-
جمہوری قدروں کی پامالی
- سیاسی
- گھر
جمہوری قدروں کی پامالی
451
M.U.H
01/07/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان میں اٹھارویں لوک سبھا کےافتتاحی اجلاس اور پارلیمانی اراکین کی حلف برداری کی تقریب کو بھی تاریخ میں یاد رکھاجائے گا۔پارلیمنٹ میں جہاں ایک طرف ’جئے بھیم ‘ اور جئے سنودھان ‘ کے نعرے لگے وہیں ’جئے ہندوراشٹر‘ اور ’جئے فلسطین ‘ کے نعرے بھی بلند ہوئے ۔جمہوریت کے مندر میں ایسے نعروں کا بلند ہونا صحت مند جمہوری قدروں کے منافی ہے لیکن اب ملک اس راہ پر ہے جہاں ایسے نعروں کے بغیراقتدار کا حصول بھی ممکن نہیں ۔اس لئے ہر سیاسی جماعت تمام اخلاقی اور سیاسی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ چکی ہے اور سیاست نعروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔یوں بھی انتخابات میں واضح اکثریت کی عدم دستیابی نے بی جے پی کے حواس باختہ کردئیے ہیں ،اس لئے جابہ جا بوکھلاہٹ کا اظہار ہورہاہے ۔اُڑیسہ کے بالاسور میں ہوا فرقہ وارنہ فساد ہو یا پھرملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے ناخوشگوار واقعات ہوں،ان سے بی جے پی کی شکست خوردہ ذہنیت کی بوکھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ صاف نظر آرہی ہے ۔گئوکشی کے بہانے پہلے بھی فرضی گئورکشکوں نے بے گناہوں کا قتل عام کیاہے اور اب بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ہے ۔خاص طورپر اترپردیش میں لاقانونیت عروج پر ہے اور لوک سبھا انتخابات میں ہار کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ انتقامی موڈ میں نظر آرہے ہیں ۔ملک کے مختلف حصوں سے یرقانی تنظیموں کی غنڈہ گردی کی خبریں موصول ہورہی ہیں جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ شکست نے انہیں کس قدر ذہنی طورپر متاثر کیاہے ۔
لوک سبھا میں اسپیکر اوم برلا کا انتخاب اور حلف برداری کی تقریب میں ان کا انداز تخاطب چونکا دینے والا تھا۔ان کا گذشتہ دور بہت کامیاب اور قابل ذکر نہیں رہا ۔انہوں نے اسپیکرکے عہدے پر رہتے ہوئے جمہوری اور پارلمانی قدروں کو نظرانداز کیا اور بیک وقت حزب اختلاف کے تقریباً سو اراکین پارلیمنٹ کو معطل کردیاتھا ۔صرف اتناہی نہیں انہو ں نے حزب اختلاف کی اظہار رائے پر بھی پابندی عائد کی ۔کئی بار تقریر کے دوران راہل گاندھی کا مائک بندکردیا اور حزب اختلاف کے رہنمائوں کو انتہائی تحقیر آمیز انداز میں ٹوکاگیا ،جس سے یہ ظاہر ہورہا تھاکہ اوم برلا پر حکومت کا کس قدر دبائو ہے ۔یا یوں کہاجائے کہ ان کی تربیت آرایس ایس کے گلیاروں میں ہوئی ہے جہاں اسی طرح کی زبان مروج ہے اور قدروں کا پاس و لحاظ کوئی معنی نہیں رکھتا ،اس لئے اوم برلا کے لب و لہجے اور انداز کو اس تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے ۔دوسری بار لوک سبھا اسپیکر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ میں جو رویہ اختیارکیا وہ انتہائی غیر مناسب اور ان کے عہدے کے منافی تھا ۔لیکن اب وہ اس رویے کے عادی ہوچکے ہیں ۔اگر حزب اختلاف نے ان کی گستاخیوں پر قابو نہیں پایا تو وہ آئندہ مزید غیر مناسب رویہ اختیار کریں گے بلکہ اراکین پارلیمنٹ کے تعطل کا سلسلہ بھی نہیں رکے گا۔اس لئے حزب اختلاف کو ان کے رویے پر سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا اور اس کا کوئی قانونی حل تلاش کرنا ہوگا۔کیونکہ ایک بارپھر جس طرح تقریر کے دوران راہل گاندھی اور کانگریس صدر کھرگے کا مائک بند ہوا،اس سے اوم برلا کی ذہنیت کا اندازہ کیاجاسکتاہے ۔
اوم برلا اس لئے بھی بوکھلاہٹ اور نفرت کا شکار ہیں کیونکہ حزب اختلاف نے انہیں حمایت نہیں دی ۔انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں بھی عمداً ’ایمرجنسی ‘ کا ذکرکیا اور اس کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی ۔’ایمر جنسی ‘ کا نفاذ صحیح تھا یا غلط اس پر یہاں بحث ممکن نہیں ہے ،لیکن اراکین پارلیمنٹ کی حلف برداری کے موقع پر اس مسئلے کو اٹھانا ’گڑے مردے اکھاڑنے‘ کے متراد ف تھا ۔اگر ’ایمرجنسی ‘ جمہوری قدروں اور ملک کی سالمیت کے منافی تھی تو پھر ’نوٹ بندی‘ اور کرونا کے موقع پر ’اچانک لاک ڈائون ‘ کا فیصلہ بھی ’ایمرجنسی ‘ کے نفاذ سے کم خطرناک اور نقصان دہ نہیں تھا۔نوٹ بندی نے ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہونچایا اور عام ہندوستانی کی زندگی بھی اس کی زد میں آئی ۔اسی طرح ’اچانک لاک ڈائون ‘ نے ہندوستان کو کتنے نازک موڑ پر لاکھڑا کیا تھا اور کتنے انسان اس غیر سیاسی فیصلے کا شکار ہوئے ،اس پر بہت کچھ لکھاجاچکاہے ۔لیکن بی جے پی ان فیصلوں کے نقصانات پر اظہار شرمندگی کے بجائے انہیں تاریخی قراردیتی ہے ۔نہیں معلوم کہ ’نوٹ بندی‘ اور ’اچانک لاک ڈائون ‘ کے فیصلوں میں ایسا کیا تھاکہ انہیں تاریخی کہاجاسکے ۔البتہ ان کے نقصانات کی بنیاد پر ایسا ضرور کہاجاسکتاہے ۔
لوک سبھا میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا خطاب بھی عوامی مسائل اور ملک کی موجودہ صورتحال کے تجزیے سے عاری تھا۔ ایسامحسوس رہاتھاکہ جیسے صدر جمہوریہ اور لوک سبھااسپیکر کی تقریر ایک شخص نے تحریر کی ہے ۔اس میں شک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ بی جے پی کے تمام وزرااور اراکین انہی نکات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جو ان کے پاس طے شدہ مسودہ کی شکل میں آتے ہیں ۔اس کے خلاف نہ وہ بول سکتے ہیں اور نہ سوچ سکتے ہیں ۔اس لئے اسپیکر اوم برلا اور صدر جمہوریہ کے خطاب میں بعض نکات مشترک تھے ۔حقیقت یہی ہے کہ صدر جمہوریہ کا خطاب عوامی مسائل سے خالی تھا ۔انہوں نے بھی ’ایمرجنسی ‘ پر تنقید کرتے ہوئے اس فیصلے کو آئین پراب تک کا سب سے بڑا حملہ قراردیا۔آیا ’ایمرجنسی‘ میں عوام کا بہیمانہ قتل کیا گیاتھا؟ یا پھر ملک فرقہ وارایت کی زد میں تھا؟ فساد رونما ہورہے تھے یا پھر منی پور کی طرح ملک کی کوئی ریاست نفرت کی آگ میں جھلس رہی تھی؟مآب لنچنگ کے واقعات ظہور میں آئے یا گئورکشکوں نے انسانوں کو زندہ جلایا؟ آخر بی جے پی اور اس کے وزرا’ایمرجنسی ‘ کا راگ الاپ کراپنی ناکامیوں اور یرقانی تنظیموں کے غنڈوں کی کالی کرتوتوں کی پردہ پوشی کیوں کرتے ہیں ؟کیا منی پورکی موجودہ صورت حال پر صدر جمہوریہ کو اظہار خیال نہیں کرنا چاہیے تھا؟ ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اس پر بھی کوئی ردعمل نہیں آیا۔ملکی معیشت عالم نزع میں ہے مگر بی جے پی کی طرز پر صدر جمہوریہ بھی ہندوستان کے بہتر اقتصاد کا قصیدہ پڑھ رہی تھیں ۔یہ اقتصادی نظام جو عالمی نظام کا رہنما ہے ،کہاں ہے اور اس کے خدوخال کیاہیں؟اس پر کوئی بات نہیں ہوتی ۔صدر جمہوریہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی نفرت اور کمزور ہوتی ہوئی جمہوری قدروں پر بھی کوئی بات نہیں کی ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین کے نفاذ کے بعد بھی کئی بار آئین پر حملہ کیا گیا۔اس کے بعد انہوں نے ’ایمرجنسی ‘ کا ذکرکیا لیکن ’نوٹ بندی‘ اور ’اچانک لاک ڈائون‘ کا ذکر تک نہیں کیا ۔اس کے برعکس یرقانی تنظیمیں جس نئے آئین کے نفاذ کی بات کررہی ہیں اور ’دھرم سنسدوں ‘ میں جس طرح ’ہندوراشٹر‘ کا راگ الاپا جارہاہے کیا وہ آئین پر حملہ نہیں ہے ؟کیا ’دیش کے غداروں کو گولی ماروسالوں کو‘ جیسے جملے آئین اور جمہوریت کے لئے خطرہ نہیں ہیں؟ بہترہوتا اگرصدرجمہوریہ بی جے پی کی ترجمان کے بجائے ملک کے صدر کی حیثیت سے خطاب کرنے کی زحمت کرتیں ۔ان کا خطاب بقول کانگریس صدر ’عوامی مسائل سے عاری تھا‘۔
صدر جمہوریہ نے نومنتخب اسپیکر اوم برلا کو مبارکباد دیتے ہوئے لوک سبھا کے انتخابی نتائج پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ عوام نے مسلسل تیسری بار ایک مستحکم حکومت کو منتخب کیا‘۔آیا ان کا یہ تجزیہ جانبداری پر مبنی نہیں ہے ۔کیونکہ بی جے پی کے پاس اکثریت کا فقدان تھا اور عوام نے اس کو واضح اکثریت نہ دے کر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیاتھا۔اس کے باوجود صدر جمہوریہ کا یہ کہنا کہ’عوام نے مسلسل تیسری بار ایک مستحکم حکومت کو منتخب کیاہے‘ بی جے پی کو خوش کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا ۔گویا کہ یہ صدارتی عہدے پر بی جے پی کی طرف سے اپنی نامزدگی کا قرض اتارنے کی کوشش تھی ۔ورنہ صدر جمہوریہ کو بخوبی معلوم ہے کہ بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں ہے اور یہ حکومت کبھی بھی عدم اعتماد کا شکار ہوسکتی ہے ۔
پارلیمنٹ میں ملک اور عوام کی ترقی کے لایحۂ عمل پر بحث ہونی چاہیے اورہر حال میں جمہوری اور آئینی قدروں کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔مگر بی جے پی کا جارحانہ رویہ اور اس کے وزرا کا غیر تربیتی انداز جمہوری قدروں کے منافی ہے ۔پارلیمانی اراکین کو قابو کرنے کی ذمہ داری لوک سبھا اسپیکر پر عائد ہوتی ہے مگر جب اسپیکرہی کوان اقدار کا پاس و لحاظ نہ ہو تو کسی دوسرے سے اس کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔اس لئے آئندہ جمہوریت کے مندر میں کیا کیا اور کیسے کیسے ہنگامے ہوں گے ،اس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا۔