تحریر:عادل فراز
ہندوستان میں ایک طویل مدت سے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔افسوس یہ ہے کہ ہماری قیادت اور ملّی تنظیمیں ایسی منظم سازشوں سے لاعلم رہیں یا پھر انہوں نے ان سازشوں کو قابل توجہ نہیں سمجھا ۔جن فاشسٹ طاقتوں پر ہندوستان میں مکمل پابندی عائد تھی انہیں آزادی فراہم کی گئی ۔جن کا یہ دعویٰ تھاکہ وہ ہندوستان کی سیاست میں دخل نہیں دیں گے ،وہ آج ہندوستان کے اقتدار پر مسلط ہیں ۔اس پورے منظر نامے میں مسلمان تنظیمیں کہیں نظر نہیں آتیں ۔انہوں نے ایسی فاشسٹ طاقتوں کو آزادی فراہم کرانے اور ملک کی سیاست پر ان کے بڑھتے ہوئے غلبے کے خلاف کبھی غوروخوض کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔یہ وہ زمانہ تھاکہ جب مسلمان اقتدار میں اچھا خاصا اثر رکھتے تھے۔یہ الگ بات کہ انہوں نے فقط ذاتی مفادات کو زیادہ ترجیح دی اور ملّی فلاح و بہبود کے لیے فقط کاغذی خانہ پری کی گئی ۔آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے واقعات رونما ہوئے مگر ملّی تنظیموں کا کوئی قابل ذکر کردار نظر نہیں آیا ۔ہاشم پورہ جیسا فساد جس نے آزاد بھارت کی تاریخ کو اقلیتوں کے خون سے داغ دار کردیا ،ملّی قیادت کے جرأت مندانہ اقدام کا منتظر رہا ۔اس کے بعد ملک میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی اور اس خونریزی کا ٹھیکرا بھی مسلمانوں کے سر پھوڑا گیا ،مگر ہمارے یہاں ایک طویل سناٹا نظر آیا ۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کا منظم سلسلہ شروع ہوا ،مگر ہر مسلمان لیڈر نے بابری مسجد کے ملبے پر آنسو بہاکر اپنا سیاسی الّو سیدھاکرنے کی کوشش کی۔مسلمانوں کے اتحاد اور انہیں ملک کے سیاسی و سماجی دھارے سے جوڑنے کی کوشش نظر نہیں آئی ۔ہم آج اسی غلفت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ہندوستان کا ماحول بے انتہا تشویش ناک ہوگا ،یہ بھی ضرور خیال رہے ۔
1990 کے بعد پردۂ سیمیں پر مسلمانوں کے خلاف منظم سازش کا عمل شروع ہوا جس میںیرقانی تنظیموں کے آلۂ کاروں نے اہم کردار اداکیا ۔یہ وہ دور تھاکہ جب فلم صنعت میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کا جذبہ دم توڑ رہا تھا ۔فلم صنعت پر مسلمانوں کے غلبے نے شدت پسند افراد کو ان کے خلاف منظم کام کرنے پر مجبور کردیا ۔اس کے بعد منظم لایحۂ عمل کے تحت فلموں کی اسکرپٹ میں ایسے کردار تخلیق کیے جانے لگے جن کا سماجی پس منظر غندہ گردی سے جڑا ہوا تھا ۔ان کی اسلامی شناخت کے اظہار کے لیے ان کے سرپرٹوپی اور چہرے پر لمبی داڑھی رکھی گئی ۔مسلمانوں کی آئیڈیل شخصیات کے ناموں پر غنڈوں اور مافیائوں کے نام رکھے جانے لگے ،تاکہ ہندوستان کی نوجوان نسل کو ان ناموں سے متنفر کردیا جائے ۔نوجوان نسل کی ذہن سازی کا یہ عمل ایک لمبے عرصے تک جاری رہا۔اس کے ثمرات آج دیکھے جاسکتے ہیں ۔