-
امریکہ کیوں جل رہا ہے؟
- سیاسی
- گھر
امریکہ کیوں جل رہا ہے؟
1049
m.u.h
07/06/2020
0
0
تحریر: معصوم مرادآبادی
دنیا کا سب سے طاقتور ملک امریکہ اس وقت نسل پرستی کی آگ میں بری طرح جل رہا ہے۔ آتشزنی، لوٹ مار اور تشدد کے مناظر اتنے ڈراؤنے اور لرزہ خیز ہیں کہ انھیں پوری طرح الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خود کو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب ملک قرار دینے والے امریکہ میں ایسے دل خراش مناظر بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورے امریکہ میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے اور نظم ونسق کی مشنری پوری طرح گھٹنوں پر آگئی ہے۔ کئی برس پہلے جب میں نے امریکی وزارت خارجہ کی دعوت پر مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک سفر کے دوران مسلسل تین ہفتوں تک امریکہ کی ہوشربا ترقی اور بہترین نظام کو دیکھا تھاتو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیاتھا، لیکن آج امریکہ میں جوکچھ ہورہا ہے اس کو دیکھ کر ماضی کی تمام یادیں دھندلی پڑگئی ہیں۔ جس ملک کو اپنے چست درست نظام کی وجہ سے میں دنیا کا سب سے بہترین ملک سمجھتا تھا،وہ ایک سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد بدترین لاقانونیت اور افراتفری سے گذر رہا ہے۔
سفید فام پولیس افسرکے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہری کی دردناک موت کے خلاف پھوٹنے والے غم وغصہ کی آگ اتنی تیز ہے کہ اس سے وہائٹ ہاؤس بھی محفوظ نہیں رہا۔ حالات اتنے ابتر ہوئے کہ صدر ٹرمپ کوایک رات وہائٹ ہاؤس کے بنکر میں چھپ کر گزارنی پڑی۔احتجاج نے بیشترامریکی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ سفید فام شہری بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کی حمایت میں برطانیہ،فرانس اور کناڈا جیسے کئی یوروپی ملکو ں میں بھی احتجاج ہورہے ہیں۔ کرفیو کے باوجود حالات قابو سے باہر ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ کو سیاہ فام لوگوں کے زخمی جذبات پر مرہم رکھنا چاہئے تھا، وہ دھمکی اور غرور کی زبان بول رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے مرحلے میں ہورہا ہے جب امریکہ کورونا وائرس کی بدترین تباہ کاریوں کاشکار ہے۔ اس وبا سے اب تک ایک لاکھ امریکی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں اور لاکھوں اس مہلک وبا کا شکار ہیں۔
”میں سانس نہیں لے پارہا ہوں، میرا دم گھٹ رہا ہے۔“ پولیس کے ہاتھوں دردناک موت کاشکار ہونے والے جارج فلائیڈکے یہ آخری الفاظ اس وقت پوری دنیا میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کا عنوان بن گئے ہیں۔ مضبوط قد وقامت کے 46 سالہ جارج فلائیڈکو سگریٹ خریدنے کے لئے ایک جعلی نوٹ چلانے کے جرم میں جو سزا دی گئی ہے، اس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک پولیس افسرلگ بھگ آٹھ منٹ تک اپنے گھٹنے سے فلائیڈ کی گردن دبائے بیٹھا نظر آرہا ہے۔ اس کا ویڈیو منظرعام پر آتے ہی سیاہ فام باشندوں میں غم و غصہ پھوٹ پڑا اور وہ سراپا احتجاج بن گئے۔لیکن پورے امریکہ میں آگ لگانے کا کام صدر ٹرمپ کے اس بیان نے کیا جس میں انھوں نے مظاہرین کو’لٹیروں‘ سے تشبیہ دی تھی اور ان کا استقبال گولیوں سے کرنے کی بات کہی تھی۔ ٹرمپ کے اس بیان کی گرفت ہیوسٹن کے پولیس سربراہ ایسیویڈو نے ان الفاظ میں کی”اگر آپ کے پاس اس مسئلہ سے نپٹنے کی کوئی اچھی تجویز نہیں ہے تو برائے کرم اپنا منہ بند رکھیں۔ یہ وقت لوگوں کا دل جیتنے کا ہے، نہ کہ انھیں دھمکی دینے کا۔“
ظاہر ہے اس موقع پر اگر کوئی ذمہ دار اور باوقار شخص امریکہ کا صدر ہوتا تو وہ ایسی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کرنے کی بجائے اس شرمناک واقعہ کی مذمت کرتا۔ قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی بات کرتا۔ٹرمپ کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور وہ اب بھی اس واقعہ کی آڑمیں اگلے صدارتی انتخاب میں اپنی کامیابی کے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گوروں بنام کالوں کی سیاست صدر ٹرمپ کو فائدہ پہنچائے گی یا نقصان یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ حالیہ واقعات نے دنیا کے سامنے ان کی شبیہ ایک ناکام حکمراں کے طور پر پیش کی ہے۔ کورونا کے دور میں روئے ز مین پر سب سے ناکام شخص کے طور پر ابھرنے والے صدر ٹرمپ نے عین ممکن ہے ’لوٹ اور شوٹ‘ والا بیان الیکشن میں کچھ حاصل کرنے کے مقصد سے دیا ہو، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا گورے امریکی اس یک طرفہ واقعہ میں ٹرمپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی غلطی کریں گے۔اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ امریکہ ہی نہیں یوروپی ملکوں میں اس واقعہ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی اکثریت سفید فام لوگوں پر مشتمل ہے۔ان میں بڑی تعداد میں طلباء بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ”جارج کی بے رحمی سے سانس روکی گئی۔ پولیس ایسا کیسے کرسکتی ہے؟ ہم صرف اس لئے خاموش نہیں بیٹھ سکتے کہ کیونکہ ہم سفید فام ہیں۔ آخر سانس لینے کا حق تو سبھی کو ہے۔“
