-
پالیسیوں میں مسلمانوں کی حصہ داری
- سیاسی
- گھر
پالیسیوں میں مسلمانوں کی حصہ داری
1938
M.U.H
06/04/2019
1
0
پالیسیوں میں مسلمانوں کی حصہ داری
کم از کم ایک منشور سے امید وابستہ
محمد حسین شیرانی
اس وقت جب کہ بقول شخصے’’ہندوستان کے سماجی اور سیاسی مکالمے سے مسلمان غائب کر دیا گیا ہے‘‘ ، ایک طرف سے ایک آواز ابھری ہے جس کے ذریعہ سیاسی منظر نامے پر ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی پارٹیوں کے بندھوا مزدور کی حیثیت سے الگ ایک حیثیت ابھر سکتی ہے۔ پہلے ان 11نکات پر نظر ڈالی جائے جن سے یہ امیدبیدار ہوئیہے:
1۔ ہندستانی آئین کی دفعہ 341سے مذہبی قید اٹھائی جائے گی۔ 2۔جسٹس راجیندر سچر کمیٹی اوررنگا ناتھ کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جا ئے گا۔3۔ حج کمیٹیوں سے بد عنوانی دور کی جا ئے گی، سفر حج سستا اور آسان بنایا جائے گا ۔4۔مسلمانوں کی گنجان آبادی والے علاقوں میں مسلم خواتین کو اختیارات اور تعلیم دینے کے لئے پوسٹ گریجویٹ کالجوں تک کے قیام کا بندو بست کیا جا ئے گا۔5۔اقلیتوں کو مکمل سلامتی فراہم کی جائے گی۔6۔مدرسوں میں مذہبی نصاب کے ساتھ جدید مضامین کی تعلیم دی جائے گی ، مدرسہ کے اساتذہ پر دھیان دیا جائے گا، طلبا کی ہنر مندی میں اضافہ کے اقدامات کئے جائیں گے اور چھوٹی صنعتیں لگائی جائیں گی۔7۔ اعلیٰ عہدوں پر ملازمت کے لئے امتحانات میں خاص کر یوپی ایس سی کے امتحانات میں اردو کو بطور مضمون شامل کیا جائے گا۔ 8۔درگاہ ایکٹ کو نافذ کیا جائے گا۔ 9۔ ہونہار مسلم طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونی ملکوں میں جانے کے لئے اسکالر شپ دی جائے گی ۔10۔ مطلقہ مسلم خواتین کو مالی امداد دی جائے گی اور ان کے لئے روزگار کے مواقع نکالے جائیں گے۔11۔ صوفی سرکٹ یا صوفی کوریڈور بنایا جا ئے گا۔
یہ انتخابی وعدہ ہے ایک سیاسی پارٹی پرگتی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا کا جو کہ اس کے انتخابی منشور میں شامل کیا گیا ہے ۔ دفعہ 341پر عائد کی گئی مذہبی قید قطعی طور پر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اس کے باوجود یہ دفعہ برقرار ہے ، اس کے ذریعہ مسلمانوں کو روزگار اور سہولتوں کے لئے تبدیل مذہب کے ذریعہ دوسرے فرقوں میں جانے کی ترغیب چھپی ہو ئی ہے ۔ دفعہ 341پر سے مذہبی قید کو ہٹانا تمام سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشور میں شامل ہونا چاہئے تھا لیکن ایسے منشور بھی نظر آ رہے ہیں جس میں کہیں لفظ مسلمان استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ صرف اقلیتوں کے بیان سے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہاں کسی دوسری پارٹی کے انتخابی منشور سے پرگتی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا کے انتخابی منشور کا موازنہ مقصود نہیں بلکہ یہ دیکھنے کی کوشش ہے کہ اگر نیک نیتی ہو تو پالیسی سازی میں مسلمانوں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ پورے ہندوستان میں کوئی بھی سیاسی پارٹی ذات پات کے بھید بھاو پر مبنی ہو یا سیاسی تحریک کی صورت میں ابھرے ، مسلمانوں کو نظر انداز کر کے انتخابی سیاست میں کچھ کر نے کی اہل نہیں ہے یہاں تک کہ جو پارٹیاں مسلم ووٹ کو یکسر مسترد کرتی ہیں وہ بھی مسلمانوں کو گالی دے کر ہی اپنے شدت پسند ووٹ متحد کرتی ہیں۔ بی جے پی کی پوری پالیسی مسلم دشمنی سے پھوٹتی اور پنپتی ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کے سارے ہتھکنڈے اب جبکہ ناکام ہو چکے ہیں تو اس نے " مسلمانوں کو زیر اور ذلیل کرنے کی بین الاقوامیت" کی پالیسی اپنائی جائے اور اس بار اپنی انتخابی مہم پاکستان کے نام پر چلا رہی ہے ۔ جی ایس ٹی، نوٹ بندی،مہنگائی ، بے روزگاری اور مسلم دشمن سلیش فسادات کے علاوہ رام مندر ، دفعہ 370اور مسلم پرسنل لا جیسے تمام غباروں سے ہوا نکل چکی ہے سو پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائک کے ذریعہ عوام کے ایک طبقے کو مشتعل کرنے پر سارا زور ہے جس پر الیکشن کمیشن نے ابھی ابھی یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو کڑی ڈانٹ پلائی ہے۔
اس الیکشن میں کوئی لہر نہیں ہے بلکہ ووٹر بی جے پی آرایس ایس کی جگہ علاقائی پارٹیوں اور کانگریس کی طرف راغب ہے جہاں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں وہاں بھی ووٹر وں کا ایک بڑا طبقہ کانگریس کو بی جے پی آر ایس ایس کا لائق اعتماد متبادل سمجھتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو علاقائی پارٹیاں کم و بیش 20فیصد مسلم ووٹروں کے بل پر الیکشن جیتتی رہی ہیں اور اب بھی جیت کے لئے پر امید ہیں انہوں نے مسلم سیاسی کارکنوںکو دری بچھانے ، کرسیاں لگانے ، جھنڈا اٹھانے اور پوسٹر چپکانے سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی۔ منظر نامہ یہ ہے کہ جن پارٹیوںنے مسلمانوں کو لوک سبھا الیکشن لڑنے کا ٹکٹ دیا ہے انہوں نے اس کا بھی دھیان رکھا ہے کہ وہ آسانی سے جیت نہ پائیں، کچھ امیدوار مشکل سیٹوں پر دیئے گئے ہیں، کچھ امیدوار یہ سوچ کر دیئے گئے ہیں کہ ہار جائے گا یعنی کسی حد تک سیاسی نمائندگی دینے کے الزام سے بچ نکلنے کا تو اہتمام ہوا ہے مگر پالیسیوں میں حصہ داری کے لئے کوئی پارٹی تیار نہیں ۔
یوپی اور بہار کی صورت حال اس لحاظ سے تشویش ناک ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں سیکولر سیاست پر یادو لیڈروں اور ان کی پارٹیوں کا غلبہ ہے جو مسلم ووٹ کے بغیر صفر ہیں، اس کے باوجود یہ پارٹیاں مسلمانوں کو پالیسیاں اور پروگراموں میں حصہ دار بنانے کو تیار نہیں۔
یو پی میں سماج وادی پارٹی۔ بہوجن سماج پارٹی۔ آر ایل ڈی کا اتحاد بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی یکطرفہ ووٹنگ کی امید کے ساتھ سانسیں لے رہا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے فکر مندی کا شائبہ تک ان پارٹیوں کے پاس نہیں جیسے کہ ان کے لیڈروں نے طے کر رکھا ہے کہ بی جے پی ۔آر ایس ایس کے خوف سے مسلمان ان کی جیت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل آئے گا ۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پرگتی شیل سماج وادی پارٹی لوہیا نے مسلم ووٹر کے لئے امید کی ایک کرن جگائی ہے ، یہ رجحان آگے بڑھ کر دیگر بڑی علاقائی اور قومی پارٹیوں کو بھی پالیسیوں اور پروگراموں میں مسلمانوں کو حصہ دینے کے رجحان میں بدل سکے تو ہندوستانی جمہوریت کا اعتماد بحال ہو جائے گا۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)