اس کھیل میں پی۔چدمبرم کا نام بھی قابل ذکر ہے جنہوں نے پہلی بار مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور انہیں دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی ۔اس وقت چدمبرم وزیر داخلہ تھے۔انہوں نے ایسے قوانین وضع کیے جن کی بنیاد پر مسلمان نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کردی گئیں ۔کئی فرضی انکائونٹرز میں مسلمان نوجوانوں کو سفاکیت کے ساتھ قتل کیا گیا اورہندوستان کے عوام کو یہ بارور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں جس قدر فتنہ و فساد ہے وہ سب مسلمانوں کا مرہون منت ہے ۔ایسی دہشت گرد تنظیموں کوجنم دیا گیا جن کا نام پہلے کبھی نہیں سنا گیا تھا ۔ان تنظیموں کو مسلمانوں سے جوڑدیا گیا اور پولیس نے گھروں میں گھس کر بے گناہ مسلمان نوجوانوں کو پکڑا اور انہیں مرنے کے لیے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے تاکہ مسلمانوں کو ہراساں کیاجاسکے ۔انکی زندگیوں سے سکون چھین لیا جائے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیے گئے مسلمان عدالتوں سے باعزت بری کیسے ہورہے ہیں ؟ ممکن ہے آگے یہ سلسلہ بھی بند ہوجائے کیونکہ عدالتیں ریاست کے زیر اثر ہوتی ہیں ،حجاب کے معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ اس دعویٰ پر تازہ شہادت ہے ۔
قابل غور یہ ہےکہ اس وقت بالی وڈ پر یرقانی تنظیموں کا تسلط ہے ۔ان کے ایجنڈہ پر سرجوڑ کر کام ہورہاہے ۔پردۂ سیمیں کو مسلمانوں کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہاہے ۔اس کی تازہ مثال ’کشمیر فائلز ‘سے دی جاسکتی ہے ۔کشمیر فائلز سے پہلے ایسی فلموں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کی کردار کشی کی منظم کوشش کی گئی ۔ایسی ہی ایک فلم ہے جس کا نام ہے ’سیکریٹ سپراسٹار‘۔اس فلم میں عامرخان ،زائرہ وسیم ،مہر وج اور راج ارجن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے ۔اس فلم کا مرکزی خیال حجاب کے خلاف تھا ۔لیکن افسوس اس وقت ہمارے ملّی قائدین اور تنظیمیں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں ۔یوں بھی ہم تو مولوی ملّا لوگ ہیں ۔فلمیں نہیں دیکھتے ۔گانے نہیں سنتے ۔یہ بہانے بناکر ہم اپنے خلاف ہونے والی منظم سازشوں سے کیسے آنکھیں موند سکتے ہیں ۔اس وقت مسلمانوں کے خلاف سب سے موثر ہتھیار پردۂ سیمیں ہے ،ہمیں اس کے دائرۂ اثر کو سمجھنا ہوگا ۔’سیکریٹ سپر اسٹار‘ میں ایک مسلم خانوداہ کو مرکزی کہانی کے طورپر پیش کیا گیاہے ۔اس گھر میں کل پانچ افراد ہیں ۔لڑکی کا باپ فاروق ملازمت پیشہ ہے جو متشدد ذہنیت کا حامل ہے ۔وہ بات بات پر اپنی بیوی کو زدوکوب کرتا رہتاہے۔اسے ظاہری طورپر مذہبی بیک گرائونڈ دیا گیاہے ۔اس کی بیوی شوہر کی زیادتیوں کے خلاف خود سپردگی کرچکی ہے ۔ان کے دوچھوٹے بچے ہیں ۔