-
بقیع اور قدس پر سیاست کیوں؟
- سیاسی
- گھر
بقیع اور قدس پر سیاست کیوں؟
625
m.u.h
08/05/2022
0
0
تحریر: مولاناسید نجیب الحسن زیدی
سوشل میڈیا پر یقینا میری طرح آپ کی نگاہوں سے بھی اس قسم کی پوسٹ گزری ہوگی''کہاں ہیں قدس کا پروگرام منانے والے ؟ کہاں ہیں فلسطین کی آزادی کے لئیے مظاہرے کرنے والے؟ کہاں ہیں بیت المقدس کے سلسلہ میں جلوس نکالنے والے ؟ بقیع ویران ہے ہمارے چار اماموں کی قبریں سنسان ہیں لیکن نہ قدس کے جلوس نکالنے والوں کی خبر ہے نہ فلسطین کا دم بھرنے والوں کا پتہ کیا جنت البقیع کی عظمت اور مظلومیت بیت المقدس سے کم ہے جو آج انھدام جنت البقیع پروہ لوگ خاموش ہیں جو قدس قدس کرتے گھومتے ہیں؟ '' شک نہیں بیت المقدس ہو کہ جنت البقیع دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے دونوں کی قداست و پاکیزگی اپنے اپنے مقام پر طے ہے اور دونوں ہی اس وقت ظالموں کے قبضہ میں ہیں اگر ایک قبلہ اول ہے تو دوسرے کا تعلق کعبہ دل سے ہے نہ انھدام جنت البقیع کے درد اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیت المقدس کی تاریخی حیثیت کو ایک نبی کی معراج کی یادگار ہے تو دوسری اسلام کی معراج کی کہ بقیع میں وہ شخصیتیں دفن ہیں جنکی زندگی اسلامی سماج کو معراج بخشنے میں گزری جنکے تعلیمات کے چراغوں کی روشنی آج بھی بشریت معراج بندگی تک پہنچنے کی دعوت دے رہی ہے .لیکن افسوس کا مقام ہے کچھ کج فکر اور چلیپا طرز فھم رکھنے والے ناعاقبت اندیشوں نے ان دونوں مسئلوں کو ''انا'' کی سیاست کی نذر کر دیا ہے .عجیب بات تو یہ ہے کہ قدس کے سلسلہ میں پیش پیش رہنے والے تو آپ کو انھدام جنت البقیع کے موقع پر ضرور دیکھنے کو ملیں گے لیکن انھدام جنت البقیع کے سلسلہ ہونے والے پروگراموں کے منتظمین و اراکین قدس کے موقع پر شاذ و نادر ہی نظر آئیں گے اسکی ایک ادنی سی مثال جو میرے پیش نظر ہے شھر ممبئی ہے جہاں قدس کمیٹی و آئی وائی ایف کے مشترکہ تعاون سے قدس کا پروگرام بھی شاندار طریقہ سے ہوتا ہے اور انھدام جنت البقیع پر بھی مختلف پروگرام منعقد ہوتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف جنت البقیع کے انھدام کی مناسبت و دیگر پروگراموں کے منتظمین و عمائدین زیادہ تر قدس کے پروگرام میں غائب ہی رہتے ہیں. میں ہرگز عوام کی بات نہیں کر رہا بے چارے عوام ہی تو دونوں جگہ کے پروگراموں کی کامیابی کی کلید ہیں .بات ان لوگوں کی ہے جو صنف علماء سے متعلق ہیں یا کسی ادارہ و ٹرسٹ سے جڑے ہونے یا خاندان و وراثت کی بنا پر خاص ہیں. میرا سوال انہیں خاص لوگوں سے ہے جو کس ایک پروگرام کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں اور دوسرے پروگرام میں جانا بھی گوارا نہیں کرتے کہ آخر انکے اس عمل کے پیچھے کونسی منطق کار فرما ہے کہیں ایسا تو نہیں جانے انجانے کسی ایک پروگرام کو کمزور کر کے وہ دشمن کے خیمہ کو مضبوط کر رہے ہیں؟
کہ ان میں سے کوئی ایک بھی چاہے وہ جنت البقیع ہو یا قدس سیاست کا شکار ہو کر انجانے میں دشمنوں کی نیرنگیوں کی بھٹی کے ہتھے چڑھ گیا تو آج نہیں تو کل اس کا دھواں ہماری کی آنکھوں میں جانے والا ہے. اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ جنت البقیع کی مظلومیت اور آل سعود کے مظالم تو بہرحال مسلمانوں کا داخلی مسئلہ ہے تووہ امام خمینی رہ کے ان جملوں پر غور کرے '' اگر ہم صدام کو معاف بھی کر دیں،قدس کو بھلا بھی دیں،امریکہ کی بربریت کو بھول بھی جائیں لیکن آل سعود کو کبھی نہیں بخشیں گے انشاء اللہ اپنے دلوں کے زخموں کی حدت کو مناسب وقت میں امریکہ و آل سعود سے انتقام لیکر ہی ٹھنڈا کریں گے،،
اسی طرح اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ قدس تو اھلسنت سے متعلق ہے فلسطین میں کون سے شیعہ ہیں تو وہ قرآن کی اس آیت کا جواب دیں گے جس میں ارشاد ہو رہا ہے'' اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے اور مستضعفین کے لئیے نہیں لڑتے جن کے مرد، بچے، اور عورتیں فریاد کر رہے ہیں کہ ائے مالک!ہمیں اس قریہ سے نجات دے جو ظالمین کا مسکن ہے اور ہمارے لئیے اپنے پاس سے ایک ولی و مددگار قرار دے جو ہماری مدد کر سکے،، سورہ نساء ۷۵
کیا بیت المقدس ہماری میراث نہیں، کیا فلسطین کے مظلوم اس آیت کے موجودہ دور میں مصداق نہیں؟ کیا یہ آیت منسوخ یو گئی؟ کیا اس کے مخاطب ہم نہیں؟ ....
