-
اس تصویر نے تو دلوں کو جیت لیا
- سیاسی
- گھر
اس تصویر نے تو دلوں کو جیت لیا
388
m.u.h
10/10/2022
0
0
تحریر: سہیل انجم
ماں کا اپنی اولاد سے اور اولاد کا اپنی ماں سے جو رشتہ ہوتا ہے وہ بہت پاک، بہت مقدس اور بہت جذباتی ہوتا ہے۔ اس رشتے کے مناظر اکثر و بیشتر دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ بس دیکھنے والی نظر ہونی چاہیے۔ یہ ایسا رشتہ ہے جس میں نہ کوئی بناوٹ ہے نہ کوئی تصنع، نہ کوئی دکھاوا نہ کوئی ریاکاری۔ اس قسم کی قباحتوں سے بالکل پاک۔ اس رشتے کا احترام بھی بہت ہے۔ ایسے بہت کم لوگ ہوں گے جو اس رشتے کو احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتے ہوں۔ تاہم یہ دنیا ہے۔ اس میں بھانت بھانت کے لوگ موجود ہیں۔ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دنیا کی ہر اولاد اپنی ماں کا احترام ہی کرتی ہو یا وہ غیر تصنع آمیز رشتہ ہی رکھتی ہو۔ کیونکہ بہرحال اولاد کے ہاتھوں والدین کی نافرمانی بلکہ اذیت رسانی کے بھی واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے بھی کچھ نافرمان لوگ ہیں جو والدین کو اپنے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہی کے گھروں سے نکال کر بے گھر کر دیتے ہیں۔
یہ تمہید ہم نے اس لیے باندھی تاکہ یہ بتا سکیں کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھار ت جوڑو یاترا کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جس نے ہر دل والے کو جذباتی کر دیا۔ ابھی ہم بارش میں بھیگنے کے دوران راہل کی تصویر کے سحر سے نکل بھی نہیں پائے تھے کہ ایک انتہائی جذباتی تصویر سامنے آگئی۔ یوں تو اس تصویر کی تفصیل بتانے کی چنداں ضرورت نہیں لیکن بتانا ضروری بھی ہے تاکہ اس رشتے کی پاکیزگی کی نشاندہی ایک بار پھر ہو سکے۔ ہوا یوں کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے جمعرات کو کرناٹک میں راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کی۔ پیدل چلنے کے دوران راہل گاندھی کو محسوس ہوا کہ ان کی والدہ کے جوتے کے فیتے کھل گئے ہیں یا ڈھیلے ہو گئے ہیں۔ انھوں نے اپنی ماں سے لمحے بھر کے لیے رکنے کو کہا اور تقریباً اکڑوں بیٹھ کر ان کے جوتے کے فیتے باندھنے شروع کر دیئے۔ اس موقع پر بہت ازدحام تھا۔ سب لوگ رک گئے اور یہ عمل چند ثانیوں میں مکمل ہو گیا۔
لیکن یہ چند لمحے اتنے جذباتی تھے کہ ہر اہل دل جذبات سے لبریز ہو گیا۔ راہل گاندھی نے جس انداز میں فیتے باندھے اس میں انتہائی برجسگی اور فطری پن تھا۔ بناوٹ کا ذرا بھی شائبہ نہیں تھا۔ بالکل ایسا لگا کہ جیسے چلتے چلتے کسی کے پاؤں میں کوئی کانٹا چبھ جائے اور وہ بلا ارادہ بیٹھ کر اسے نکالنے لگے۔ بالکل اسی طرح جب راہل کی نظر ماں کے جوتے پر پڑی تو وہ بے ساختگی کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے اور فیتے باندھنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ننھا سابچہ ماں کے قدموں سے لپٹ کر کچھ مانگنے یا پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ لمحے بھر کی تصویر لمحے بھر میں پوری دنیا میں پھیل گئی اور جس نے بھی اسے دیکھا اسے اپنی ماں کی یاد آگئی۔
یہ ایسی تصویر تھی جو پلاننگ کرکے نہیں کھنچوائی گئی اور نہ ہی اس کی تشہیر کے لیے کسی پروپیگنڈہ مشینری کا سہارا لیا گیا۔ نہ اس کی اشاعت کے لیے اخباروں کو حکم دیا گیا، نہ الیکٹرانک میڈیا کو کوئی ہدایت دی گئی اور نہ ہی سوشل میڈیا کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بلکہ جس کسی کو بھی یہ تصویر ملی اس نے از خود اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس کے اس عمل سے کوئی چڑھ جائے گا یا اس کا یہ قدم کسی کی ندامت و شرمندگی کا باعث بنے گا۔ نہ ہی اس کی تشہیر کا مقصد کسی کی ہتک کرنا تھا۔ بس دلوں کو چھو لینے والی اس تصویر نے پہلے دلوں میں اپنی جگہ بنائی اور پھر میڈیا پر چھا گئی۔
