-
استقبال عزا اور ہماری ذمہ داری!
- سیاسی
- گھر
استقبال عزا اور ہماری ذمہ داری!
408
m.u.h
21/07/2023
0
0
تحریر: نواب علی اختر
محرم الحرام سن 1445 ہجری قمری کا چاند کربلا کے میدان میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیتؑ کی اسلام کو بچانے کے سلسلے میں عظیم قربانی کی یادلے کر پہنچ گیا ہے۔ محرم کا مہینہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور وفاداری کا مہینہ ہے۔ محرم کا مہینہ در حقیقت محمد اور آل محمد کی فتح و کامیابی اور باطل پرست طاقتوں کی شکست اور ناکامی کا مہینہ ہے جو دین اسلام کی ابدی حیات کا پیغام لے کرپہنچ گیا ہے۔ کربلا والوں کی یاد وطن عزیز ہندوستان سمیت دنیا بھر میں مذہبی اور دینی عقیدت، جوش و ولولہ اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ جس میں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت شرکت کرتے ہیں۔ الحمداللہ اس سال کا محرم گزشتہ سال کی طرح طبی پروٹوکول سے تقریباً پوری طرح آزاد ہوکر منایا جائے گا۔
محرم الحرام کا چاند جبین فلک پر نمودار ہوتے ہی محبان اہل بیت ذکر شہدائے کربلا سننے اور سنانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں فتح و شکست کے پیمانے بدل گئے، جس میں قاتل شکست کھا گئے اور مقتول فتح سے ہمکنار ہوئے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خون تلوار پر غالب آگیا۔ جب مغرور گردنیں حیرت سے تنی کی تنی رہ گئیں اور کٹی گردنیں نیزوں پر بلند ہوکر سکانِ سماوات کے زمزمے سننے لگیں۔ جن کے دوش پر سر تھے انھوں نے سر بریدہ سے تلاوت قرآن کے نغمے سنے۔ جب حق آشکار ہوگیا اور باطل ذلیل و خوار ہوگیا۔ ہاں یہ سب کچھ محرم الحرام 61ھ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنے والے روز و شب کو یہ داستان منتقل کر دی اور پھر یہ داستان نسلوں نے نسلوں کے نام کی۔
اس محرم نے ہمیں ’کربلا‘ دی ہے جس نے رہتی دنیا تک انسانیت کو وہ اسباق فراہم کئے جو انسانیت کی سرخروئی کی ضمانت ہیں۔ کربلا نے ہمیں صلہ رحمی، اتحاد واتفاق، انسانیت نوازی، حق پرقائم رہنے کی ہمت اور باطل کو ٹھوکر مارنے کی طاقت دی ہے۔ اس کربلا کو آباد کرنے والے کوئی معمولی افراد نہیں تھے بلکہ خانوادہ رسول کی وہ عظیم شخصیات تھیں جو اگر پتھر پر ٹھوکر مار دیں تو پانی کی ندیاں بہنے لگیں، مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان عظیم شخصیات نے کبھی بھی اپنی ذات کے لئے نعمت خدا کا استعمال نہیں کیا اور جب کبھی ان کے در پر کوئی سائل آیا تو انہوں نے اسے خالی نہیں لوٹایا اور اپنے لئے بچاکر رکھی روٹیاں بھوکے سائل کو دیکر شکر خدا بجا لاتے نظر آئے۔
یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کے مسلمانوں میں مسلکی اور فرقے کے لحاظ سے اختلافات ہوسکتے ہیں مگر اہل بیت کے معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر اک انسان اپنے اپنے انداز سے کربلا والوں کو یاد کرتا ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کرتا ہے۔ ماہ محرم میں کربلا والوں کی مظلومانہ شہادت پرعزاداری کی جاتی ہے جس کے لئے صف ماتم بچھائی جا چکی ہے۔ عزاداری کی زندہ و جاوید حقیقت کا آغاز اس وقت ہوا جب کربلائے معلٰی کی ریت میں پہلے شہید سید الشہداء حضرت امام حسین سمیت دیگر شہدا کا پاکیزہ لہو جذب ہوا۔ معرکہ کربلا ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی منزلیں طے کرتا رہا اور بالآخر وہ وقت آیا جب سید الشہداءعلیہ السلام کی شہادت کی خبر بذریعہ راہوار آپ کے پسماندگان تک پہنچی اور خیموں میں پہلی مجلس ِعزا کا آغاز ہوا۔
امام علیہ السلام کی شہہ رگ کے قطع ہونے کے ساتھ ہی دین خدا کو ابدی زندگی مل گئی اور اسی شہہ رگ کے کٹنے کا ذکر اس امت کی حیات جاودانی کا باعث بن گیا۔ عصر عاشور سے شام غریباں، شام ِغریباں سے 11 محرم کی سیاہ رات، اس سیاہ رات کے اختتام پر طلوع ہونے والے دن کو ریگزار کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک کا ہولناک سفر، شام کے زندان کی کربناک قید اور شام سے کربلا اور پھر کربلا سے مدینہ تک سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کا ذکر، عزاداری کی وہ ٹھوس اور لازوال بنیاد تھی جسے خانوادہ اہل بیت کی مخدرات، بیمار امام اور کم سن بچوں نے ایسی انمول قیمت دے کر رکھی جس کا اندازہ صرف اللہ رب العزت کو ہے۔ ذکر ِ کربلا کا یہ سورج تدریجاً بلند ہوتا رہا اور کچھ ہی عرصے میں اس کے نور نے کل کائنات کا احصاء کر لیا۔
