-
جنگ بندی کے بعد؟
- سیاسی
- گھر
جنگ بندی کے بعد؟
96
M.U.H
03/12/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
آخرکار حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوگئی ۔اس جنگ نے اسرائیل کی طاقت کے بھرم کو پاش پاش کردیااور مقاومتی محاذ کو مزید مضبوطی حاصل ہوئی ۔۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء ،طوفان الاقصیٰ کے بعداسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کئے تھے جس میں بے گناہوں کا منظم قتل عام ہوا۔رفتہ رفتہ اس جنگ کا رخ لبنان کی طرف مڑتاگیا ۔حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی تو پہلے سے چلی آرہی تھی ،مگر طوفان الاقصیٰ کے بعد اس عداوت نے نئی شکل اختیارکرلی ۔اسرائیل جو غزہ میں مسلسل ناکامی سےبوکھلاہٹ کا شکارتھا،حزب اللہ کو ایسا نقصان پہونچانا چاہتاتھاجس سے وہ پوری طرح ختم ہوسکے اور غزہ میںاس کی ناکامی کو بھلاکر دنیا اس کی کامیابی کے قصیدے پڑھنے لگے ۔کیونکہ اس کے نزدیک حماس سے زیادہ خطرناک حزب اللہ تھاجس کے پاس تربیت یافتہ جنگجو اور اپنے تیارکردہ ہتھیاروں کا بڑاذخیرہ تھا۔اس لئے اسرائیل نے لبنان میں ’’پیچر اٹیک‘‘ کروایاجس میں اچھا خاصاجانی نقصان ہوا۔حزب اللہ کو اس حملے کی بھنک تھی یا نہیں یہ الگ موضوع ہے ،لیکن ’پیجر اٹیک‘ نے اس کے مواصلاتی نظام پر ضرب لگائی اور اس کا دفاعی نظام بھی متاثر ہوا۔ابھی حزب اللہ اس حملے سے ابھرنے کی کوشش کررہاتھاکہ فضائی حملے میں سید حسن نصراللہ کی شہادت کی خبریں آنے لگیں ۔حسن نصراللہ تنہا شہید نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ حزب اللہ کے اہم کمانڈر موجودتھے۔اعلیٰ قیادت پر کیا گیا یہ بزدلانہ حملہ کامیاب تھا جس میں حزب اللہ کو کاری ضرب پہونچی ۔اس حملے کا جواب دینے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کے لئے حزب اللہ کے نومنتخب جنرل سکریٹری ہاشم صفی الدین اپنے اہم کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ میں تھے کہ پھر اسرائیل کو ان کی لوکیشن کی خبر مل گئی اور اس نے تیسرا کامیاب حملہ کیا۔نتیجہ یہ ہواکہ ہاشم صفی الدین اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے ۔اس کے بعداسرائیل نےحزب اللہ پر مسلسل حملے شروع کردئیے اور یہ باورکرلیاکہ اب مقاومتی محاذ کی کمر ٹوٹ گئی ۔اس کے گمان میں بھی یہ نہیں تھاکہ حزب اللہ زخمی شیر کی طرح میدان میں اترے گااور ایسے شدید حملے کرے گاکہ نتن یاہوکی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہے گی ۔حزب اللہ کے حملوں کے بعد جنگ کا منظر نامہ بدلنے لگا۔وہ میڈیا جو پہلے حزب اللہ کو دہشت گرد کہہ رہاتھااچانک اس کی جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے قصیدے پڑھے جانے لگے ۔اسرائیل کے دفاعی نظام کی پول کھل گئی ۔اس کا مرکزی تجارتی شہر حیفاتباہ ہوگیا۔ایلات اور تل ابیب تک حزب اللہ کے ڈرون اور میزائیل پہونچے ۔بیک وقت چارلاکھ لوگوں کو بنکروں میں پناہ لینے پر مجبورہوناپڑا۔پہلی بار دنیا نے دیکھاکہ کس طرح حزب اللہ نے اسرائیلی بستیوں کوخالی کرنے کا انتباہ دیا اورصہیونیوں کو خوف ودہشت میں مبتلارکھا۔جنگ بندی سے پہلے تک حزب اللہ نے عالمی رائے بدل دی اوراب میڈیا بھی اس کو ایک منظم طاقت کے روپ میں دیکھ رہاہے۔جنگ بندی سے پہلے دنیا نے باورکرلیاکہ اسرائیل واقعی مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے جس کی حفاظت کے لئے پوری ناٹوافواج کو میدان میں اترنا پڑا۔اس پر لطف یہ کہ جنگ بندی کااعلان کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل میں سبقت کی ہوڑ لگی تھی اور حزب اللہ خاموشی کے ساتھ دشمن کی ناکامی کا تماشا کررہاتھا۔
