-
امام خمینی ؒکی نظرمیں جمہوریت کا تصور
- سیاسی
- گھر
امام خمینی ؒکی نظرمیں جمہوریت کا تصور
854
M.U.H
10/02/2021
2
0
تحریر:مہدی باقر خان
امام خمینی کا سیاسی نظریہ ایسے عناصر خاص پر استوار ہے جس کی مثال گذشتہ صدی کے دیگر معاصر سیاستدانوں کے یہاں خال خال ہی نظر آتی ہے، ان کی سیاسی بصیرت کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں سیاست، دیانتداری اور روحانی اقدار کی خوبصورت آمیزش کا نام ہے تاہم ان کا انسانی، اخلاقی اور عرفانی مطمح نظر اسے اور بالیدگی عطا کرتا ہے چنانچہ جمہوریت سمیت حکومت کے تمام ممکنہ طریقوں سے متعلق ان کی سوچ منفرد ہے۔ڈیموکریسی یا جمہوریت ، حکومتی نظام اور سیاسی تانے کے نام پر انسانی ذھن کا سب سے آخری تجربہ ہے۔ گوکہ دنیا کے بعض خطوں میں ہنوز یہ تجربہ ہونا باقی ہے البتہ جو ممالک اس کا تختہ مشق بن چکے ہیں وہاں بھی مقامی ضرورتوں کے نام پر اس اصطلاح کی الگ الگ عملی تفسیریں ہیں۔ بیشتر ممالک میں جمہوریت ایک ایسی طرفہ بازی ہے جس میں ایک فریق کچھ دنوں کے بعد فریق نہ رہتے ہوئے تماشہ بین ہی نہیں بلکہ خود ہی تماشہ بن جاتاہے جبکہ دوسرا فریق آخر تک اکیلے کھیل کے مزہ لیتا رہتا ہے یعنی سیاسی بازیگران، انتخابات سے پہلے تک اپنے دلفریب وعدوں سے بھولے بھالے عوام کا دل جیتنے کی انتھک کوشش کرتے ہیں مگر انتخابات ختم ہوتے ہی سب کچھ یکسر تبدیل ہوجاتاہے حالانکہ تھیوری کی رو سے ڈیموکریسی یا جمہوریت اسے کہتے ہیں جہاں شروع سے آخر تک عوام کی بالادستی برقرار رہے اور منتخب شدگان متعلقہ نظام کے تحت عوام کی خدمت کریں یہی نہیں بلکہ منتخب ہونے کے بعد عوام کے مسائل کو ترجیح دینے کے بجائے ذاتی مفاد یاپارٹی کی منفعت میں سوچنا جمہوری عد ل کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم ایران میں آئے اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینیؒ کے سیاسی نظریات کی اساس پراگر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ امام خمینیؒ نے عملاً یہ ثابت کیا کہ انسانی شرف کے پیش نظر ان کے آراء کی اہمیت ہونی چاہئے اور اسی کو معیار قرار دیا جانا چاہے تاکہ عوام اپنی خواہش اپنے ارادے اور اپنے یقین واعتماد کی بنیادپر نہ صرف اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں بلکہ انکے صاحب منصب ہونے کے دوران بھی ان کی جواب دہی طے کرسکیں چنانچہ آپ کی کاوشوں سے آئے ایران کے اسلامی انقلاب جیسے عظیم واقعہ کے بعد ملک کا حکومتی نظام کن بنیادوں پر استوار ہوگا یہ بھی امام خمینیؒ نے ریفرنڈم کے ذریعے طے کیا ۔
آپ اگر اس کا موازنہ کسی ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجہ میں تشکیل پانے والی حکومت یا کمیونسٹوں اور امریکیوں کے طرز ورفتار سے کریں تو اندازہ ہوگا کہ جمہوریت اگر اسلامی اقدار پراستوار ہوتی ہے تو اس کا امتیاز ہمیشہ برقرار رہتاہے۔ امریکہ ، سرزمین عراق سے لیکر ایسے تمام ممالک میں جہاں اس نے فوجی مداخلت کے ذریعے اپنے اڈے جمائے ہیں وہاں جمہوریت کی بحالی کے نام پر وہ اس فراق میں رہتاہے کہ اس ملک کے عوام کی آواز سے کہیں زیادہ وہاں کے حکومتی نظام میں اس کی اپنی بات سنی جائے ؛ ایسے میں فیصلہ ارباب حل وعقد کے اوپر ہے کہ ایسی ڈیموکریسی یا جمہوریت کتنی دیرپا ہوسکتی ہے جس کی مہار امریکہ کے ہاتھ میں ہو؟
ایران کے اسلامی انقلاب کے معمار امام خمینیؒ اوائل انقلاب سے لیکر اس کی کامیابی تک اس بات پر خصوصی تاکید کرتے رہے کہ عوام کی رائے ہی ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والی ہے، دوسری جانب امام خمینیؒ کو عوام کے اتحاد اور ان کے ارادوں پر بڑابھروسہ تھا چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ’’ اگر سب یکجہتی کے ساتھ قدم جمالیں تو دنیا کی کسی بھی سامراجی طاقت سے مقابلہ کیاجاسکتا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ امام خمینی ؒ کا یہ طرز تفکر کسی سے مستعار نہیں ہے بلکہ خالص قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ومامور ہے جب کہ دیگر بعض ممالک کے سربراہوں کا خیال ہے کہ مملکت داری کے اصول وضوابط اس وقت تک معتبر نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ یوروپین جمہوریت سے سازگار نہ ہوں۔
