گذشتہ صدی نے دو اہم تحریکوں کو جنم دیا، پہلے 1947ء میں گاندھی جی کی قیادت میں واقع ہونے والی ہندوستان گیر تحریک آزادی جس نے ہمارے مادر وطن سے برطانوی سامراج کو اکھاڑ پھینکا اور دوسرے 1979ء میں امام خمینیؒ کی رہبری میں رونما ہونے والا ایران کا اسلامی انقلاب جس نے اس سرزمین پر حاکم ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہی نظام کا خاتمہ کرکے اسلامی جمہوریت پر استوار حکومتی نظام پیش کیا۔
دونوں پیشواؤں کی سیاسی روش پر اگر گہری نظر ڈالیں تو جہاں مجموعی طور پر دونوں شخصیتوں میں قومی اور مذہبی تناظر میں بہت سارے فرق دکھائی دیتے ہیں وہیں ان کے سیاسی ترجیحات میں حیرتناک مشابہتیں بھی موجود ہیں۔ گذشتہ صدی کے پہلے حصہ میں گاندھی جی اور دوسرے حصہ میں امام خمینیؒ نے سیاسی رجحانات کو طے اور تشکیل دینے میں اعلی انسانی اور اخلاقی اقدار کا عاقلانہ اور خردمندانہ استعمال کی وہ مشترکہ روایت قائم کی ہے جس کی مثال عہد حاضر کے سیاسی منظرنامہ میں عنقی ہے۔ گاندھی جی ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران ہمیشہ اس بات کو اپنا نصب العین قرار دیا کہ ہندوستان آمرانہ او ر سامراجی قسم کے خارجی عناصر کے ذریعے نہیں چلے گا بلکہ اس پر اس ملک کے عوام کے ذریعے منتخب کردہ جمہوری نظام کو ہی حکومت کا حق حاصل ہے ٹھیک اسی طرح امام خمینیؒ نے ایران میں آئے اسلامی انقلاب کی جد و جہد میں نہ صرف امریکی اثر و رسوخ پر منحصر شاہی حکومت کی بیخ کنی کی بلکہ استعمار کے خلاف عالمی سطح پر اسلامی پیغام دینے میں کامیاب رہے۔
گاندھی جی مانتے تھے کہ اپنے دین میں یقین رکھنا انسان کو صلح پسندی اور انسان دوستی جیسے اقدار کی طرف دعوت دیتا ہے مگر اس راہ میں ارادہ، عمل اور قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے تاہم امام خمینی نے دین اور آئین کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے خصوصی لائحہ عمل سے ماوراء لے جاکر ایک ایسے جامع انقلابی اور سیاسی نظام کے طور پر متعارف کرایا جو ہر دور میں مغربی تسلط اور استعماری دسیسہ کاریوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح بر سر پیکار رہے گا۔ گاندھی جی قومی اور بین الاقوامی سطح پر دبے، کچلے اور عقب ماندہ طبقے کے بہت بڑے حامی تھے چنانچہ انہوں نے ہندوستان میں امتیازی سلوک کی شکار عقب افتادہ اقوام ہوں یا بیرون ملک فلسطینی مظلوم دونوں کے لئے واضح طور پر اپنے موقف کا علان کیا اور سرزمین بیت المقدس پر صیہونی ظلم اور دراندازیوں سے متعلق اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیا:
فلسطین، فلسطینیوں کا ہے جیسے انگلینڈ انگریزوں کا، فرانس، فرانسیسیوں کا۔ یہ بڑاظلم اور انسانیت سوز المیہ ہوگا اگر یہودیوں کو فلسطینیوں کی سرزمین پر مسلط کردیا جائے کیونکہ اس طرح رفتہ رفتہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کا قبضہ ہوجائیگا اور جزئی یا مجموعی طور پر وہ اسے اپنے وطن کا نام دے دینگے (Harijan Journal, P 9)
امام خمینی نے اس موضوع کو جس موثر اور پرزور انداز میں برتا و ہ اظہر من الشمس ہے اور اگر انہیں فلسطین اور بیت المقدس کے تعلق سے صیہونی زیادتیوں کے خلاف عالمی سطح پر سب سے مضبوط موقف پیش کرنے والا رہبر کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا چونکہ آپ نے اسرائیل کے وجود کو مسلم ممالک کے سرطانی غدہ سے تعبیر کیا تاہم فلسطینی مظلوموں کی حمایت اور بیت المقدس کے تحفظ کو پورے عالم اسلام کی ایمانی اور اخلاقی ذمہ داری قرار دیایہی نہیں بلکہ اندرون ملک ایران میں اقلیتوں کے لئے اعلان کیا کہ ایران میں موجود تمام اقلیتیں اپنے آداب و رسوم کی بجاآوری کے لئے پورے طور سے آزاد ہیں تاہم اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان کے حقوق اور سماجی تحفظ کو یقینی بنائے کیونکہ وہ بھی دیگر عوام کی طرح ایرانی اور محترم ہیں۔ (صحیفہ امام، ج 4، ص 441)
امام خمینی اور مہاتماگاندھی دونوں ہی فکری اور عملی طور پر نام نہاد ظاہری آزادی پر باطنی آزادی کو ترجیح دینے کے قائل تھے چنانچہ جہاں گاندھی جی کے افکار میں روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے اور خدمت خلق ہی خالق سے قربت اور انسانی شرف و تکامل کے حصول کا واحد ذریعہ تھا وہیں عارف باللہ امام خمینیؒ نے بھی ہمیشہ اس بات پر تاکید کی کہ چونکہ اللہ ایک ہے اور سارے انسان ایک دوسرے کے اعضا و جوارح ہیں لہذا ہمیں بشری وقار اور معنوی آزادی تب ہی میسر آسکتی ہے جب ہم اللہ کے سامنے سراپا تسلیم رہیں۔ گاندھی جی نے جہاں ہندوستان کی آزادی اور جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالنے کے بعد خود کو اور اپنے خانوادہ کو حکومتیں ، مناصب اور شاہانہ تزک و احتشام سے دور رکھا تاہم ایسے کسی مقام کو قبول نہیں کیا جہاں اختیارات کے غلط استعمال کا امکان ہو وہیں امام خمینیؒ کے یہاں یہ شیوہ بدرجہ اتم موجود ہے چونکہ آپ نے نہ صرف انقلاب اسلامی کے بعد کوئی منصب قبول نہیں کیا بلکہ اپنے بچوں کے لئے بھی وصیت کردی کہ انہیں حکومت میں کوئی منصب نہ دیا جائے یہیں نہیں بلکہ دنیا نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب سے قبل اور اسلامی انقلاب کے بعد کی معیار معیشت میں امام خمینی کے یہاں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی تاہم اگر اواخر میںقم سے تہران قیام پذیر ہوئے تو وہ بھی علاج کی خاطر تاکہ بار بار قم سے تہران کی سفری صعوبتوں سے محفوظ رہا جائے۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج بھی امام خمینیؒ کا گھر محفوظ ہے جس کو دیکھ کر کوئی بھی اس رہبر کبیر کی سادہ زیستی کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
ایران و ہند کے انقلاب کے روح رواںدونوں عبقری رہبروں کی روش زندگی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ہی اس بات پر شدت سے عمل پیرا تھے کہ ہر قسم کی اصلاح کی شروعات خود سے ہوتی ہے، قربانیوں کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے اپنی قوم و ملت کو ظلم و استبداد کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے پہلے خود ہوا و ہوس سے مبرّا ہونا پڑے گا۔ ان رہبروں نے ہمیں سکھایا کہ صرف وہ لوگ جو اپنے نفس پر تسلط رکھتے ہیں لوگوں پر حکومت کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی نظام اور اس کے بے ارزش اقدار کی نفی و تردید دونوں ہی رہبروں کے یہاں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ زمانے نے دیکھا گاندھی جی نے لندن میں تدوین شدہ ضوابط کو ہندوستان پر تھوپنے سے روکا وہیں امام خمینی نے واشنگٹن میں تصویب شدہ قواعد کو ایران میں نافذ ہونے سے باز رکھا چنانچہ جہاں ہندوستان میں جمہوری نظام کی تشکیل نے ہندوستان سے برطانوی تاج و سامراج کو تاراج کیا وہیں امام خمینی نے سرزمین ایران پر اسلام اور جمہوریت کے حسین امتزاج کو پیش کرکے امریکہ کی بالادستی کے ہاتھ قلم کردیئے۔
خاص بات یہ ہے کہ ایران و ہند کے انقلاب و آزادی کے دونوں سرخیل کبھی بھی دین کو سیاست سے الگ نہیں جانتے تھے یہی نہیں بلکہ ان کی دینی دیانتداری نے ہی ان کو خدمت خلق کے لئے میدان سیاست میں عملی طور پر آنے پر تحریک بخشی جیسا کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ ’میری سیاست اور دیگر تمام فعالیت میری دین سے ہی وابستہ ہیں‘۔ جب کہ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا: ہماری سیاست ہی عین دیانت ہے۔
دونوں ہی رہبروں نے مغربی ڈیموکریسی کو اپنا نمونۂ عمل نہیں قرار دیا بلکہ اپنے اپنے ممالک میں آزادی اور انقلاب کے بعد جمہوریت کو نت نئے معنی و مفہوم عطا کئے۔ در اصل یہ دونوں بزرگان ایک نئے ہند و ایران کے معمار ہیں شاید یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آج ان دونوں ملکوں کے عوام ایسے تہذیبی و ثقافتی رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں جس کی مثال دنیا کے دیگر ملکوں میں ملنا مشکل ہے۔