مانچسٹر میں دہشت گرد حملہ کے بعد مسلمانوں کی طرف سے اس بے چینی کا اظہار سامنے آیا ہے کہ ایک مغربی ملک میں ہونے والے حملہ پر رنج و غصہ اور افسوس کا جس طرح اظہار کیا جاتا ہے، وہ مسلمان ملکوں میں دہشت گردی یا دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ہونے والی غارت گری پر دیکھنے میں کیوں نہیں آتا۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران ایک امریکی گلوکارہ کا کنسرٹ ختم ہونے کے بعد ایک 23 سالہ لیبی نوجوان سلمان عبیدی نے خودکش حملہ میں 22 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ سو سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد بچوں یا نوجوانوں کی تھی جو کنسرٹ دیکھنے کےلئے مانچسٹر ارینا میں جمع ہوئے تھے۔ یہ حملہ 2006 کے برطانیہ میں ہونے والے حملوں کے بعد شدید ترین تھا اور اس اچانک دہشت گردی کے واقعہ پر یورپ کے علاوہ امریکہ نے بھی شدید افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اب برطانوی ایجنسیاں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ اس حملہ کو روکنے اور حملہ آور کو مہلک دھماکہ کرنے سے پہلے گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یوں تو کسی ایک انسان کی جان کے ضیاع پر بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس پر رنگ و نسل یا عقیدہ و ملک کی تخصیص نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے یہ اعتراض بجائے خود بے بنیاد ، افسوسناک اور مسترد کرنے کے لائق ہے کہ ایک غیر اسلامی ملک میں دھماکہ اور ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیوں کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی درست ہے کہ متعدد مسلمان ملک اس وقت دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ جہاں گزشتہ تین برس کے دوران پاک فوج کی مسلسل کارروائی کے باوجود وقفے وقفے سے تباہ کن حملے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر شام میں بربادی اور دہشت گردی کے نتیجے میں ملک کی نصف سے زائد آبادی گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہے اور یہ ملک بلکہ پورا خطہ خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔
یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو تمام ممالک بلاتخصیص اس کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر اہم ہے کہ مسلمان ملکوں میں ہونے والے حملوں پر اس طرح کا ردعمل سامنے کیوں نہیں آتا جو برطانیہ یا یورپ کے کسی ملک یا امریکہ میں رونما ہونے والے کسی افسوسناک واقعہ کے بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ اصولی طور پر مرنے والوں پر افسوس ظاہر کرنے پر نکتہ چینی کی بجائے، یہ سوال ان مسلمان ملکوں کے قائدین اور حکومتوں سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کو دہشت گردی سے بچانے میں کیوں ناکام ہیں۔ مغربی ممالک میں دہشت گردی پر سخت ردعمل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں نے عوام کے تحفظ و سلامتی کےلئے مضبوط اور قابل اعتبار نظام استوار کیا ہے۔ جب بھی بعض عناصر اس نظام کو توڑ کر لوگوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس پر رنج و غصہ کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ حکومت پوری ذمہ داری سے اپنی کوتاہی کا جائزہ لینے کی کوشش کرتی ہے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے زیادہ موثر و فعال نظام قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ہو یا مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک ۔۔۔۔ اپنے عوام کی سلامتی کے بارے میں ایسی ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ متاثرہ ملکوں میں ہونے والی تباہی کے ساتھ بسا اوقات مقامی حکومتوں اور برسر اقتدار طبقہ کے سیاسی مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ ایک یا دوسرے گروہ کی سرپرستی کرتے ہوئے یہ خوفناک صورتحال پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان ہلاک اور ان کی زندگی غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں دہشت گردی کے واقعات بھی زیادہ تعداد میں رونما ہوتے ہیں اور ان پر حکمرانوں کی طرف سے کسی شرمندگی یا احساس ذمہ داری کے اظہار کی بجائے کوئی نہ کوئی عذر تراشنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس بنیادی فرق ہی کی وجہ سے یورپ و امریکہ اور دوسرے ذمہ دار ملکوں میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہیں۔ جب بھی انہیں خطرہ لاحق ہوتا ہے، اس پر احتجاج کا لامتناہی سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
یورپ میں ہونے والے حملوں پر کسی حد تک ’’اطمینان‘‘ کا اظہار کرنے والے عناصر یہ دلیل بھی سامنے لاتے ہیں کہ مغرب خود اپنی بیجی ہوئی فصل کاٹ رہا ہے۔ اس نے خود ہی مختلف مسلمان ملکوں میں جنگوں کا آغاز کرکے اس نفرت کو کاشت کیا تھا جو اب مغرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے اس عمل میں اپنے ملک کے حکمران ، بااثر طبقات ، اشرافیہ اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے کردار کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں نے کسی نہ کسی بہانے سے دنیا بھر میں تباہی پھیلانے اور انسانوں کو ہلاک کرنے کا آغاز کیا ہے۔ مسلمان ملکوں کے شہری اس لئے زیادہ تر ان کے نشانے پر آتے ہیں کیونکہ وہ ’’آسان شکار‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دہشت گردوں کو ان ملکوں میں آسانی سے سہولت کار اور سرپرست دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک سانحہ کے بعد کبھی اس میں ملوث نیٹ ورک کو تلاش کرنے اور تباہ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ ساری کارروائی متعلقہ ملکوں کی حکومتوں کی سیاسی ، مذہبی و سماجی ضرورتوں اور تقاضوں کی محتاج رہتی ہے۔ حیرت ہے کہ جو عناصر کثیر تعداد میں مسلمانوں کی ہلاکت اور تباہی کا سبب بن رہے ہیں، جب وہ کسی مغربی ملک میں حملہ کرکے بعض غیر مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس پر اطمینان یا کسی حد تک مسرت کا اظہار کرنے کا کیا جواز ہے۔ اصولی طور پر تو ان عناصر کے خلاف عالمگیر مذمت کا حصہ بن کر، ایسے تمام عناصر کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ ان گمراہ عناصر نے اسلام کا نام استعمال کرکے دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ان کی اس جنگ جوئی میں زیادہ تر مسلمان ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن صد افسوس مغرب کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کےلئے بہت سے لوگ اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ مغربی ممالک میں دہشت گردی میں ملوث عناصر اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کی توہین کا بدلہ لینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک سے کوئی انتہا پسند عناصر مسلمان ملکوں میں جا کر دہشت گردی کے ذریعے لوگوں کو ہلاک کرنے کے کام میں ملوث نہیں ہوتے۔ اس صورتحال میں سستی شہرت حاصل کرنے کےلئے بعض سیاستدان اسلام اور مسلمانوں کو ان حالات کا ذمہ دار ضرور قرار دیتے ہیں۔ لیکن اس موقف کو مسترد کرنے کےلئے طاقتور آوازیں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح خواہ اسے تسلیم کیا جائے یا مسترد کیا جائے لیکن حقیقت اپنی جگہ موجود رہے گی کہ مغربی ممالک میں دہشت گردی سے مقابلہ کرتے ہوئے بھی بنیادی انسانی آزادیوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ان ملکوں میں کنٹرول اور جبر کا ویسا ہی نظام استوار کر دیا جائے جو متعدد مسلمان ملکوں میں دیکھنے میں آتا ہے تو ان ملکوں میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ ہو سکتا ہے۔ مانچسٹر سانحہ کے بعد بھی حکام نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اسلامی یا ایک مسلمان کا حملہ قرار دینے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح اس شہر کی مسلمان آبادی نے بھی اس حملہ کی مذمت اور اس پر افسوس کا اظہار کرنے میں بڑھ چڑھ کر مقامی لوگوں کے ساتھ حصہ لیا۔ درحقیقت یہی بین المذہبی اور بین الثقافتی ہم آہنگی شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کر سکتی ہے۔ مسلمان دہشت گرد گروہوں کی طرح یورپ میں پروان چڑھنے والے قوم پرست نسل پرست عناصر بھی اقلیتوں اور اکثریت کے درمیان احترام و محبت کے اس رشتہ کو نشانہ بناتے ہیں۔ یورپ میں ہونے والے حملوں پر شدید ردعمل کی ایک وجہ اس براعظم میں آباد مسلمانوں کے حقوق اور خوشحالی و سلامتی سے بھی مشروط ہے۔
اس حوالے سے ایک بڑی غلط فہمی یورپ کی سیاسی و عسکری حکمت عملی اور دہشت گردی کے واقعات کو ملا کر دیکھنے سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی متعدد پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن شام ہو یا عراق ، افغانستان ہو یا پاکستان ۔۔۔ ۔ یہ ممالک ان پالیسیوں کو مقامی حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں کے تعاون سے ہی پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اس لئے 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ ہو یا شام و عراق میں پروان چڑھنے والی دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کارروائیاں ، انہیں دہشت گردوں کی تباہ کاری سے ملانا درست طریقہ نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستانی حکومتوں کی ملی بھگت سے کئے جاتے تھے یا داعش پر حملوں میں علاقے کے سارے ملک ملوث ہیں۔ ان حملوں میں اگر شہری ہلاک ہوتے ہیں تو اس پر افسوس کا اظہار بھی سامنے آتا ہے اور ان واقعات کی تحقیقات بھی کی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں دہشت گرد صرف بے گناہ ، غیر مسلح شہریوں کو ہلاک کرنے کےلئے حملے کرتے ہیں اور ایسی کسی بھی کامیابی پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں۔ یوں تو کوئی بھی جنگ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ اس میں تباہی و بربادی اور انسانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی فوج جب منظم طریقہ سے حملے کرتی ہے تو وہ کسی نہ کسی سطح پر قومی یا عالمی قوانین کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ جبکہ دہشت گرد ایسے سب قوانین کو مسترد کرتے ہوئے صرف تباہی و ہلاکت پھیلانے کےلئے حملے کرتے ہیں۔
حال ہی میں سعودی عرب میں عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف محاذ آرائی کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے عربوں کے اس جنگ جوئی کے شوق اور ایران دشمنی کے منصوبہ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ ایسے میں ٹرمپ اور امریکہ کو حرف تنقید بنانے سے پہلے سعودی حکمرانوں کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ اسی طرح اگر مشرق وسطیٰ میں اتحادی افواج اور افغانستان میں ایساف کی کارروائیوں میں ہونے والے ناجائز نقصان کا حساب کرنا ہے تو سعودی عرب نے یمن میں جو تباہی پھیلائی ہے اور بے مقصد جس طرح انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور زندگی اجیرن کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس پر بھی سوال اٹھانے پڑیں گے۔ تاریخ میں بیشتر اقوام نے ظلم کئے ہوں گے۔ اب بھی سیاسی و معاشی مفادات کےلئے متعدد ممالک ظالمانہ پالیسیاں اختیار کرتے ہیں لیکن ان کا حوالہ دے کر مانچسٹر یا کسی بھی شہر میں معصوم انسانوں کو ہلاک کرنے کے کسی واقعہ کی تائید نہیں کی جا سکتی۔
اس وقت دنیا بھر کے مسلمان اور خاص طور سے یورپی ملکوں میں آباد مسلمان نہایت مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس مشکل سے نکلنے کےلئے فکری ہم آہنگی اور ظلم کے خلاف مل کر جدوجہد کرنے کا عزم کرنا بے حد ضروری ہے۔ ایسی صورت میں کسی دہشت گرد کی سفاکانہ کارروائی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
(شیعت نیوز)