جنگ بندی اہم نہیں ہے ۔جنگ بندی کے دوران اونٹ کس کروٹ بیٹھے گایہ دیکھنازیادہ اہم ہوگا۔یوںبھی اسرائیل عالمی قانون کی پرواہ نہیں کرتا اس لئے ہم جنگ بندی سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں ۔جس ملک نے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کے اسرائیل میں داخلے اور ’اونرا‘ کی سرگرمیوںپر پابندی عائد کردی ،اس سے بھلا کیا توقع رکھی جاسکتی ہے ۔اسرائیل ہمیشہ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میںجرائم کا ارتکاب کرتارہاہے اور آئندہ بھی کرے گا،لہذا ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنگ بندی کے اصولوں کی پاسداری کرے گا۔کیونکہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی نگرانی میں نہیں ہوئی بلکہ امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں ہوئی ۔یہ دونوں ملک ناٹو کے سربراہ ہیں اور ناٹوممالک ہی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تحفظ فراہم کرتےرہے ہیں۔اس مسئلے کا دوسرارخ یہ ہے کہ اب سرد جنگ کاخطرناک دور شروع ہوگا۔میڈیا کو پروپیگنڈے کے لئے مزید غذا فراہم کرائی جائے گی ۔اسرائیل جو ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سفارتکاری میں بھی کمزور پڑاتھا،از سرنوسفارت کای کے میدان میں اترے گا۔گویا کہ ایک بارپھر وہ اپنے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد کرے گا۔یہ کام اب اتنا آسان نہیں کیونکہ اسرائیل کا بھرم ٹوٹ چکاہے اور اس کی عالمی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے ۔اب آگے کی راہ اس کے لئے مشکل ترین ہوگی ۔حزب اللہ اسرائیل سے بخوبی واقف ہے ،اس لئے وہ بھی جنگ بندی کےدھوکے میں نہیں آئے گا۔البتہ عالمی قانون کا احترام ضرور پیش نظر رہے گا۔اس کے باوجود سرحد پر پنجہ آزمائی ہوتی رہے گی ۔ایک اہم نکتہ جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جنگ بندی کا مطلب ہرگز انتقام سےدستبرداری نہیں ہے ۔اسرائیل نے حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو دھوکےسے شہید کیاہے ،لہذا حزب اللہ اپنے شہداء کا انتقام ضرورلے گا۔نتن یاہو کی رہائش گاہ پر مسلسل تین حملے کئے گئے جن کا مقصد شہداکا انتقام تھا۔اب بھی اسرائیلی وزیر اعظم خود کو محفوظ تصور نہیں کریں گے ۔نہ جانے اب بھی انہیں کتنی راتیں زیر زمین بنکروں میں گذارنی پڑیں گی ۔جب تک حزب اللہ کا انتقام پورانہیں ہوگادشمن کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ خوف ودہشت میں مبتلارہے گی ۔یہ حزب اللہ کی طرف سے نفسیاتی جنگ ہے جس کے الگ اثرات مرتب ہوں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی جنگ بندی کی کوششیں مزید تیز ہوگئی ہیں ۔یہ سلسلہ تو گذشتہ ایک سال سے جاری ہے مگر اب تک کسی ثالث کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔جنگ بندی کی امید اس لئے بڑھ گئی ہے کیونکہ اب اسرائیل ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کررہاہے ۔داخلی سطح پر بھی اس کا نظام کشمکش کا شکار ہے ۔عوام مسلسل نتن یاہو سرکار کی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔فوج میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔اس پر نتن یاہو نے غزہ اور لبنان پر حملے کے وقت جو بلند بانگ دعوے کئے تھے وہ سب ہوائی ثابت ہوئے ۔نہ غزہ میں حماس کو ختم کیاجاسکااور نہ لبنان میں حزب اللہ کوکمزور کرنے میں اسرائیل کو کامیابی حاصل ہوئی ۔اس لئے اسرائیل پر چوطرفہ جنگ بندی کا دبائو ہے ۔مکمل طورپر جنگ بندی خواہ اب ہویا کچھ دنوں کے بعد،لیکن یہ واضح ہے کہ اب نیا عالمی نظام وجود میں آئے گا۔یک قطبی نظام کا خاتمہ تو پہلے ہی ہوچکاتھا۔اب کثیر قطبی نظام میں بھی تیزی کے ساتھ بدلائوہوں گے ۔بعض طاقتیں ایران ،روس اور چین کے ساتھ متحد ہوں گی جس سے براہ راست ناٹو متاثر ہوگا۔اس نئے عالمی نظام کی دنیا کو سخت ضرورت ہے تاکہ جنگ پیشہ طاقتوں سے نجات حاصل ہوسکے ۔