-
غزہ کی تباہی کا ذمہ دارکون؟
- سیاسی
- گھر
غزہ کی تباہی کا ذمہ دارکون؟
506
m.u.h
17/12/2023
1
0
تحریر:عادل فراز
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں۱۳ دسمبر کو غزہ میں فوری ’جنگ بندی کی قرارداد‘ کو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ی مل گئی ۔ووٹنگ میں شامل ۱۹۳ رکن ممالک میں سے ۱۵۳ ملکوں نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ ۱۰ ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا،جس میں امریکہ ،اسرائیل اور ان کے دیگر حلیف ملک شامل ہیں۔۲۳ ملکوں نے ووٹنگ کے عمل سے غیر حاضر ہو کر جنگ کی حمایت کی ،گویاکہ یہ بھی اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں کی تائید کا ایک طریقہ ہے ۔فلسطینی مندوب ریاض منصور نے قرارداد کی منظوری کو تاریخی دن قراردیا،جبکہ ابھی فریقین کی جانب سے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی۔اگر اسرائیل جنگ بندی پرتیار ہوتا تو امریکہ اور اس کے زیر اثر ملک جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیتے ،جب کہ ایسا نہیں ہوا۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کا پاس ہونا یا نہ ہونا امریکہ اور اسرائیل کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔اگر ان کی نگاہ میں عالمی برادری کی کوئی قدر ہوتی تو جنگ کے دوران ریڈ کراس اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے کارکنان کو ہدف نہ بنایاجاتا۔
چا ر روزہ جنگ بندی کے بعد اسرائیلی جارحیت میں مزید اضافہ ہواہے ،جبکہ جنگ بندی کا عمل سات دنوں تک جاری رہا لیکن اس دوران بھی اسرائیل کے وحشیانہ حملے نہیں تھمے ۔اس نے مستقل جنگ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ،جس کی بنیادپر نقل مکانی اور علاج کی غرض سے غزہ سے ہاہر جانے والے افراد بھی محفوظ نہیں رہے ۔اس وقت غزہ میں طبی سازوسامان کے ساتھ شدید غذائی قلت کا سامنا ہے لیکن دہشت گردی کے بانیوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ۔افسوس یہ ہے کہ مسلم حکمران جنگ بندی کے لئے ثالثی کا کردار اداکرنے پر تو آمادہ نظر آتے ہیں لیکن غزہ کے مظلوم انسانوں پر جاری اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف موثر اقدام سے گریز کرتے ہیں ۔کیا جنگ بندی سےمسئلۂ فلسطین کا حل نکل سکتاہے؟ ہرگز نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل فلسطینیوں کو ان کے حقوق کی بایابی پر منحصر ہے اور بس!
بعض افراد کا یہ کہناکہ مسلمان حکمرانوں کا دائرۂ اختیار جہاں تک تھا،انہوں نے اپنا فریضہ نبھایاہے ۔انہوں نے جنگ بندی کے لئے اسرائیل پر دبائو بنایا ،جس کے نتیجے میں تقریباً سات دنوں تک جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ اُوآئی سی کے وفد نے مختلف ملکوں کا دورہ کرکے اسرائیل کے خلاف محاذ آرائی کی ،جس کے مثبت نتائج ظہور میں آئے ۔جبکہ یہ تمام باتیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کی جارہی ہیں کیونکہ جنگ بندی میں کسی ایک ملک کا کلیدی کردار نہیں رہاہے ۔قطر ضرور منظر نامے میں موجود رہا ،لیکن درحقیقت یہ جنگ بندی حماس کی مقاومت اور اسرائیلی عوام کے ذریعہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے مسلسل مطالبے کی بنیاد پر عمل میں آئی تھی ۔اگر مسلم حکمرانوں نے جنگ بندی میں کوئی اہم کردار اداکیاہوتا تو اسرائیل کو جنگ بندی کے اصولوں کی مخالفت پر سرزنش کی جاتی اور اس کے خلاف نیا محاذ کھلتا،مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔مسلم حکمرانوں کے منافقانہ کردار پر جب بھی تنقید کی جاتی ہے تو ہمارے بعض سادہ لوح تجزیہ نگار مشتعل ہوجاتے ہیں اور چیخنے لگتے ہیں کہ اس کے علاوہ مسلم حکمران کیا کرسکتے تھے؟ کیا وہ اسرائیل پر میزائیلوں کی بارش کردیں؟ یا پھر اتنی بڑی صہیونی آبادی کو سمندر میں دھکیل دیاجائے؟ ایسے سادہ لوح افراد سے پوچھاجانا چاہیے کہ کیا مسلم حکمران اتنے بے بس اور طاقت سے عاری ہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے ؟کیا وہ اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرنے سے خوف زدہ ہیں ،جو خطے میں ناٹو کے متبادل کے طورپر وجود میں آئے ؟ رہی اسرائیل پر میزائیل داغنے کی بات تو یہ جرأت ان میں نہیں ہے ۔البتہ اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے کہ جب شام اور عراق میں داعش نے سراٹھایا ،جسے استعماری طاقتوں نے جنم دیاتھا،اس وقت بعض مسلم حکومتیں داعش کے خلاف امریکہ کے اشارے پر ہر طرح کا تعاون کررہی تھیں ۔ترکیہ نے تو شام پر فضائی حملے بھی کئے اور اسکی فوجیں شام کی سرحدوں میں اب تک موجود ہیں ۔اب جبکہ ترکیہ کے صدراردوغان اسرائیل کو دہشت گرد اعلان کرنے کا مطالبہ کرچکے ہیں ،تو کیا ہم امید کرسکتے ہیں کہ وہ ’دہشت گرد اسرائیل‘ پر حملہ کرکے اپنی انسانی و اسلامی حمیت کا مظاہرہ کریں گے ؟ اسرائیل مسلسل شام پر فضائی حملے کرتا رہاہے اور اب بھی اس کے حملے جاری ہیں ،کیا شام میں موجود ترکیہ کی افواج نے ا س کے خلاف کوئی موثر اقدام کیا؟دوسرا جواب اس طرح دیاجاسکتاہے کہ جب یمن میں سیاسی بحران پیداہوا اور استعماری طاقتوں نے سعودی عرب کے ذریعہ اپنے آلۂ کار منصور ہادی اورعبداللہ صالح کو یمن پر مسلط کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ناکام رہے ،جس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوئی ،اس وقت سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں نے استعماری فوجوں کے ساتھ یمن پر حملہ کیا تھا ۔اس سیاسی بحران کے نتیجے میں حوثیوں کی مزاحمتی تنظیم وجود میں آئی ،جس نے استعمار کے منصوبوں پر پانی پھیردیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہاگر مسلم حکمران استعمار کے اشاروں پر مسلمان ملکوں پر زمینی اور فضائی حملے کرسکتے ہیں ،تو کیا ایسی تشوش ناک صورت حال میں اسرائیل کے خلاف متحدہ فوجی محاذ تشکیل نہیں دیا جاسکتا تھا؟مسلمان ملکوں پر میزائیل داغنے والے ملک اسرائیل پر میزائیل داغنے سے خوف زدہ کیوں ہیں؟جبکہ ہم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اکثر مسلمان حکمران استعماری طاقتوں کے غلام ہیں اور ان کے ملکوں میں استعماری فوجیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں ،اس لئے وہ کبھی اسرائیل کے خلاف سراٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتے ۔اُوآئی سی کے اجلاس میں بھی یہ ملک فقط مسلمانوں کو فریب دینے کے لئے جمع ہوئے تھے کیونکہ ان کے عوام نے انہیں مسلسل احتجاجات کے ذریعہ اس اجلاس کے انعقاد پر مجبور کیاتھا۔ایرانی وزیر خارجہ نے غزہ کےمسئلے کے حل کے لئے دس نکاتی قرارداد پیش کی تھی ، اس پر عمل درآمد تو دور کسی نے اس پر کان تک نہیں دھرا۔اس لئے ہم مجبور اور بے بس مسلم حکمرانوں سے اسرائیل پر حملہ کرنے کی بیجا توقع نہیں رکھتے ،لیکن سادہ سالوح مسلمانوں کو ان کی اندھی تقلید اور جانبدارانہ حمایت سے باز رہنا چاہیے ۔مسلم حکمرانوں کو کم از کم حزب اللہ اور انصاراللہ سے سبق لینا چاہیے جن کے جوانوں نے اسرائیل سے لوہا لیاہے ۔یمنی فوجوں نے بحیرۂ احمر میں آبی گذرگاہ کو اسرائیلی جہازوں کے لئے غیر محفوظ بنادیا،جس نے اسرائیل کو بڑا نقصان پہونچایاہے ۔کاش یمن اور لبنان کی طرح دیگر مسلمان ملک بھی جرأت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے !اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غزہ کی تباہی کا ذمہ دار عالم اسلام ہے ،جس کی منافقانہ پالیسی اور استعمار نوازی نے یہ دن دکھائے ہیں۔
حماس کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر زندہ کردیا۔اب یہ مسئلہ فقط مسلمان ملکوں تک محدود نہیں رہاہےبلکہ پوری دنیا اس مسئلے کے حل کے لئے آواز اٹھارہی ہے ۔خاص طورپر عوام نے بلاتفریق مذہب و ملت مسئلہ فلسطین کے حل کامطالبہ شروع کردیاہے ۔اسرائیل کے تمام حلیف ملکوں میں عوام نے صہیونی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کیااور اس جنگ کو فلسطینیوں کی منظم نسل کشی سے تعبیر کیاہے ۔حتیٰ کہ جن ملکوں میں اسرائیل کے خلاف احتجاج پر پابندی اور جرمانہ عائد کردیا گیا تھا،ان ملکوں کےامن پسند عوام نے اپنے حکمرانوں کے فرمان کو بالائے طاق رکھ کر احتجاج کیا اور اپنی انسان دوستی کا ثبوت پیش کیا۔بعض غیر مسلم ملکوں نے اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کرنے کا مطالبہ رکھاہے،جیساکہ ایران نے نے اُوآئی سی کے اجلاس میں پیش قرارداد میں مطالبہ کیا تھا،لیکن مسلم حکمرانوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
اب جبکہ غزہ پوری طرح تباہ ہوچکاہےاور اسرائیلی فوجیں غزہ میں داخل ہوچکی ہیں ،اس کے بعد عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کو کس طرح اٹھایاجائے گا،یہ دیکھنا اہم ہوگا۔خاص طورپر ایران جس نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر زندہ رکھا اور اب بھی اس کی حمایت یافتہ مزاحمتی تنظیمیں اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کررہی ہیں ،وہ کیا موقف اختیار کرتاہے،اس پر دنیا کی نظر ہوگی ۔کیونکہ ایران کی کامیاب سفارت کاری کی بنیاد پر دنیا دو حصوں میں منقسم ہوئی ہے ،جس نے اسرائیل کو تنہائی کا احساس کرایاہے ۔لیکن اب حالات پل پل بدل رہے ہیں ۔ان بدلتے ہوئے تشویش ناک حالات کی بناپردنیا بہت حساس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔اگر غزہ پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہوجاتاہے تو یہ مسلم حکمرانوں کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہوگی ۔