقت کے سامنے ٹھہرنے کی تاب کہاں؟اس لئے میڈیا کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔خبریں حقیقت سے عاری ہوں تو میڈیا کا وقار پامال نہیں ہوتا بلکہ ملک کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ۔ہندوستان نے ہمیشہ مسئلۂ فلسطین پر اپنا انصا ف پسندانہ موقف رکھاہے ۔ہندوستان کو معلوم ہے کہ اسرائیل کا وجود ’سراب‘ کی مانند ہے ،اس لئے سراب کو ’آب‘ سمجھنا خود فریبی میں مبتلا ہونا ہے۔