-
مدارس کا سروے:مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ
- سیاسی
- گھر
مدارس کا سروے:مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ
384
m.u.h
19/09/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
اترپردیش کی یوگی حکومت نے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے شروع کردیاہے ۔لکھنؤ سمیت دیگر اضلاع میں متعدد مدارس کا سروے کیا جاچکاہے ۔سرکار کے مطابق سروے کا مقصداساتذہ کی تعداد ،نصاب ِ تعلیم ،مدرسے کے الحاق اور وہاں دستیاب بنیادی سہولتوں کی تفصیلات معلوم کرناہے۔کہاجارہاہے کہ یہ سروے قومی کمیشن برائے تحفظ ِ حقوق ِ اطفال کی ہدایات کے مطابق کرایا جارہاہے تاکہ مدارس میں طلبا کو دستیاب بنیادی سہولتوں کا جائزہ لیا جاسکے۔سوال یہ ہے کہ اترپردیش حکومت مسلمانوں کی اتنی ہمدرد اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف اس قدر متوجہ کیوں ہے ؟اس کا بظاہر جواب یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کے تمام تعلیمی اداروں اور تنظیموں کا ریکارڈ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔مدرسوں کی فنڈنگ پر قدغن لگانا اور اس کی تہہ تک پہونچنا سرکار کے لئے بڑا مسئلہ ہے ،اس لئے مدرسوں سے ملحق تنظیموں کو بھی سروے کے دائرہ میں رکھا گیاہے ۔جبکہ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ مدرسے قومی امداد اور شرعی رقومات سے چل رہے ہیں ،اس فنڈنگ میں شفافیت اور عدم شفافیت کا مسئلہ مدارس اور ملت کا مسئلہ ہے سرکار کا نہیں!ملت کی غفلت اور مدرسوں کے موروثی نظام نے ضرور شفافیت پر سوال کھڑے کئے ہیں لیکن اس سے سرکار کا کیا تعلق ہے ؟سرکار کا یہ منشا بغیر سروے کے بھی پورا ہوسکتاتھا ،البتہ اس کے لئے مدارس کے ذمہ داروں اور مسئولین سے گفتگو درکار تھی۔سروے ٹیم مدارس کی زمین ،مروجہ نصاب اور مدرسہ کے ذرائع آمدنی پر زیادہ توجہ مرکوز کررہی ہے جس سے حکومت کی نیت پر سوال کھڑے ہورہے ہیں ۔
اس سروے کا بنیادی مقصد مدارس کی تمام تر فعالیت اور فنڈنگ کو زیر نظر لاناہے کیونکہ یرقانی تنظیموں کا دعویٰ ہےکہ مدارس دہشت گردی کا اڈّہ ہیں۔اترپردیش کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی مدارس کی فعالیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتارہاہے ۔یرقانی لیڈر بیان دیتے رہے ہیں کہ مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ظاہر ہے ان بیانات کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے لیکن مسلم مخالف طبقات کو مشتعل کرنے اور حکومتوں کو مدارس پر شکنجہ کسنے کے لئے ایسے بیانات کا سہارا لیاجاتاہے ۔آسام میں تو حکومت نے کئی مدارس کو دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کے الزامات کے تحت مسمار کرنے کا حکم دیاہے ۔اسی طرح کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں مدارس کے خلاف تحریک جاری ہے ۔اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم و تربیت کے زیادہ تر امور مدارس اسلامیہ کے ذریعہ انجام پذیر ہوتے ہیں ۔اس لئے حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کی فعالیت پر قابو پالیا جائے یا انہیں مشکوک ثابت کرکے مسمار کردیا جائے ۔ورنہ ہندوستان میں فقط مسلمانوں کے مدرسے اور ادارے موجود نہیں ہیں ۔اب تک کسی دوسرے طبقے اور فرقے کے مذہبی اداروں کے سروے کا حکم جاری نہیں کیا گیا ۔خود آرایس ایس پورے ہندوستان میںتعلیمی فعالیت رکھتی ہے مگر اس کے لئے کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا۔ آرایس ایس کی شاخوں میں بچوں کو ہتھیاچلانے کی تربیت دی جاتی ہے ،اس طرف سرکار کی نگاہ کیوں نہیں جاتی؟ کیا اس سروے کے بعد مدرسوں میں ہتھیار چلانے کی تربیت کی اجازت دی جاسکتی ہے ؟ہرگز نہیں!اور نہ مسلمان یہ چاہتاہے کہ اس کے بچوں کے ہاتھ میں کتابوں کی جگہ ہتھیار ہوں۔آرایس ایس بچوں کو ہتھیارچلانا کیوں سکھارہی ہے یہ ایجنڈہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔
بی جے پی کے متعدد وزیر اور یرقانی تنظیموں سے وابستہ عناصر ایک عرصے مدارس کو بند کرنےکا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ان کے مطابق مدارس میں دیگر مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور مدرسے دہشت گردی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔2014 میں بی جے پی کے نفرت انگیز لیڈر ساکشی مہاراج نے کہاتھاکہ مدارس میں ’لو جہاد ‘ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔انہوں نےمدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا محور ٹھہراتے ہوئے ملک دشمن قرار دیا تھا ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی اس راہ میں ساکشی مہاراج سے پیچھے نہیں رہے۔انہوں نے بھی ’’لوجہاد ‘‘ اور ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا ۔انہی دنوں بی جے پی کی مرکزی وزیر مینکاگاندھی نے ذبیحہ خانوں پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاتھاکہ مذبح خانوں میں گوشت کی تجارت سے جو منافع حاصل ہورہاہے اس سے دہشت گردوں کو فنڈنگ کی جارہی ہے ۔آسام میں تو دہشت گردی کے الزام میں مدرسوں کو منہدم کیاجارہاہے جبکہ آسام کے وزیر اعلیٰ اب تک ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے جس سے مدرسوں پر دہشت گردی کے الزام کو صحیح ٹھہرایاجاسکے ۔ظاہر ہے ایسے بیانات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ایسا صرف اس لئے کیاجارہاہے تاکہ مسلمانوں کو بدنام کرکے ’ہندوتوا‘ ایجنڈہ کے منصوبہ ساز اقتدار پر قابض ہوسکیں۔وہ کامیاب اس لئے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے پاس مضبوط اور دوراندیش قیادت موجود نہیں ہے ۔
حکومت اور یرقانی تنظیموں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس مدارس کے علاوہ کوئی بڑا قومی سرمایہ نہیں ہے ۔مدارس اسلامیہ نے مسلمانوں کی روح میںتازگی پیداکی ہے اور آج بھی مدارس کا کرداردیگر انسٹی ٹیوشنزاور تعلیمی اداروں سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔مدارس اسلامیہ نے ہر تحریک اور انقلاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاہے ۔اردو کی بقا اور ترقی میں بھی مدارس کا بہت اہم کردار رہاہے ۔آج تمام یونیورسیٹوں اور کالجوں کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اردو شعبوں میں طلباء کی اکثریت مدارس سے تعلق رکھتی ہے ۔دیہات اور قصبات میں بھی مکتبوں اور مدرسوں میں اردو زندہ ہے ۔اگر دیہات اورقصبات کے مدارس اور مکاتب کی افادیت اور عظمت کو نظر انداز کردیا جائےتو اردو لب گور نظر آئے گی ۔اگر ہمارے علمائے کرام ذرا سی بیداری کا ثبوت پیش کریں اور مدارس کو معاصر تعلیمی منظرنامے سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو آج بھی مدارس ہر تحریک اور انقلابی جدوجہد میں دیگراداروں کے شانہ بہ شانہ نظر آئیں گے ۔لیکن علمائے کرام کے سیاسی و ذاتی مفادات اور مدارس کے موروثی نظام نے پوری ملت اسلامیہ کو متاثر کیاہے ،اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس سلسلے میں مدارس کے ذمہ داروں سے بھی سوال کیا جانا چاہیے ۔کیاانہوں نے قومی سرمائے کا صحیح استعمال کیاہے ؟مدارس کی عالیشان عمارتیں کسی کی شخصی جاگیر نہیں ہیں ۔مدارس کا یہ ڈھانچہ قومی سرمائے سے تعمیر ہواہے ،اس لئے ان اداروں کو شخصی کیوں بنایا جارہاہے؟ قومی عمارتیں موروثی کیوں بنتی جارہی ہیں ؟ مدارس کا تخمینہ اور خرچ عوام کے سامنے رکھاجاتاتھا مگر اب صرف تخمینہ رکھاجاتاہے خرچ اور بچت کی تفصیلات ندارد ہیں ۔سرکاری مدرسوں کا تو مزید برا حال ہے ۔ہر مدرسے کو موروثی سمجھ لیاگیاہے جہاں اکثریت مسئول مدرسہ کے اہل خاندان کی ہوتی ہے ۔اس کے بعد یہ لوگ منبرومحراب میں قوم کو امرباالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے نصیحتیں کرتے ہیں ۔کیا قوم ان کی خیانتوں اوربددیانتی سے واقف نہیں ہوتی ؟واقعیت یہ ہے کہ ان کی زبانوں سے ناصحانہ تاثیر اسی لئے ختم ہوگئی ہے کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کی تائید نہیں کرتا۔