امریکہ میں اس وقت لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر ہیں۔ چالیس صوبوں کے140 شہروں میں آتشزنی،تشدد اور لوٹ مار ہورہی ہے۔ راجدھانی واشنگٹن ڈی سی سمیت چالیس شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ اب تک دس ہزار سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان مظاہروں میں اب تک سیکریٹ سروس کے درجنوں ایجنٹ زخمی ہوئے ہیں۔د رجنوں لوگ اپنی جان گنواچکے ہیں۔اکیلے شکاگو میں 16لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس احتجاجی تحریک کا موازنہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے وقت سال 1968 میں ہوئے غیر معمولی مظاہروں سے کیا جارہا ہے۔اس وقت بھی مارٹن لوتھر کنگ کا قتل ایک سفید فام شخص نے کیا تھا۔4 اپریل 1968کو ہوئے اس سنسنی خیز قتل کے بعدامریکہ میں ہوئے مظاہروں میں درجنوں لوگ مارے گئے اور ہزاروں گرفتار ہوئے تھے۔ پچاس برس قبل مارٹن لوتھرکنگ نے ’’میرا ایک خواب ہے‘‘کے عنوان سے جو تاریخی تقریر کی تھی وہ آج بھی امریکی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اس تقریر میں انھوں نے نسلی تعصب پر مبنی قوانین کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا:
”میرا ایک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پرایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے بغل گیر ہوں۔ میرا ایک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کی بجائے اپنے کردار سے پہچانے جائیں۔“
افسوس کہ مارٹن لوتھر کا یہ خواب اتنے عرصے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ اتنی ہوش ربا ترقی کے باوجود دنیا میں نسلی تعصب باقی ہے اور لوگ اپنے کردار کی بجائے اپنے رنگ ونسل، مذہب اور ذات سے پہچانے جارہے ہیں۔ خود ہمیں اپنے ملک میں مذہبی منافرت کے جو دلخراش مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔امریکہ میں نسلی تعصب کی داستان لگ بھگ 300 سال پرانی ہے۔جب یوروپ کے سفید فام مہاجروں نے امریکہ میں آباد ہونا شروع کیاتو وہ ہزاروں لاکھوں سیاہ فام شہریوں کو وہاں غلام بناکر لائے۔ مویشیوں کی طرح ان کی خرید وفروخت ہوتی تھی۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ1790میں امریکی آبادی میں سیاہ فام لوگوں کا تناسب 19 فیصد سے زائد تھا، لیکن ان کے شہری حقوق ایک فیصد بھی نہیں تھے۔ نہ انھیں ووٹ دینے کا حق تھا اور نہ ہی عدالتوں سے انصاف طلب کرنے کا۔یہاں تک کہ بیمار ہونے پر انھیں علاج کرانے کا حق بھی نہیں تھا۔ اگر سفید فام ان کی کسی بات سے ناراض ہوجاتے تووہ سیاہ فاموں کو پکڑ کر زندہ جلادیتے تھے۔اس کے باوجود امریکہ کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ دنیا کا سب سے انصاف پسند، مساوات کے اصولوں پر چلنے والااور آزادی پسند ملک ہے۔
ابراہیم لنکن کے زمانے میں ہوئی خانہ جنگی کے سبب امریکی دستور میں ترمیمات ہوئیں اور سیاہ فام باشندوں کی غلامی 1865میں ختم ہوئی۔ انھیں مساویانہ حقوق حاصل ہوئے، لیکن ابھی دس بارہ سال بھی نہیں گزرے تھے کہ کئی امریکی صوبوں نے ان کے یہ حقوق چھین لئے۔یہاں تک کہ امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس ظلم پر1896میں اپنی مہر لگادی۔ تب سے اب تک امریکہ کے سیاہ فام لوگ اپنے حقوق کے لئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں۔حالانکہ امریکہ کے بیشتر صوبوں میں قانونی طور پر نسلی تعصب نہیں ہے، لیکن امریکی سماج اب بھی دوحصوں میں بٹا ہوا ہے۔ اس وقت امریکہ کی 33 کروڑ آبادی میں سیاہ فام باشندوں کی تعداد چار کروڑہے، لیکن یہ سیاہ فام لو گ سب سے زیادہ محروم ومقہور ہیں۔کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بھی ان ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔سیاہ فام لوگ غربت،غلاظت اور جہالت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ امریکہ کی جیلیں بھی سیاہ فام لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔یہ ہے سب سے زیادہ طاقتور، مہذب اور خوشحال ملک کی اصل تصویر۔کورونا سے سب سے زیادہ اموات درج کرانے والے ملک میں بدترین لاقانونیت، تشدد اور لوٹ مارخدا کا عذاب نہیں تو پھر کیا ہے؟ کیا افغانستان، عراق اور لیبیا کے مظلوموں کی آہیں رنگ لارہی ہیں؟