رویش کمار
تین طلاق کے علاوہ آپ کسی بھی مسئلے کو لے کر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ اس پر مناسب طریقے سے یا کچھ دنوں تک رپورٹنگ ہوگی یا بحث ہوگی. مسئلے اٹھتے ہیں اور ہوا ہو جاتے ہیں. جمعہ کو سپریم کورٹ کے چار سینئر جج باہر آئے اور پریس کے سامنے کہتے ہیں کہ ‘اس ملک میں بہت سے ذہین لوگ ہیں جو محتاط باتیں کرتے رہتے ہیں. ہم نہیں چاہتے کہ یہ ذہین لوگ 20 سال بعد یہ کہیں کہ جسٹس چیلامیشور، گوگوئی، لوكر اور کورین جوزف نے اپنی روح بیچ دی اور آئین کے مطابق صحیح قدم نہیں اٹھایا.’
چار جج کہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ایسے یاد کرے کہ انہوں نے اپنی روح بیچ دی اور ہم ان اٹھائے سوالوں پر بحث نہیں کر رہے ہیں. معزز ججوں کے سوالوں کو کنارے لگا کر ٹی وی میڈیا اور سوشل میڈیا اس پر بحث کرنے لگا کہ ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے، پریس کانفرنس کیوں کی، صدر کے پاس کیوں نہیں گئے، چیف جسٹس سے بات کیوں نہیں کی. یہی نہیں، سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی طرف سے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا گیا جنھیں ملک کے آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ فالو کرتے ہیں. دوسری طرف ناانصافی چیف جسٹس کے ساتھ بھی ہوئی. انہیں رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے فیصلے سے جوڑ دیا گیا اور مان لیا گیا کہ کیا فیصلہ دینے والے ہیں، ان کے فیصلوں کے قصیدے پڑھے جانے لگے اور دوسری طرف ان پر الزامات لگنے لگے. یہ انتہائی خطرناک ماحول تھا، جسٹس نے جو کہا اس پر بات نہیں، جو نہیں کہا اس پر ہنگامہ. جبکہ جمعہ کو جسٹس چیلامیشور نے کہا کہ ‘ہماری ساری کوششیں فیل ہو گئیں. ہم سب نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تک اس ادارے کو بچایا نہیں جائے گا، بھارت میں جمہوریت کو نہیں بچایا جا سکتا ہے. ‘
کسی نے کہا کہ سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ کیوں ملنے گئے، تو کسی نے اسی زور سے نہیں پوچھا کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری چیف جسٹس سے کیوں ملنے گئے. جبکہ یہ دونوں ہی باتیں ایک حد سے زیادہ اتنی اہم نہیں تھیں کہ بینچ کی تشکیل کو لے کر کئے گئے امتیاز کے سوال کو کنارے لگا دیا جائے. دو مہینہ پہلے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط پر بھی آدھی ادھوری بحث ہوئی. یہ آپ فیصلہ کریں کہ کیا جان بوجھ کر ہو رہا تھا اور کیا جان بوجھ کر نہیں ہو رہا تھا. آخر ہم اس پر بات کیوں نہیں کر سکتے کہ ججوں نے کیا کہا اور اس کو ٹھیک کرنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے.
بار کونسل آف انڈیا نے اس معاملے میں پہل کی اور 16 ججوں سے ہفتہ سے لے کر اتوار کی رات تک ملاقات کی. بار کونسل آف انڈیا کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اس سے دور رہیں اور میڈیا نے بھی کچھ قیاس آرائی پھیلائی جو مناسب نہیں تھی. پیر کی صبح اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چائے میٹنگ میں تمام جج موجود تھے اور مسئلے کو حل کیا گیا. اچھی بات ہے. لیکن بات کیس کی سماعت کے لئے بینچ کے قیام اور میمورنڈم آف پروسیجر کو لے کر ہوئی تھی، اس پر کیا بات ہوئی، کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہے. امید کی جا سکتی ہے کہ کسی صحیح وقت پر سپریم کورٹ ملک کو بتائے گا کہ کس طرح سے معاملہ سلجھا لیا گیا، کیا طریقہ کار بنے ہیں یا بننے والی ہیں جس سے لوگوں کو ادارے کے تئیں اعتماد مزید بہتر ہو سکے.
’’بار اینڈ بینچ ڈاٹ کوم ‘‘
اخباروں اور ویب سائٹ پر اس واقعہ کو لے کر کئی مضامین لکھے گئے ہیں جنھیں آپ خالی وقت میں پڑھ سکتے ہیں. اس سے آپ عدلیہ کے اندر اندر کے طریقہ کار، اخلاقیات، قانونی دفعات ان سب کے بارے میں جان سکیں گے. ’ ’بار اینڈ بینچ ڈاٹ کوم ‘‘پر ہرپریت گیانی کا مضمون پسند آیا. اگر آپ پڑھ سکتے ہیں تو انٹرنیٹ پر تلاش کرکے ضرور پڑھیں. ہرپریت سنگھ گیانی نے 1991 کے ويراسوامي کیس میں ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کئی بار اندر اندر کے اندھیرے پر روشنی نہیں پڑنے دی جاتی ہے اور ڈرپوک میڈیا بھی کنارہ کر لیتا ہے.
اس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ چیف جسٹس یا کسی بھی جج کے خلاف تحقیقات سے پہلے پولیس افسر کو چیف جسٹس سے اجازت لینی ہوگی. جبکہ اس کا پراودھان مقننہ کے بنائے کسی قانون میں نہیں ہے.
ہرپریت نے اروناچل پردیش کے وزیر اعلی كلكھو پل کے سوسائڈ نوٹ کا ذکر کیا ہے، جس میں خودکشی سے پہلے ایک وزیر اعلی نے وکیل، سیاستدان اور ججوں پر رشوت مانگنے کے الزام لگایا ہے. کیوں اس معاملے پر بہادر چینل خاموش ہو گئے. ایک وزیر اعلی خود کشی کرتا ہے، سوسائڈ نوٹ ملتا ہے اور وہ بحث کے قابل ہی نہیں ہے. انڈین ایکسپریس میں گوتم بھاٹیہ کا مضمون بھی آپ کو پڑھنا چاہیے. گوتم نے بتایا ہے کہ امریکہ کے سپریم کورٹ میں تمام 9 جج کیس کی سماعت کے لئے ساتھ بیٹھتے ہیں. انگلینڈ میں 12 جج بیٹھتے ہیں. اکثر 5 یا اس سے زیادہ ججوں کا پینل تو ہوتا ہی ہے. بھارت کی سپریم کورٹ میں 26 جج ہیں، یہاں زیادہ تر 2 ججوں کی بنچ ہی سماعت کرتی ہے. ہم صحافیوں اور عام لوگوں کے لئے بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جس تعداد میں بھارت میں کیس ہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ تمام 9 جج کیس کی سماعت کے لئے ساتھ بیٹھیں. اس بحث کے بہانے اگر ہم عدالت کے اندر اندر کے انتظامی عمل کو سمجھیں تو یہ آگے کے ہمارے سفر میں بہت مدد کرے گا.
ابھی آتے ہیں سی بی آئی کے جج لويا کے معاملے میں۔ اس کیس کی سماعت کو لے کر بھی جم کر تنازعہ ہوا ہے. اتوار کو جج بی ایچ لويا کے بیٹے انوج لويا اور ان کے وکیل نے پریس کانفرنس کی ہے. انوج نے کہا کہ انہیں ان کے والد کی موت پر کوئی شک نہیں ہے. نہ انکوائری چاہئے نہ سیاست ہونی چاہئے. ایک تنازعہ اٹھا کہ انوج نے اپنے ویڈیو میں اس پریس کانفرنس کے لئے امت شاہ سے بات کی تھی. کئی جگہ وهاٹس اپ یونیورسٹی میں چل رہا ہے. یہ مکمل طور پر جھوٹ ہے. انوج لويا کے ساتھ بیٹھے ایک شخص نے کہا کہ امت سر سے مل کر ہم نے اپنی بات کہی. انہوں نے پاس بیٹھے وکیل امت نایک کو امت سر کہا تھا نہ کہ امت شاہ کو. جھوٹے حقائق سے ہوشیار رہیے چاہے وہ کسی بھی طرف کے ہوں. 20 نومبر کو جج لويا کیس کی كیروان میگزین میں پہلی بار خبر چھپی تھی تب جج لويا کی ڈاکٹر بہن کا ویڈیو بیان بھی جاری کیا تھا. آپ خود یاد کیجئے کہ کس چینل نے اس بیان کو دکھایا تھا. کس کس نے اس اسٹوری کو فالو کیا اور کس نے خاموشی اختیار لی تھی. کیا پھر وہ ڈر گئے تھے جو اب بہادر بن رہے ہیں. اچھا کر رہے ہیں کہ انوج لويا کے بیان کو نمایاں کرکے دکھا رہے ہیں لیکن کیا وہ اس کہانی کے ساتھ چھپے حوالات، دستاویزات کی بھی بات کر رہے ہیں، وہ نہیں کریں گے کیونکہ بہتوں کو اب میڈیا میں ڈر لگنے لگا ہے.
20 نوبر سے لے كر 14 جنوری کے درمیان كیروان میگزین نے جج لويا کی موت سے متعلق دس مضامین چھاپے. ان خبروں میں صرف خاندان والوں کا بیان نہیں تھا بلکہ بہت سارے سوال اور دستاویز بھی تھے. ان سب پر بیشتر چینل خاموش ہی رہے. کسی چینل پر انوج کی ڈاکٹر پھوپھی کا سوال نہیں چلا، مگر انوج کا بیان چل رہا ہے. اب اس کے ذریعہ کہانی کو مسترد کیا جا رہا ہے. كیروان میگزین کے ایڈیٹر هرتوش سنگھ بل ابھی بھی اپنی اسٹوری پر قائم ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں.
كیروان نے اپنی کہانی میں بتایا تھا اور ثبوت دکھایا تھا کہ 2015 میں انوج لويا نے اپنے باپ کی موت کی جانچ کی مانگ کی تھی اور جان کو خطرہ بتایا تھا. اب کیوں کہہ رہے ہیں کہ کوئی شک نہیں، وہی بہتر بتا سکتے ہیں. كیروان کی کہانی آنے کے بعد 29 نومبر کو ٹائمز آف انڈیا میں خبر چھپتی ہے کہ انوج لويا نے بامبے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مل کر نے کہا کہ خاندان کو کوئی شکایت نہیں ہے. تب اس دن تمام نیوز چینلز نے اس خبر کے مطابق یا انوج لويا کے بیان کے تئیں جوش کیوں نہیں دکھایا. کیوں خاموش رہ گئے، کیا کہیں چناو چل رہا تھا اس لیے. بھارت کی جمہوریت خطرے میں ہو یا نہ ہو، میڈیا ضرور خطرے میں ہے. کس کے اشارے پر کب کون بول رہا ہے، کب چپ ہو جا رہا ہے، اب خبر سے زیادہ اس کا پتہ رکھیے. کانگریس پارٹی نے جج لويا کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے.
جمعہ کو سپریم کورٹ نے جج لويا کے معاملے کو سنگین بتایا تھا. 16 جنوری کو مہاراشٹر حکومت کو اس معاملے میں جواب دینا ہے. 8 جنوری کو بامبے لویر یونین نے ہائی کورٹ میں عرضی لگائی ہے کہ معاملے کی جانچ کی جائے. تو سپریم کورٹ میں کیا حل کیا گیا. جو دو ماہ کے خط سے نہیں سلجھا وہ چائے پر کس طرح حل کیا گیا. ملک کو مسئلے کے پتہ چلا تو کیا اس کے حل کا پتہ نہیں چلنا چاہئے.
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)