لیکن یہ بات کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ اسی لیے انھوں نے اس کے حوالے سے بیہودہ تجزیہ کر ڈالا۔ ایک نیوز چینل نے ایک دوسری تصویر کے حوالے سے اپنے پروگرام میں کہا کہ جب ایک تصویر کو ماں بیٹے کے رشتے کے حوالے سے دیکھا جا رہا تو دوسرے کو ڈرامہ کیوں کہا جا رہا ہے۔ حالانکہ کسی نے نہ تو کسی دوسری تصویر کے حوالے سے اسے ڈرامہ کہا اور نہ ہی کسی دوسری تصویر کا اس تصویر سے موازنہ کیا گیا۔ لیکن مذکورہ نام نہاد صحافی کے دل و دماغ میں بیٹھا فتور جاگ اٹھا اور اس نے بجائے اس کے کہ اس تصویر کی ستائش کرتا اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایک دوسری تصویر کا حوالہ دے دیا۔ خیر یہ اس کا معاملہ ہے وہ جانے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تصویر نے سب کے دل جیت لیے۔
سونیا گاندھی 2016 کے بعد پہلی بار کسی عوامی پروگرام میں شریک ہو رہی تھیں۔ انھوں نے اس سے قبل بنارس میں ایک روڈ شو میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت ان کے کندھے میں فریکچر آگیا تھا جس کا آپریشن کرنا پڑا تھا۔ وہ گزشتہ ایک عرصے سے بیمار چل رہی ہیں۔ انھیں دو دو بار کورونا ہوا اور اب جبکہ وہ کورونا کو شکست دے چکی ہیں تو انھوں نے 27 ویں دن بھارت جوڑو یاترا میں حصہ لیا۔ وہ تقریباً نصف گھنٹے تک یاترا میں شامل رہیں اور پھر راہل گاندھی نے انھیں ایک گاڑی میں بٹھا کر واپس کر دیا۔ جوتے کا فیتہ باندھنے سے قبل ایک موقع پر جب بہت زیادہ بھیڑ ہو گئی تھی تو راہل نے ان کے کندھے پر اپنے بازو حمائل کرکے ان کو بحفاظت وہاں سے نکالا تھا۔
بی جے پی جو کہ پہلے ہی راہل کی یاترا سے پریشان تھی اس تصویر کے سامنے آنے کے بعد اور پریشان ہو گئی۔ اس نے سونیا گاندھی جیسی بزرگ اور ضعیفہ کا احترام کرنے کے بجائے یہ کہہ کر طنز کیا کہ وہ تو صرف نصف کلومیٹر ہی پیدل چلی تھیں۔ تو کیا بی جے پی چاہتی ہے کہ سونیا گاندھی سیکڑوں کلومیٹر پیدل چلیں اور اپنی صحت ایک بار پھر خراب کر لیں۔ کوئی بھی سنجیدہ شخص یہی کہے گا کہ بزرگوں کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے اور اتنی ہی جسمانی مشقت کرنی چاہیے جتنی کہ ان کا جسم اجازت دے۔ لیکن بی جے پی والوں کو یہ سب کہاں معلوم۔ وہ تو سیاسی نمبر بڑھانے کے لیے اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس یاترا سے کافی پریشان ہیں۔
جہاں تک یاترا کی بات ہے تو اب اس نے ایک رفتار پکڑ لی ہے۔ اس میں زبردست بھیڑ نظر آنے لگی ہے اور اب تو نیشنل میڈیا بھی اسے نظرانداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یاترا کے دوران ایک سے ایک جذباتی اور یادگار مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اسی موقع پر جب ایک آٹھ دس سال کی بچی بھیڑ کے دھکے سے گر گئی تو سونیا اور راہل دونوں دوڑ پڑے اور اس بچی کو اٹھانے کے بعد اس کی پشت سہلانے لگے اور اس سے پوچھنے لگے کہ اسے کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ انسانی ہمدردی کے ایسے مناظر بھی خوب دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں کوئی بزرگ خاتون راہل گاندھی کا ہاتھ تھامے ساتھ ساتھ چل رہی ہے تو کہیں کوئی بچی ان کو پھول پیش کرکے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہی ہے۔ ہم نے ایک منظر ایسا بھی دیکھا کہ یاترا کے روٹ سے کچھ مسافت پر ایک بس کھڑی ہے۔ اس میں خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ وہ وہیں سے ہاتھ ہلا ہلا کر راہل کو مبارکباد پیش کر رہی ہیں۔
ایک بار ایک دیہاتی خاتون یہ کہتے ہوئے راہل کو دیکھنے گئی کہ دیکھیں جواہر کے ناتی کے جوتے میں دھول لگی ہے یا نہیں۔ اب تو جواہر کا ناتی نہ تو دھول کی پروا کر رہا ہے نہ مٹی کی۔ نہ بارش کی نہ دھوپ کی۔ بس اسے اپنی ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کی یاترا مکمل کرنی ہے اور ہندوستان میں مذہب کے نام پر عوام میں تقسیم کی جو خلیج قائم کر دی گئی ہے اسے پاٹنا ہے اور انھیں ایک لڑی میں پرونا اور ایک ساتھ جوڑنا ہے۔ راہل اور سونیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس یاترا کے بارے میں سیاسی مخالفین کیا کہتے ہیں اور کیا نہیں۔ وہ تو بس یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں کہ:
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے