-
اب آسام کے مدارس بی جے پی حکومت کے نشانے پر
- سیاسی
- گھر
اب آسام کے مدارس بی جے پی حکومت کے نشانے پر
977
M.U.H
19/10/2020
0
0
تحریر: نواب علی اختر
کسی بھی تعلیمی ادارے کو بند کرنے کا مطلب طلبا کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس طرح کے فیصلے طلباء کے مفاد کے لئے نہیں لئے جاتے بلکہ ان سب کے پیچھے سیاست کار فرما ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علاقائی سیاستدانوں کے لیے ہمیشہ ایسے ہی مسئلے ووٹ بٹورنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جن سے سماج تقسیم ہو۔ ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہاں کی بی جے پی حکومت نے جلد ہی سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے کا فیصلہ کر کے یقینی طور پر اکثریتی طبقے کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ آسام حکومت کا تازہ فیصلہ سیاسی نفع ونقصان کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے، کیونکہ چند ماہ بعد ہی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔
آسام میں مدرسہ کا تعلیمی نظام بہت پرانا ہے اور انہیں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے کئی افراد آج ملک کے مختلف حصوں میں اعلیٰ عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے کر ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔ در حقیقت آسام کی بی جے پی حکومت نے تمام سرکاری مدرسوں اور سنسکرت ٹولس یا سنسکرت مراکز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آسام کے وزیر تعلیم ہیمنت بِسوا سرمہ نے کہا ہے کہ آئندہ پانچ ماہ کے اندر سرکاری زیر انتظام یا مالی اعانت والے مدرسوں اور ٹولس کی آئندہ 5 ماہ کے اندر باقاعدہ اسکولوں کے طور پر تشکیل نو کی جائے گی۔ ایسا اس لئے کیونکہ سیکولر حکومت کا کام مذہبی تعلیم فراہم کرنا نہیں ہے۔ ہم مذہبی تعلیم کے لئے سرکاری فنڈ خرچ نہیں کرسکتے۔
ریاست میں کام کرنے والے پرائیویٹ مدرسوں کے بارے میں وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ سماجی تنظیم اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ چلائے جا رہے پرائیویٹ مدرسوں کو لے کر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ وہ چلتے رہیں گے لیکن پرائیویٹ مدرسوں کو بھی ایک ضابطے کے دائرہ کار میں چلانا ہوگا۔ اس سلسلے میں وہ جلد ہی قانون لانے والے ہیں۔ آسام کے اقتدار پر قابض بی جے پی حکومت کے ذریعہ مدرسوں کو بند کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اگلے پانچ ماہ میں ریاستی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے صاف ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش ہے۔
آسام میں 6 سو سے زائد سرکاری مدرسوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیاسی سازش کے تحت مدرسوں کو بند کرنا ان طلباء کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ ہیمنٹ بسوا سرمہ اس سے قبل جب کانگریس حکومت میں وزیر تعلیم تھے، اس وقت انہوں نے مدرسوں کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن بی جے پی میں آنے کے بعد وہ پوری طرح بدل گئے ہیں۔ کچھ لوگ مسلمانوں کو نشانہ بنا کرمغلوں کو بھگانے کی بات کر رہے ہیں تو کچھ لوگوں نے اردو کو لے کر بحث شروع کردی ہے۔ مدرسوں کے بارے میں بھی ایک غلط فہمی پھیلائی گئی ہے۔ جبکہ مدرسوں میں تعلیم حاصل کر کے بہت سارے لوگ سول سروسیز، ڈاکٹر، وکیل سے لے کر کئی بڑے پیشے میں جا چکے ہیں۔
آسام میں دو طرح کے مدرسے ہیں۔ ایک سرکاری گرانٹ سے چلتے ہیں اور دوسرے نجی تنظیمیں چلاتی ہیں۔ آسام حکومت 614 مدرسوں کا انتظام وانصرام سنبھالتی ہے جبکہ ریاست میں تقریباً 900 پرائیویٹ مدرسے چل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاست میں تقریباً 100 حکومت کے زیرانتظام سنسکرت آشرم ہیں اور 500 پرائیویٹ سینٹر ہیں۔ حکومت ہر سال مدرسوں پر تقریبا تین سے چار کروڑ روپے خرچ کرتی ہے جبکہ تقریباً ایک کروڑ روپئے سنسکرت سینٹر پر خرچ ہوتا ہے۔ اس طرح بی جے پی حکومت کے حوالے سے ریاست کے عوام کے خیالات معلوم کیے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھگوا پارٹی نے روزگار دینے سے لے کرترقی کے جو وعدے کیے تھے، پچھلے پانچ سالوں میں وہ کوئی کام نہیں کر سکی ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے اور لگاتار ریاست کے سرکاری شعبے کی املاک کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
خالص ہندو مسلم سیاست کے ذریعے ووٹروں کو اپنی طرف لانے کی کوشش کے تحت بی جے پی مدرسوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ وزیرتعلیم کو آج محسوس ہو رہا ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی، لیکن وہ جب کانگریس کی حکومت میں لگاتار وزیر تعلیم تھے اس وقت انہیں ایسا کچھ نہیں محسوس ہوا۔ ملک میں مدرسہ نظام دور قدیم سے ہی کامیابی کے ساتھ قائم ہے۔ ہمنت بسوا شاید سب سے طویل عرصے تک ریاست کے وزیر تعلیم رہے ہیں لیکن باقاعدہ اسکولوں میں بھی صورتحال کہاں بہتر ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب تعلیم کے بارے میں سیاست ہوگی تو اس کا سب سے زیادہ خمیازہ طلباء کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
ہندوستان میں مدرسہ تعلیمی نظام کے حوالے سے اکثر تنازعہ ہوتا رہتا ہے، بہار اور مغربی بنگال میں کچھ مدرسوں کے بارے میں پہلے بھی شکایات ہو چکی ہیں لیکن آسام میں مدارس کو لے کر حالیہ فیصلے کا مقصد ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ ریاست میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے ووٹوں کو جتنا پولرائز کیا جائے گا، اتنا ہی زیادہ اسے فائدہ ہوگا۔ بی جے پی کے لوگوں نے ہندو ثقافت اور اس کی حفاظت کرنے کی تشہیرعوامی پلیٹ فارم پر کرنا شروع کردی ہے۔ اسی سلسلے میں مغلوں کو بھگانے کی بات بھی کہی جا رہی ہے۔ دراصل یہ سب اسی سمت میں جا رہا ہے لیکن مدرسوں کو بند کرنے کا بنیادی مقصد سیاست ہی ہے۔ سرکاری مدرسوں کو بند کرنے سے صرف مسلم طلباء کو ہی نقصان ہوگا۔
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)