مدارس اسلامیہ پر تنقید کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت ہے جو ہر مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے ۔کرناٹک سمیت دیگر ریاستوں میں مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ مدارس میں مہابھارت ،گیتا اور منوسمرتی کی تعلیم دی جائے ۔ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرایاجائے ۔سوریہ نمسکار کو رواج دیاجائے ۔اس کے لئے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں اور ایسا اس لئے ممکن ہےکیونکہ مسلمانوں کے درمیان غداروں کی کمی نہیں ہے ۔مدارس کے نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ تو مسلمان دانشور بھی ایک عرصہ سے کررہے ہیں لیکن مدارس کے ذمہ داروں نے ان کی تجویزات کو لائق اعتنا نہیں سمجھا ۔مدارس کا آمرانہ موروثی نظام انہیں کسی پیش نہاد پر غورکرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔وہ ہر تجویز کے سامنے خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں اس لئے آج تک مدارس کے نصاب میں خوشگوارتبدیلی رونما نہیں ہوسکی ۔بعض مدارس نے اس راہ میں خوشگوار اقدامات کئے ہیں لیکن وہ نمونۂ عمل نہیں بن سکے ۔افسوس یہ ہے کہ آج بھی ہمارے مدارس کا نصاب انگریزوں کاترتیب دیاہواہے ۔اس میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہوسکی۔قصے اور کہانیوں کی کتابیں کبھی مدارس کے نصاب کا حصہ نہیں تھیں ۔انگریز حکومت سے پہلے کانصاب آج بھی تاریخ میں موجود ہے اس کا مطالعہ کیا جائے ۔فورٹ ولیم کالج نے مدارس کے نصاب میں اس طرح کی کتابوں کا اضافہ کروایا جو زبان و بیان کی حد تک تو بہت اہم تھیں مگر ان میں علم ندارد تھا ۔انگریزوں کے نصاب تعلیم کے رواج کے بعد مدارس جمود کا شکار ہوتے چلے گئے اور پھر مدرسوں سے کوئی بڑا دانشور نہیں نکلا ۔ایسا اس لئے کیاگیاکیونکہ انگریزحکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب کی فکری موجیں مدارس اسلامیہ سے اٹھ رہی تھیں ۔لہذا منظم سازش کے تحت مدارس اسلامیہ کے تحریک آمیز نصاب کو جمود میں بدل دیا گیا ۔آج اس نصاب پر از سرنو غورکرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس کا کھویا ہواوقار بازیاب ہوسکے ۔
مدارس کے سروے کا عمل شروع ہوچکاہے ۔مسلمان اس کی شدومد کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں لیکن کیا موجودہ حکومت کی نگاہ میں ہماری مزاحمت کی کوئی قدروقیمت ہے ؟بہتر ہوگا کہ مدارس کے نظام کوبہتر بنایا جائے اوراس نظام کی باگ ڈور قابل اور باصلاحیت افراد کے ہاتھوں میں سونپی جائے ۔مدارس کا خرچ برداشت کرنے کے لئے ملت ہمیشہ پیش پیش رہی ہے اس لئے سرکاری الحاق کو اہمیت نہ دی جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب سے مدرسے سرکارسے ملحق ہوئے ہیںان کی تعلیمی و انتظامی حیثیت ختم ہوکررہ گئی ۔حساب و کتاب میں شفافیت کو رواج دیاجائے اور پورا حساب ملت کے سامنے رکھاجائے ۔مدارس کی کمیٹیوں میں خاندانی روایت کو فروغ نہ دے کر اندیش مند اور لائق لوگوں کو رکھا جائے ۔نصاب تعلیم پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ مدرسوں سے تحریکی و انقلابی علماءنکل سکیں۔آج بھی ملت اسلامیہ کی توقع مدارس سے وابستہ ہے ۔اس توقع پر کھرا اترنے کی اشد ضرورت ہے ۔