ہم میں سے بعض کج فکر لوگ جس بقیع کو قدس سے متصادم کرنے کے در پے ہیں اس قبرستان میں سونے والا اھلبیت اطھار علیھم السلام سے متعلق ایک ایک فرد دنیا کے مظلوموں اور ناداروں کی پناہ گاہ تھا کیا بقیع و قدس کے تصادم سے ان روحوں کو اذیت نہیں پہنچتی ہوگی جنہوں نے انسانی حریت و آزادی کے لئے طوق سلاسل پہننا گوارا کیا لیکن بشریت کو غلامی سے نجات دلانے کا نسخہ بعنوان ''کربلا'' ہمارے حوالہ کر گئے اور آج ہم میں سے ہی بعض ان کے منشور حریت سے نہ صرف غافل بلکہ اس کی غلط تفسیر کر رہے ہیں...
جس بقیع کے لئے آج ہم سوگوار ہیں اسی بقیع کی قسم بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں یہ بالکل بقیع کی طرح مستضعف و مستکبرین کے ما بین جنگ کا مسئلہ ہے کہ قرآن نے بھی مستضعف و مستکبر کے مسئلہ کو اہم جانا ہے چنانچہ ایک یھودی اور مسلمان کے درمیان اختلاف ہوا اور حق یہودی کے ساتھ تھا یہھودی نے کہا کہ پیغمبر (ص) کو اپنا حکم قرار دیتے ہیں جو فیصلہ وہ کریں اسے تسلیم کیا جائے گا لیکن مسلمان نے اس تجویز کو یوں رد کر دیا کہ جانتا تھا پیغمبر(ص) کا فیصلہ کیا ہوگا اسی لئیے یہودی کی بات نہ مان کر یہودیوں کے ایک سردار ''کعب بن اشرف'' کے پاس پہنچا کہ وہ دونوں کے درمیان فیصلہ کرے اس لئیے کہ رشوت دے کر فیصلہ اپنے حق میں کرانا تھا مسلمان نے یہ چال چلی اسی مقام پر آیت نازل ہوئی ''کہ بعض لوگ دعوائے اسلام تو کرتے ہیں لیکن طاغوت سے مخالفت کی جب بات آتی ہے تو مخالفت تو دور فیصلہ کرنے والا ہی اسے بنا دیتے ہیں'' ۶۰ سورہ نساء
مذکورہ ماجرے میں قرآن ایک مسلمان کے طریقہ عمل کو رد کر کے یہھودی کو حق پر قرار دے رہا ہے یعنی قرآن کا واضح اعلان کہ اگر مسلمان ہوتے ہوئے عدالت و انصاف کی قدر سے عاری ہو تو سب سے پہلے تمہاری جو مذمت کرے گا وہ قرآن ہوگا اور اس کے برخلاف اگر یھودی ہوتے ہوئے منصف ہوگے تو قرآن تمہاری حمایت کرے گا بالکل ایسے ہی جنت البقیع و قدس کا معاملہ ہے شیعہ ہوتے ہوئے بھی اگر ہم مظلوموں سے غافل ہیں بلکہ یہود و استکبار کو حکم قرار دے رہے ہیں بقیع کو پامالی قدس کا سبب بنا ریے ہیں تو یقینا محافظین قرآن قبرستان بقیع میں سونے والے وارثان قرآن ہم سے ناخوش ہیں کہ قرآن سے زیادہ عزیز انہیں کچھ نہیں اب اگر ان کے اپنے ہی ماننے والے قرآن کے خلاف جائیں تو وہ کیسے برداشت کریں گے .
آج پوری ایک لابی ہے جو کام کر رہی یے کہ قدس کو اھلسنت کا مسئلہ بنادیا جائے اور بقیع کو شیعوں سے مخصوص کر دیا جائے لیکن کیا کہنا ہمارے امام کا جو فرق شگافتہ کے ساتھ آخر وقت میں ہمارے ہاتھوں معیار دے گیا ''کونا لظالم خصما وللمظلوم عونا ...یہ نہیں کہا کہ ظالم کون ہو یہ بھی نہیں کہا کہ مظلوم کون ہو . ہم نے علی(ع) کی وصیت سے یہی سمجھا کہ ظالم جو بھی ہو اس سے تعلق رکھنا علی کا مرام نہیں مظلوم جو بھی ہو اس سے اظھار ہمدردی مکتب علی(ع) کا شیوہ ہے ...بقیع کے زخموں کو سنبھالے آج انھدام بقیع کے موقع پر جس طرح ہم اپنے غم میں غمگین ہیں ویسے ہی ارض فلسطین کی آزادی و بیت المقدس کی بازیابی کے لئیے بھی دعاء گو ہیں اور لبوں پر یہ زمزمہ ہے پروردگار ! اب وارث حیدر کرار کو بھیج دے کہ دنیا اندھیر ہے. اللھم ارنی الطلعہ الرشیدہ ...