-
حکومتوں کا دوہرا رویہ
- سیاسی
- گھر
حکومتوں کا دوہرا رویہ
307
M.U.H
24/07/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
محرم اور کانوڑ یاترا کی مذہبی روایت ایک ساتھ جاری رہی۔ کانوڑ یاترا کو تو سرکاری سرپرستی حاصل ہے اور کیوں نہ ہو جب ملک کو ہندوتوا ریاست بنانے کی کوششیں شباب پر ہیں ۔آئین ہند بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور بھگوا قانون کی بالادستی کا عمل زوروں پر ہے ۔سرکار نے کانوڑ یوں کو قانون سے بالاتر باور کرادیا ہے ،اسی بنا پر وہ ہر جگہ قانون کو پامال کررہے ہیں ۔اگر اس طرح کا ہنگامہ مسلمانوں کے جلوسوں میں ہوتا تو اب تک ان کے جلوسوں پر پابندی عائد کرنے کی تیاری ہوچکی ہوتی اور ہزاروں کو جیل بھیج دیا جاتا۔ تعزیے کے جلوسوں پر تو یوگی نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ،یہ جونپور میں رونما ہوئے واقعہ کے تناظر میں کہا گیاتھا۔کیا وہ کانوڑ یوں کے ہنگاموں اور قانون کی اعلانیہ پامالی پر بھی اس طرح کا بیان دے سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ،کیونکہ انکا اقتدار اسی نفرتی بیانیہ پرٹکا ہوا ہے ۔محرم میں تو انتظامیہ نے مذہبی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کی تصویراتروانےکے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔ صرف اتنا ہی نہیں محرم کے جلوسوں کے خلاف میڈیا نے منفی پروپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ تعزیہ کے جلوسوں کے خلاف منصوبہ بند خبریں چلائی گئیں ۔یہ صرف اس لیے ہورہاتھا کہ محرم میں اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جارہی تھی ۔آیت اللہ خامنہ ای کو عالم اسلام کے ہیرو کے طور پر تسلیم کیا جارہا تھا ،اس لئے میڈیا کو محرم اور اس تحریک کو روکنے کے لیے فعال کیا گیا ۔انتظامیہ نے جگہ جگہ پہنچ کر تصویریں اتروانی شروع کردیں ،جبکہ اہل تشیع کے یہاں ہمیشہ اپنے مذہبی رہنماؤں کی تصویریں لگائی جاتی رہی ہیں ،اسکے باوجود انتظامیہ نے تصویریں اتروانے کا عمل جاری رکھا ۔بعض جگہوں پر تو نفرت کے شکار افسروں نے توہین آمیز رویہ اختیار کیا جو انتظامیہ کی جانب داری اور پولیس کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورایت کو ظاہر کرتا ہے ۔پولیس کا فرض امن و امان کی برقراری ہے نہ کہ لا اینڈ آرڈر کو متاثر کرنا۔ مگر اتر پردیش میں تو صورت حال یہ ہے کہ پولیس کے اعمال کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ایسے حالات میں قانون کی بالادستی کیسے قائم ہوسکتی ہے ۔ہندو فرقہ پرست تنظیمیں بھی اسرائیل کی محبت میں آیت اللہ خامنہ ای کی تصویریں لگانے کی مخالفت کرنے لگیں ۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انکی تصویر نہیں اتاری گئی تو ہم بھی نتن یاہو کی تصویر لگائیں گے ۔جب مخالفت کی بنیاد غیر منطقی استدلال ،بدعقلی اور اسلام دشمنی ہو تو پھر افہام و تفہیم کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ۔ورنہ فرقہ پرست تنظیموں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ نتن یاہو جیسے ظالم اور آمر کی حمایت سے انہیں کیا فائدہ پہنچے گا ۔ کیا ہندو دھرم ظالموں کی حمایت کی تعلیم دیتا ہے ؟ کیا ہندوتوا کا ایجنڈا مذہب کی بنیاد پر مظلوموں کی مخالفت اور ظالموں سے اظہارِ ہمدردی ہے ؟ یقینا ہرگز ہندو مت اسکی تعلیم نہیں دیتا ،مگر اسلاموفوبیا نے انکی نس نس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بھر دیا ہے ۔یہ کام تو غزہ پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا ۔فرقہ پرست طاقتیں اسلام دشمنی میں اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہی تھیں ۔سوشل پلیٹ فارمز پر ایسے متعصب افراد کو فعال کیا گیا جو غزہ کی بربادی اور بے گناہوں کے قتل عام پر اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے ۔ان کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ ہندوستان اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ غیر مسلم افراد کی اکثریت اس نسل کشی کی مخالفت کررہی تھی ،مگر انکی آوازوں کو دباکر اسرائیل کی حامی آوازوں کو اہمیت دی جارہی تھی ۔ اس کے باوجود الگ الگ ذرائع سے امن پسند افراد نے فرقہ پرست طاقتوں کے پروپیگنڈے پر ضرب لگائی ۔ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی فرقہ پرست طاقتیں اسرائیل کی حمایت میں اُتر آئی تھیں اور ایران کو غزہ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ،مگر ایران کے دندان شکن جواب کے بعد فرقہ پرستوں کو سانپ سونگھ گیا اور وہ بھی امن کی دہائی دینے لگے ۔آیت اللہ خامنہ ای کی تصاویر کی مخالفت کا ایک سبب ہندستان میں بین الادیان انکی بڑھتی ہوئی مقبولیت بھی تھی ،جس کا احساس فرقہ پرستوں کو ہوچکا تھا ۔جب تک ایسی فرقہ پرست طاقتیں ہندوستان پر مسلط ہیں ،وطن عزیز میں بھی نفرت پروان چڑھتی رہے گی کیونکہ انہوں نے نفرت کو اقتدار پانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے ۔
میڈیا کی حالت تو یہ ہے کہ وہ مسلم دشمنی اور اسرائیل کی محبت میں ہر اخلاقی حد کو پار کرنے کے لئے تیار ہے ۔یوں بھی قومی میڈیا کے منہ میں استعماری نیوز ایجنسیوں کی زبان ہے ۔عشرہ محرم کے آخری ایام میں جب آیت اللہ خامنہ ای ایک مجلس میں شرکت کے لیے آئے تو میڈیا نے کہنا شروع کر دیا کہ جنگ بندی کے بعد پہلی بار آیت اللہ خامنہ ای اپنے خفیہ بنکر سے باہر نکلے ۔ میڈیا یہ چاہتا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای انہیں اپنے ہر ٹھکانے کی خبر دیں بلکہ انکے نیوز روم میں ہونے والی ڈیبیٹ میں بھی شامل ہوں ۔ اسرائیل کی شکست سے استعماری نیوز ایجنسیوں کی بوکھلاہٹ تو سمجھ میں آتی ہے ،مگر نہ جانے کیوں بھارت کا میڈیا بھی بوکھلاہٹ اور ہذیان گوئی کا شکار ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا میڈیا بھی استعمار ہی کنٹرول کررہا ہے ؟کیونکہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے موقع پر میڈیا نے حزب اللہ سیکریٹری حسن نصراللہ اور حماس کے سربراہ يحی سنوار تک کو دہشت گرد کہا ۔مگر بے گناہوں کا قتل عام کرنے والے نتن یاہو کے خلاف زبان پر تا لے پڑ گئے ۔انسانی امداد کے لئے قطاروں میں کھڑے نہتے بچوں اور عورتوں پر گولیاں برسانا کیا دہشت گردی نہیں ؟ کیا کسی آزاد اور خودمختار ملک کے اندر بزدلانہ حملہ کرکے اسکے لیڈروں کا قتل کرنا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ جب تک دہشت گردی پر دہرا رویہ ختم نہیں ہوگا دہشت گردی بھی ختم نہیں ہوگی ۔ہمارا ملک جو خود دہشت گردی سے مقابلہ آرا ہے جب تک دہشت گردی کے آقاؤں کی اعلانیہ مخالفت نہیں کرے گا ،یہاں بھی حالات سازگار نہیں ہوسکتے ۔
اب آتے ہیں کانوڑ یاترا کی طرف ۔ محرم کے جلوسوں پر تنقید کرنے والا میڈیاکانوڑیوں کی غنڈہ گردی اور سماجی و قانونی اقدار کی پامالی پر مہر بلب ہے ۔انہیں محرم کے جلوسوں میں فلک بوس تعزیوں پر اعتراض ہے مگرکانوڑ یوں کی آمرانہ حرکتوں پر کوئی باز پرس نہیں۔ جگہ جگہ انکی مار پیٹ کے ویڈیو وائرل ہورہے ہیں ۔اکثر جگہوں پر پولیس بھی بے بس ،خاموش تماشائی نظر آرہی ہے ۔ کیا انہیں ہر طرح کی آزادی اور چھوٹ دی گئی ہے ،یہ سوال تو سرکار سے ہونا چاہئے ۔ اگر یوگی آدتیہ ناتھ کانوڑ یاترا کی راہ میں پڑنے والی بلکہ دیگر علاقوں میں موجود گوشت کی دکانوں کو بند کرواسکتے ہیں تو وہ انکی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ،کیونکہ یہی لوگ ان کا ووٹ بینک ہیں ۔ البتہ یوگی آدتیہ ناتھ جو قانون و انصاف کی باتیں کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا تے ہیں ،کم از کم کانوڑ یوں کو نشے کی لت سے تو نجات دلواسکتے ہیں ۔ اس یاترا میں ہرطرح کا نشہ مہیا ہوتا ہے جسکی خبر سرکار کو بھی ہے اور انتظامیہ کو بھی ۔اس لئے "نشہ مکت" بھارت کی تعمیر کے لئے اس یاترا کو بھی "نشہ مکت" بنانے کی ضرورت ہے ،البتہ یہ ممکن نہیں ۔کیونکہ انہیں ظاہری نشے کے ساتھ "مذہب کی جو افیون" دی گئی ہے وہ زیادہ خطر ناک ہے ۔مذہب کی یہی افیون بھارت کا بیڑا غرق کرکے رہے گی ،اس لئے نوجوان نسل کو اس لت سے نجات دلوانا ضروری ہے جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے ۔اسلاموفوبیا،ایران کی مخالفت،اسرائیل سے والہانہ عقیدت اور مذہبی رہنماؤں کی تصویریں اتروانے کا جنون نوجوان نسل کی فکری تعمیرکا سبب نہیں بن سکتا۔اس لئےحکومت کوبھی اس حصار سےباہرنکلناہوگا۔