-
ہندوستان کی شناخت پر سنگھ اور کانگریس آمنے سامنے
- سیاسی
- گھر
ہندوستان کی شناخت پر سنگھ اور کانگریس آمنے سامنے
156
M.U.H
24/04/2024
0
0
تحریر:سراج نقوی
الیکشن کمیشن نے بھلے ہی پارلیمانی انتخابات کے دوران مذہبی موضوعات کو نہ چھیڑنے اور سیاست میں اس کا استعمال نہ کرنے کے لیے ہدایات جاری کر دی ہوں۔ بھلے ہی مثالی ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کرنے کی تلقین کی ہو لیکن ہندوتوا وادی طاقتوں کے لیے ’ہندوتوا‘ ہی سب سے بڑا سیاسی ہتھیار ہے اس لیے یہ امید کرنا کہ یہ طاقتیں انتخابی عمل کے دوران اپنے ایجنڈے سے پیچھے ہٹ جائیں گی خود فریبی ہی ہوگی۔ یہ الگ بات کہ ہندوتوا کے سہارے اپنی انتخابی کشتی پار لگانے کے لیے بے چین بی جے پی نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ’ہندوتوا‘ کے ایشو پر لب کشائی کے لیے آر ایس ایس کو آگے کر دیا ہے۔ ملک کی سیکولر شناخت سے متعلق راہل گاندھی کے بیان کے ایک دن بعد یعنی جمعہ کو سر سنگھ سنچالک موہن بھاگوت نے ’ہندوتوا‘ کے تعلق سے جو کچھ کہا اسے راہل گاندھی کے ہندوستان کی سیکولر شناخت سے متعلق بیان کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
دراصل راہل گاندھی نے پہلے مرحلے کے انتخابات سے ایک روز قبل کنور کی ایک بڑی عوامی ریلی میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ملک میں بدامنی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ راہل نے بی جے پی پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ کثرت میں وحدت کے نظریے کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ راہل گاندھی نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی جدید تاریخ میں یہ پہلا ایسا الیکشن ہوگا کہ جو ملک کے آئین اور جمہوری ڈھانچے پر مرکوز ہوگا۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے حال ہی میں ایسے بیانات دیے ہیں کہ جن سے عوام میں یہ تاثر گیا ہے کہ بی جے پی آئین کو بدلنا چاہتی ہے اور اسے ہندوتوا ایجنڈے کے مطابق بنانا چاہتی ہے۔ حالانکہ اس مسئلے پر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سیاسی مصلحتوں کے تحت کھل کر کچھ بولنے سے گریز کرتی ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ بی جے پی اور اس کے ذہنی تربیت کرنے والے آر ایس ایس کا اس معاملے میں کیا نظریہ ہے۔ راہل گاندھی نے مذکورہ ریلی میں ’کثرت میں وحدت‘ کے اپنی پارٹی کے موقف کو واضح کیا اور یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ کانگریس ایسا نہیں ہونے دے گی۔
لیکن راہل گاندھی کے مذکورہ بیان کے اگلے ہی دن یعنی 19اپریل کو آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا اسے راہل گاندھی کے بیان کے برعکس اور بی جے پی و سنگھ کے ہندوتوا سے متعلق موقف کے عین مطابق مانا جا سکتا ہے۔ بھاگوت نے ’راشٹریہ سویئم سیوک سنگھ‘ کے عنوان سے شائع ایک کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر ناگپور میں اپنی تقریر میں ہندوستانیوں کی ’ہندو‘ شناخت پر زور دیا لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے بغیر کسی مذہب کا نام لیے جو شگوفے اپنی تقریر میں چھوڑے ان سے صاف طور پر اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کا روئے سخن کس طرف تھا۔ بھاگوت کا کہنا تھا کہ ہماری شناخت کے تعلق سے ”معلومات کا فقدان“ ہے اور لوگوں کو یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی شناخت بطور ہندو ہی ہے۔ لیکن شناخت کے تعلق سے سنگھ کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ، ”بار بار ہمارے ملک میں کوئی آتا رہا اور ہم اپنی کوتاہیوں کے سبب غلام بنتے گئے۔ بھاگوت کے مطابق اس کوتاہی کا احساس کیا جانا چاہیے اور اس بیماری کا علاج ہونا چاہیے۔ بھاگوت کو خوف ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ایسے حالات دوہرائے جاتے رہیں گے۔ بھاگوت کہتے ہیں کہ برسوں کی غلامی نے ہمیں ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے، لہذا ہمارے پورے سماج کو ایک ”کامن سوتر“ کے تحت متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھاگوت جسے کامن سوتر کہہ رہے ہیں وہ کیا ہے، وہ جس ہندو شناخت کی بات کہہ رہے ہیں اس میں دیگر مذہبی اقلیتوں کا مقام اور ان کی اپنی شناخت کہاں ہے؟ ان کے مذہبی اور سماجی حقوق کو کس خانے میں رکھا جا رہا ہے۔
دراصل آر ایس ایس کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے غیر ہندو حکمرانوں کے تعلق سے ایک طرح کے احساس کمتری کی شکار رہی ہے۔ بھاگوت کو لگتا ہے کہ ہندوستان کے لوگوں بلکہ صاف کہیں تو سیکولر ہندوؤں میں معلومات کی کمی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سنگھ نے ہی اپنے کارکنوں کو ہمیشہ اس ملک کی خوبصورت تاریخی حقیقتوں سے دور رکھتے ہوئے ان میں فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی تعصب کا زہر بھرنے کی کوشش کی ہے۔ کیا بھاگوت نہیں جانتے کہ اس ملک کو ایک متحدہ ہندوستان بنانے کا کارنامہ ان مسلم حکمرانوں نے ہی انجام دیا کہ جن کے نام ہندوستان کی تاریخ سے مٹانے کی کوشش سنگھ کی سیاسی شاخ یعنی بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں کر رہی ہیں۔ جس اکھنڈ بھارت کا خواب بی جے پی دیکھتی ہے اسے سب سے پہلے مسلم حکمرانوں نے ہی تعبیر بخشی اور اس ملک کو اپنا وطن قرار دیکر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا رول ادا کیا لیکن جب انگریز حکمرانوں سے ملک کو آزادی ملی تو سیاسی مفاد پرستی کے تحت پاکستان کے قیام کے نام پر ملک کے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ سلسلہ سنگھ اور فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اب بھی جاری ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ اور تفصیلی بحث کا موضوع ہے لیکن ناگپور کے پروگرام میں موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا اسے موجودہ پارلیمانی الیکشن کے تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔
موجودہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کیا ہوں گے، اس پر دعوے کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات تو بہرحال واضح ہے کہ مودی حکومت اور بی جے پی قیادت میں اس مرتبہ اس اعتماد کا فقدان صاف نظر آ رہا ہے جو بی جے پی کی ہیٹ ٹرک کے لیے درکار ہے۔ دراصل عوام کو مذہب ذات اور فرقوں کے نام پر تقسیم کرنے کی پالیسی کو اب عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ لوگ جان چکے ہیں کہ مند ر مسجد ایشو سے نہ تو کسی کا پیٹ بھر سکتا ہے، نہ کسی کو روزگار مل سکتا اور نہ ملک کی معیشت کو چار چاند لگ سکتے ہیں۔ یعنی مذہبی جذبات کی رو میں ووٹ دینے والے ’اندھ بھکتوں‘ کی تعداد اب کافی کم ہو گئی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بی جے پی قیادت کے پاس مفاد عامہ کے کاموں کی کوئی ایسی فہرست نہیں کہ جو اس نے انجام دیے ہوں اور جن کا فائدہ ملک کے عام آدمی کو پہنچا ہو۔ ان عام آدمیوں میں ظاہر ہے اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جنھیں ہندو جذبہ تفاخر کی افیم دیکر بہلانے کی کوشش بی جے پی کرتی رہی ہے لیکن اب یہ نشہ ملک کے دگرگوں حالات کے سبب ہرن ہو رہا ہے ۔لوگ بی جے پی کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی موجودگی میں بی جے پی ہندوتوا جیسے موضوع پر کھل کر کچھ بول بھی نہیں سکتی۔ البتہ آر ایس ایس یہ کام اس لیے کر سکتا ہے کہ وہ اپنے بچاؤ میں کہہ سکتا ہے کہ وہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔ اس کے باوجود عوام یہ جانتے ہیں کہ جب آر ایس ایس ہندو شناخت کا مسئلہ اٹھا رہا اور اس بہانے ہندوؤں کو متحد ہونے کا پیغام دے رہا ہے تو اس کا سیاسی فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ سنگھ کی پروردہ سیاسی تنظیم بی جے پی کو ہی ہوگا۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بیانات کے الیکشن پر پڑنے والے ممکنہ اثرات پر غور کرے اور ایسے معاملے میں مناسب قدم اٹھائے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھاگوت کے بیان کا نوٹس لیں اور اس معاملے میں الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ اس لیے کہ ملک کے آئین اور اس کی سیکولر شناخت کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