آج خدا کے فضل و کرم سے ہفت آسمان سے لیکر اس مادی زمین کا چپہ چپہ ذِکر حسین سے گونج رہا ہے۔1372 سالوں کی مسافت پر مشتمل یہ سفر آج بھی جاری ہے، تاقیامت اور روایات کے مطابق زندگانی بہشت میں بھی جاری رہے گا کیونکہ یہ وہ ابدی حقیقت ہے جو شاید وجہہ ِ تخلیق کائنات تھی۔ خدا کو منظور تھا کہ حسین کی سپاہ ِ بینظیر کے ذریعے حق کو باطل سے یوں جدا کرے کہ حقیقت عیاں ہوجائے۔ خدا کا یہ وعدہ تھا کہ ’فاذکرونی ازکرکم‘ یعنی تم میرا ذکر کرو، تمہارا ذکر کرنا میرا کام ٹھہرا۔ 10 محرم 61ھ کو امامِ عالی مقام نے خدا کا ذکر اس جدا انداز میں کیا کہ آج چہاردانگ عالم میں ذکر حسین کا چرچا ہے۔ عزاداران حسین دنیا کے تمام خطوں میں اس عبادت کو اپنے اپنے انداز میں ادا کر رہے ہیں جو یقینا ان عزادارن کے لئے پیغام ِحیات و نجات ہے۔
جہاں یہ دنیا سمٹ کر ایک عالمی دیہات کی صورت اختیار کر گئی ہے وہیں نہ صرف ہر موجود کے اسلوب پر نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں بلکہ تقاضے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہمارا سلام ہو ان ہستیوں کے حضور جنہوں نے اپنی جان، مال، عزت، آبرو اور سب کچھ دے کر اس عظیم نعمت کی حفاظت کرکے ہم تک پہنچا دی۔ مختلف ادوار میں جب کہ اہل بیت اطہار کا نام تک لینا قابل تعزیر جرم تھا، ہمارے اسلاف نے نہایت جانفشانی سے سینہ بہ سینہ ذکر حسین کو ہم تک پہنچا دیا اور آج یہ عالم ہے کہ ہم ڈنکے کی چوٹ پر شہروں کی شاہراہوں پر یاحسین کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ آج جس آزادی اور بے خوفی سے ہم اس عبادت کو انجام دے رہیں ہیں، یہ سب ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
اب یہ ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ جس حفاظت کے ساتھ یہ نعمت عظمیٰ ہم تک پہنچی، ہم بھی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے یہ امانت اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔ جہاں ظلم کے تاریک ادوار میں اس نعمت کی حفاظت ایک گراں قدر ذمہ داری تھی، وہیں آزادی کے اس دور میں بھی اس کی حفاظت کسی مشکل سے کم نہیں کیونکہ آزاد معاشروں کے چند عاقبت نااندیش نمائندگان ِشیطان، عزاداروں کے بہروپ میں فرش عزا پر براجمان ہوگئے، جن کا مقصد عزائے حسین نہیں اپنے چند مادی فوائد کی حفاظت کرنا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس عبادت کو خلوص نیت سے ادا کیا جائے تو ابدی زندگی تو ملتی ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مادی فوائد بھی میسر آجاتے ہیں۔
آج جہاں ہر چیز کے تقاضے بدل گئے، ہمیں بھی اپنے انداز بدلنے ہوں گے اور اپنے اعمال، افعال اور اقوال کا بغور جائزہ لینا ہوگا کہ آیا ہم عزاداری سید الشہداء کا حق ادا کر رہے ہیں یا اس کا حق پامال کر رہے ہیں۔ مجلس سے کیا ہم محض ثواب حاصل کر رہے ہیں یا اپنی روحانی بالیدگی کا سامان اکٹھا کر رہے ہیں۔ ان نکات پر ہر عزادار کو ذاتی اور اجتماعی طور پر غور کرنا ہوگا تاکہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کا بھی سامان پیدا ہو اور ہم وہ حقیقی عزاداری بجا لائیں، جس کی بنیاد سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور سیدِ سجاد علیہ السلام نے اپنی کل کائنات خدا کے حضور پیش کرکے کربلا کی ریت پر ڈالی تھی۔ خدا ہمیں وہ توفیق بخشے کہ ہم ایسا فرش عزا بچھائیں کہ بی بی سیدہ دیگر ساکنان کساء اور حاملان عرش کے ہمراہ اس کو رونق بخشیں اور اس مجلس سے ہمیں روحانیت و عرفان کے وہ پر نصیب ہوں جن کے بل پر پرواز کرتے ہوئے ہم سید الشہداءعلیہ السلام کے حضور پیش ہو جائیں اور ہمارا وجود اس بارگاہ ِ اقدس میں شرف قبولیت پا جائے۔