ایک لڑکا ہے جو غالبا چھ سات سال کا ہوگا۔لڑکی چودہ پندرہ سال کی عمر کی ہے ۔ایک بوڑھی عورت جو فاروق کی ماں ہے ،کا فلم میں کوئی خاص کردار نہیں ہے ۔مرکزی کہانی یہ ہے کہ انسیہ کو میوزک کا بہت شوق ہے ۔مگر اس کا باپ اس کے اس شوق کا سخت مخالف ہے ۔انسیہ کی ماں جو اپنی بیٹی کو مکمل آزادی فراہم کرانا چاہتی ہے ،اس کے میوزک کے شوق میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔جب اس کا باپ ملازمت کےلیے ہندوستان سے باہر چلاجاتاہے ،تو اس کی ماں سے اسے مکمل آزادی فراہم کرتی ہے ۔ایک دن انسیہ کو یہ خیال آتاہے کہ اسے اپنے گانے کا ویڈیو بناکر یوٹیوب پر اپ لوڈ کرنا چاہیے ۔وہ لیپ ٹاپ پر گاناریکارڈ کرتی ہے تو اسے احساس ہوتاہے کہ وہ بغیر حجاب کے اپنا گانا یوٹیوپ پر اپ لوڈ نہیں کرسکتی ۔کیونکہ اس کا باپ میوزک سننا پسند نہیں کرتا ۔فلم میں انسیہ کے باپ کو گٹار توڑتے ہوئے اور اس سلسلے میں اپنے خانوادے پر تشدد کرتے ہوئے بھی دکھایا گیاہے۔بہرحال !انسیہ اسی کشمکش میں مبتلا ہوتی ہے کہ آخر حجاب کے بغیر ویڈیو کیسے بنایا جائے ۔تبھی اس کی ماں راستہ سجھاتی ہے کہ اسے گانا حجاب پہن کر ریکارڈ کرنا چاہیے ۔اس طرح کوئی اسے پہچان نہیں پائے گا ۔انسیہ کا اصل مقصد دنیا تک اپنی آواز کی خوبصورتی کو پہنچانا ہوتاہے ،لہذا وہ آمادہ ہوجاتی ہے ۔وہ حجاب میں گانا ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرتی ہے جس کے بعد پورے ہندوستان میںاس کی آواز کی دھوم مچ جاتی ہے ۔اسے لاکھوں لائک اور ہٹس ملتے ہیں جس کےبعد وہ راک اسٹار گلوکار شکتی کمار( عامر خان) کے رابطے میں آتی ہے ۔عامر خان اسے ممبئی مدعو کرتاہے ۔انسیہ اپنے گھروالوں کو بغیر بتائے اسکول ٹائم میں ممبئی آتی جاتی رہتی ہے ۔وہاں اس کا ریکارڈ کرایا ہوا گانا کافی مقبول ہوتاہے ۔
شکتی کمار(عامر خان )ایک عیاش طبع انسان ہے جس کی عیاشیوں کی بنیاد پر اس کا طلاق ہوچکاہے ۔انسیہ شکتی کمار سے اپنے گھریلو جھگڑوں کے بارے میں بات کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کے ماں باپ کے درمیان طلاق ہوجائے ۔شکتی کمار اس سلسلے میں اسکی مدد کرتاہے ۔انسیہ شکتی کمار کی مدد سے ایک خاتون وکیل سے ملتی ہے جو دراصل شکتی کمار کی سابقہ بیوی کی وکیل ہوتی ہے مگر وہ انسیہ کی ذہنی بیچارگی سے متاثر ہوکر اس کی مدد کرتی ہے ۔وکیل اسے ایک فائل تیار کرکے دیتی ہے جس میں طلاق کے تمام شرائط و ضوابط تحریر ہوتے ہیں ۔انسیہ اپنی ماں سے اس سلسلے میں بات کرتی ہے تو وہ آمادہ نہیں ہوتی ۔اچانک اس کے باپ کو سعودی عرب میں ملازمت مل جاتی ہے۔وہ چاہتاہے کہ اس کا پورا خانوادہ اس کے ساتھ سعودی عرب جائے ۔اسی دوران انسیہ کو معلوم ہوتاہے کہ اس کے باپ نے سعودی میں اپنے دوست کے لڑکے کے ساتھ اس کی شادی بھی طے کردی ہے ۔انسیہ اپنی ماں کےسامنے اس شادی کی سخت مخالفت کرتی ہے مگر باپ کےسامنے بولنے کی اس میں ہمت نہیں ہوتی۔