-
اسلامی انقلاب ایک نیا زاویہ
- سیاسی
- گھر
اسلامی انقلاب ایک نیا زاویہ
497
M.U.H
11/02/2022
0
0
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
رچرڈ اینڈرسن فالک 20 کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ 2008ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں 1967ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یو این او کے خصوصی رپورٹر بھی رہ چکے ہیں۔ رچرڈ فالک کے مطابق ایرانی مزاحمت نہ ہوتی تو مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے چھوٹے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ امریکی تسلط کے تحت ہوتا۔ ایران کے انقلابی اور مسلمان عوام نے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی دانشمندانہ قیادت میں پہلوی حکومت کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور امریکہ کی کھل کر مخالفت کی۔ آج 43 سال بعد، آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران، امریکہ اور صیہونی حکومت جیسی عالمی استکباری اور جابر طاقتوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہے اور اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ ایران ان تمام سالوں میں سب سے زیادہ سیاسی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے ریٹائرڈ پروفیسر اور اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار رچرڈ اینڈرسن فالک نے ایران کی فتح کے بعد سے چار دہائیوں کے دوران ایران کے خلاف بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کی وجوہات پر تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے: ایرانی انقلاب نے سرد جنگ کے خاتمے سے ایک دہائی قبل پہلوی خاندان کا تختہ الٹ دیا اور بہت سے لوگوں کے لیے، امریکہ پر اس کا فوری اثر اہم جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی منفی نتائج کے ساتھ ایک بڑی تزویراتی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اس ناکامی کی تلافی کے لیے امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اپنے "خصوصی تعلقات" کو اسٹریٹجک سطح تک بڑھا دیا۔ دوسرا نتیجہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک کی سیاسی تحریکوں کو اسلامی پاپولزم کی تاریخی صلاحیت سے روشناس کرایا گیا۔ ایرانی انقلاب کے اثرات خاص طور پر پوری عرب دنیا میں محسوس کیے گئے۔ خاص طور پر خلیج فارس اور شمالی افریقہ کے ممالک میں عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ جابرانہ سیاسی نظام کو مؤثر طریقے سے چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر 2001ء کے حملوں کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے طور پر بیان کیا ہے، جو 2003ء میں عراق پر امریکی-برطانوی حملے اور اس کے نتیجے میں عراق پر فوجی قبضے پر منتج ہوا۔ اس کارروائی کا بنیادی جواز، جو کہ بین الاقوامی قوانین کے منافی تھا، خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران اور عرب دنیا کے درمیان کشیدگی کو امریکہ نے ہوا دی اور علاقائی صف بندی تیزی سے تشکیل پائی، جسے اکثر شیعہ اثر و رسوخ کے پھیلاؤ پر سنی ردعمل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، سیکولر مغرب کے لیے، سوویت یونین کے انہدام کے بعد سیاسی اسلام کو بین الاقوامی دشمن نمبر ایک سمجھا گیا۔ 1979ء کے بعد سے، ایران، مشرق وسطیٰ کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ اپنے حق خودارادیت کے حصول کا عمل مکمل کرچکا تھا۔ ایران نے نہ صرف سیاسی آزادی حاصل کی ہے بلکہ اس نے اپنے استحکام اور قانونی حیثیت کے لیے مغرب پر معاشی، سفارتی اور نظریاتی انحصار کو ختم کر دیا ہے۔
اس لحاظ سے، ایران خطے کا واحد ملک ہے، جس نے ڈی کالونائزیشن کا عمل مکمل کیا ہے، جس میں ریاست اور معیشت کو بیرونی اثر و رسوخ اور کنٹرول سے آزاد کرنا شامل ہے۔ ایران کا اسلامی نظام، انقلاب کی 43ویں سالگرہ منا رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی مستقبل کو کنٹرول کرنے کے لیے مغرب نے جو جیو پولیٹیکل، اقتصادی اور تزویراتی منصوبہ بندی کی تھی، وہ بری طرح ناکام رہی۔ ایران کا اسلامی انقلاب خالص محمدی اسلام کے نظریات اور تعلیمات پر مبنی واحد حقیقی مذہبی انقلاب ہے، جو ایک بیداری کی تحریک ثابت ہوا، جس نے بلاشبہ حالیہ دہائیوں میں بہت سی اسلامی تحریکوں اور دینی تحریکوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے ایران کے اسلامی انقلاب کا جدید انقلابات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ نظریاتی اصولوں اور اسلامی اہداف کے ساتھ ساتھ عملی نوعیت کے اعتبار سے بھی بے مثال ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات خطے اور دنیا میں ایک اہم ترین خصوصیت ہے، جو آج زیادہ واضح اور روشن ہے اور جدیدیت کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے یہ ایک بامعنی اور متحرک نمونہ بن گیا ہے۔
اگر لاطینی امریکہ میں برسوں تک مارکسی نظریات کی بنیاد پر امریکہ کے خلاف تحریک چلتی یا مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی جاتی تو ہرگز کامیابی نصیب نہ ہوتی، لیکن اسلامی انقلاب کی فتح نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایران میں انقلابی تحریک نے اسلامی عقائد اور اصولوں پر مبنی نظریات سے تحریک کو شروع کیا اور خطے میں سب سے مضبوط امریکی اڈہ امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا، پس ایران کا اسلامی انقلاب ایک کامیاب انقلابی تحریک کی بہترین مثال ہے۔ کسی بھی میدان میں جہاں بھی کوئی کامیاب واقعہ ہوتا ہے، دوسری قوموں کی نظریں اس کی طرف مبذول ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک نے ایک دہائی میں نمایاں معاشی ترقی کی ہے تو دوسری قومیں اسے محسوس کریں گی اور اس کامیابی کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیں گی، تاکہ کامیابی کی وجہ دریافت کی جا سکے، اس پر تحقیق کی جا سکے اور ایک کتاب لکھی جا سکے۔
اس طرح بڑی کامیابیاں اشرافیہ اور قوموں کی توجہ مبذول کراتی ہیں اور ان کے لیے نمونہ بن جاتی ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب بھی خطہ کا ایک اہم واقعہ تھا اور اس پر بہت کچھ لکھا اور بولا گیا۔ سیاسیات کے ماہرین کی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ رائے سامنے آئی کہ اسلام کا حقیقی چہرہ کچھ اور ہے۔ امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی فتح نے ظاہر کیا کہ اسلام میں سامراج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسلامی انقلاب خطے میں سب سے بڑے، مضبوط اور اہم ترین امریکی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔ انقلاب کی فتح نے ظاہر کیا کہ اسلام میں جدوجہد کی تڑپ، عزم، تحریک اور جدوجہد کو آگئے بڑھانے کے طریقے موجود ہیں اور اسلامی قیادت عالمی تسلط کے نظام سے نمٹنے کے لیے ایک قابل قیادت رکھتی ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے دنیا میں اسلام کے بارے میں نظریہ بدل دیا اور ایک نیا نظریہ تشکیل دیا۔ انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے شدید دباؤ میں آگیا۔ 1979ء سے 1989ء تک کے پہلے دس سالوں کے دوران، امریکہ اور کمیونسٹ سوویت یونین، اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ بہت سے شدید اختلافات رکھتے تھے، لیکن ایک معاملے میں مکمل اتحاد کے ساتھ آگئے بڑھے اور وہ تھا، ایران پر مختلف طریقوں سے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا۔ بہرحال انقلاب کی فتح کے بعد کے واقعات میں اسلامی نظام کی مزاحمت کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی افکار و مقاصد نہ صرف جدوجہد اور فتح کی راہ میں استعمال ہوتے ہیں بلکہ سامراجیوں کا زبردست دباؤ برداشت کرنے اور انقلاب اور مزاحمت کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)