علاوہ ازیں دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے قبل ایران کے شہنشاہی نظام سے لیکر اسلامی ممالک کے سلاطینی سلاسل تک ان تمام ممالک کو امریکہ سمیت ایسے تمام خود سر ممالک کی پشت پناہی حاصل تھی اور ہے جو خود کو ڈیموکریسی کا سب سے بڑا حامی اور چودھری سمجھتے ہیں۔ اب یہ وہ ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ جمہوریت میں یقین رکھنے والے عالمی چوکیدار ، شہنشاہی نظام کی پاسداری کس منھ سے کرتے چلے آرہے ہیں چونکہ یہ بات سب کے لئے واضح ہے کہ ایران سمیت جن ممالک میں بھی شاہی نظام تھے یا ہیں ان کی بقا میں ان کے بیت المال سے زیادہ امریکہ ویورپ کے سیاسی ’’آشیرواد‘‘ کا رول رہا ہے غور طلب ہے کہ اس سلسلے میں شاہی نظام کے تحت چلنے والے ممالک کے علاوہ ایسے تمام ممالک جن کے نظا م میں جمہوریت کا تصور پایاجاتاہے اگر وہ امریکہ یا پوروپ کے ذریعے ڈیزائن شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہے تب تو وہ جمہوری سمجھا جائے گا وگرنہ ان بازیگران سیاست کے لئے ایسے تمام غیر جمہوری ملک جہاں شہنشاہی نظام ہے البتہ وہ ان کے ہر امرونہی پر آمنا وصدقنا کرتے ہیں محبوب تر اور باآبروتر ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ حیر انگیز بات اسرائیل کے مقابلے فلسطین کے تئیں ان ممالک کا رویہ ہے چنانچہ اگر فلسطینی عوام جمہوری ڈھنگ اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو وہ امریکہ جیسے دیگر اسرائیل نواز ممالک کی نظرمیں نان ڈیموکریٹک طریقہ سے کیاجانے والا ناجائز مطالبہ ہے مگر اسرائیل کے ذریعے انجام پانے والا ہرسیاہ وسفید انہیں ممالک کی نظر میں صہیونیوں کا بنیادی حق ہے۔ ذرا سوچئے اگر جمہوریت کاپاٹھ ایسے ممالک پڑھائیں گے تو دنیا میں کس قسم کی جمہوریت پروان چڑھے گی؟
ایسے میں ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ اسلامی اور انسانی اقدار پر استوار جس جمہوریت سے امام خمینی نے دنیا والوں کو روشناس کرایا وہ اپنے آپ میں منفرد ہے کیونکہ ایک ایسا ملک جہاں پوری تاریخ میں غیر شہنشاہی نظام کا تصور مشکل ہو اور ہزاروں سال تک شاہی نظام نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہو،کئی نسلوں کو بیلٹ باکس کے پاس جاکر حق رائے دہی کا ذائقہ ہی نہ معلوم ہوتاہم نہ ملک کی حکومت اور نہ ہی بین الاقوامی برادری ان کے لئے اہمیت کی قائل ہو امام خمینی نے نہ صرف ایرانی عوامکو اسلامی انقلاب کے ذریعے عزت وسربلندی سے ہمکنار نہیں کیا بلکہ ان کے کھوئے اعتماد کو بحال کرتے ہوئے انہیں ان کی عظمت واہمیت کا احساس دلایا کہ ایک ملک کے عوام اگر چاہیں تو اپنے ملک کے ساتھ ساتھ پوری عالمی برادری کو کیا پیغام دے سکتے ہیں۔ ان تمام مستحسن نتائج کے لئے اور جمہوریت کو نئے معنی فراہم کرانے کے لئے سبھی امام خمینی کے مخلصانہ اور خستگی ناپذیر زحمات کے مرہون منت ہیں۔
بہرحال مذکورہ تمام عناصر و ترجیحات کو امام خمینی کی کامیاب سیاست کی سند کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، امام خمینی اپنے سیاسی مکتب فکر کے خود ہی بانی و میانی بھی ہیں اور اس کے محافظ و پاسدار بھی۔ آپ نے سیاست اور حکومتی نظام کی کتاب میں آفاقی سطح پر ایک نیا باب قائم کیا ہے، نئی جہتیں تراشی ہیں اور سیاست کی کشت زار میں نئی افکا رکی داغ بیل ڈالی ہیں اور جمہوریت کو تازہ ہیئت و ہویت بخشی ہے۔