بہر کیف!وہ دن آجاتاہے جب انہیں سعودی کے لیے روانہ ہونا ہوتاہے ۔انسیہ جاتے جاتے اپنا گٹار بھی ہمراہ لے جانا چاہتی ہے ۔ممبئی ائیرپورٹ پر جب اس کے باپ کو معلوم ہوتاہے کہ اس کی بیٹی کے سامان میں گٹار بھی ہے ،تو وہ زبردستی اسے کچرے کے ڈبے میں ڈلوادیتاہے ۔اس پر انسیہ کی ماں کو طیش آجاتاہے اور وہ شوہر کی مخالفت پر آمادہ ہوجاتی ہے ۔وہ کہتی ہے کہ گٹار ساتھ نہیں جائے گا تو وہ بھی نہیں جائے گی ۔اس طرح ائیرپورٹ پر ان کے درمیان کافی کہا سنی ہوتی ہے اور انسیہ کی ماں اپنے شوہر کو طلاق کی فائل تھماکر ائیرپورٹ سے باہر نکل جاتی ہے ۔اسی دن ممبئی میں سالانہ ایوارڈ فنکشن منعقد ہورہاہوتاہے جہاں انسیہ کو اس کے گائے ہوگانے کے لیے بیسٹ سنگر کا ایوارڈ ملنا ہوتاہے ۔وہ اپنی ماں کے ساتھ شکتی کمار کی مدد سے ایوارڈ فنکشن میں پہونچ جاتی ہے ۔مگر لوگ انسیہ کو فقط اس کی آواز کی بنیاد پر پہچانتے ہیں۔کسی نے اب تک اس کا چہرہ نہیں دیکھا ہوتاہے ۔جب اسے ایوارڈ دیاجاتاہے تو وہ اسٹیج پر جانے سے پہلے بھرے مجمع میں اپنا نقاب اتاکر اپنی آزادی کا اعلان کردیتی ہے ۔انسیہ کا حجاب اتارنا گویا مذہبی اصولوں سے بغاوت کا اعلان تھا ۔ایک پورے معاشرے کو پردۂ سیمیں پرزیر سوال لایا گیا کہ جب تک مسلمان خواتین حجاب سے باہر نہیں نکلیں گیں ان کی ترقی ممکن نہیں ہے !
’سیکریٹ سپر اسٹار‘ جیسی فلمیں نوجوان نسل کی ذہن سازی کا کام کرتی ہیں ۔اس فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ حجاب دقیانوسی سوچ کا آئینہ دار ہے جو عورت کی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔پردۂ سیمیں پر یہ فلم بہت کامیاب رہی تھی ۔مگر افسوس ایسی فلموں کے خلاف ہمارے پاس کوئی مضبوط لایحۂ عمل نہیں ہے ۔ہم اپنی نوجوان نسل کو پردۂ سیمیں سے دور نہیں رکھ سکتے لیکن اس کے اثرات سے ضرور بچا سکتے ہیں ۔حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مختلف شہروں میں حجاب کی اہمیت اور ضرورت پر سیمیناروں کی ہوڑ مچی ہوئی ہے ،جیساکہ ملّی سطح پر ہمیشہ دیکھا گیاہے ۔لیکن کیا ان سیمیناروں اور یوٹیوب پر منعقد پروگراموں کا خاطر خواہ اثر ہوگا ؟ کیا اس وقت نوجوان نسل سے مکالمہ قائم کرنے ضرورت نہیں ہے ؟آیا یہ مکالمہ سیمیناروں کے ذریعہ ممکن ہے؟اگر گھر گھر تک پہونچ کر نوجوان نسل کو ان کے سماجی و مذہبی تشخص کی اہمیت کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں دی جائے گی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ ہمارےگھروں ہی سے حجاب اور دیگر تشخصات کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں گی۔جب تک ہم نوجوان نسل کو اپنے سماجی و مذہبی تشخص کی اہمیت نہیں سمجھائیں گے اس وقت تک فاشسٹ طاقتیں ہماری نسلوں کے ذہنوں پر حملہ ور ہوتی رہیں گی ۔