وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کےدو روزہ دورے پر ہیں۔میڈیا اس دورہ کو تاریخ بتارہاہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔کیو نکہ کسی ہندوستانی وزیراعظم کا یہ پہلا اسرائیلی دورہ ہے اس لئے اس دورہ کی حیثیت تاریخی ہے ۔اسرائیل میں جس طرح نریندر مودی کا استقبال کیا گیا اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اسرائیل کس قدر ہندوستان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے ۔تعلقات کی یہ بہتری اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت کی بقا میں بھی کام آئے گی اور خطہ میں ایران کی زبردست موجودگی کو کم کرنے کے لئے بھی ہندوستان کا سہا را لیا جائے گا۔اس دورہ میں ہند و اسرائیل کے درمیان کئ اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں ۔ دفاعی ماہرین اس دورہ کو ہندوستان کے لئے اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ ہندوستان کو چین اور پاکستان سے مقابلہ کے لئے ہتھیاروں کی سخت ضرورت ہے ۔اسرائیل اس ضرورت کی اہمیت کو سمجھتاہے ۔وہیں ہندوستان اسرائیل کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے کیونکہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ پر تسلط کے لئے ہندوستان کے ساتھ کی ضرورت ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ بی جےپی کو اقتدار کی کرسی تک پہونچانے میں آرایس ایس اور اسکی ذیلی شاخوں کا اکتنا اہم کردار رہاہے۔یہ حقیقت بھی جگ ظاہر ہے کہ آرایس ایس اور دیگر یرقانی تنظیموں کو سامراجی طاقتیں فروغ دے رہی ہیں۔لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نریندر مودی کو اقتدار کی کرسی تک پہونچانے میںاسرائیلی پروپیگنڈہ اور طاقت کا بڑا ہاتھ رہاہے۔آج بھی اسرائیلی طاقت ہی آرایس ایس کے ذریعہ بی جے پی کو تقویت پہونچانے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے مگر مسلمان اور سیکولر جماعتیں اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی لا علمی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔بی جے پی نے پارلیمانی انتخاب میں نمایاں کامیابی کے بعد ہی اسرائیل کا شکریہ ادا کردیا تھا۔کامیابی کے بعدوزیر اعظم نریندر مودی نے کہاتھا کہ اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات کو سنہری حرفوں میں لکھا جائے گا ۔اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بہتری اور فلسطین کے مقابلے میں اسرائیل کی حمایت کبھی ہندوستانی خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں رہی مگر آج چونکہ ملک پر آرایس ایس کی شکل میں اسرائیلی ایجنسیاں مسلط ہین اس لئے اب ملک کی خارجہ پالیسی بھی اسرائیل مخالف نہیں ہوگی۔ ہندوستان کی یرقانی تنظیمیں بخوبی جانتی ہیں کہ مسلمان اسرائیل کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں۔خاص کر وہ لوگ جو فسلطین کی حمایت میں ہمیشہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں یا ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’یوم القدس‘‘ کے طور پر مناتے ہیں۔اسرائیل کی مجبوری یہ ہے کہ وہ عالم اسلام پر مسلط ہونے کے بعد بھی آج تک ایران کو جھکانے میں ناکام رہاہے لہذا خطہ میں اپنے اثرات کو مزید تقویت دینے کے لئے ہندوستان کے ساتھ دوستی کو بڑھاواد ینا ضروری ہے ۔مگر اسرائیل یہ بھول رہاہے کہ ایران و ہندوستان کے تعلقات رسمی نہیں ہیں بلکہ علاقائ ضرورت کے ساتھ دونوں ملکوں کی ترقی بھی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔
نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعدپہلی بار ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہندوستانی میڈیا کو اسرائیل کی مظلومی اور فلسطین کے ظلم و تشدد کا واقعی علم ہوا ہو ۔کیونکہ مسلسل دو دنوں سے ہمارا میڈیا اسرائیل کا رٹوایا ہوا سبق طوطے کی طرح دہرا رہاہے ۔اسرائیل کی مظلومیت پر رپورٹیں پیش کی جارہی ہیں جن میں فلسطین کو دنیا کا بڑا دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ظاہر ہے ہمارا زر خرید میڈیا وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ اسرائیل کے خلاف تو کچھ بھی لکھنے سے معذور ہے کیونکہ آج اسرائیل کے خلاف لکھنا اور بولنا ہندوستانی پالیسی کے خلاف سمجھا جا رہاہے ۔اسی طرح ہماری سیاسی جماعتیں، مسلم تنظیمیں اور سیکولرطبقہ بھی اس دورہ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔کیونکہ اگر وہ نریندرر مودی کے دورہ کے خلاف اپنی زبان کھولنے کی جرآت کرتے ہیں تو ان پر دیش دروہ کا مقدمہ لگاکر جیلوں میں ٹھونس دیا جائے گا،حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی یہی خوف ان اداروں اور انکے ذمہ داروں کو خاموش رکھے ہوئے ہے ۔ اسرائیل نوازی میں میڈیا یہ بارآور کرانےپر تلا ہوا ہے کہ موساد دنیا کی طاقت ور خفیہ ایجنسی ہے جس نے اپنے ملک اور قوم کے تحفظ کے لئے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔خاص کر فلسطین کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے موساد نے اہم کردار ادا کیاہے ۔کیا ہمارے جمہوری ملک میں کوئی میڈیا سے سوال کرنے کی جرآت کرسکتاہے کہ اگر فلسطین دہشت گردی کو فروغ دےرہاہے تو وہ کونسے مہلک ہتھیار ہیں جنکا استعمال فسلطین نے اسرائیل کے خلاف کیاہے ؟کیا فلسطینی اپنی زمین پر بھی سکون سے جینے کا حق نہیں رکھتے ؟کیا اسرائیل کا غاصب ہونا ہی اسکی مظلومیت کی دلیل ہے ؟اسرائیل جو پوری دنیا کو ہتھیار سپلائی کررہاہے وہ نہتے فلسطینیوں کے مقابلے میں کس طرح اور کیسے کمزور ہے؟آج تک کسی اسرائیلی فوجی یا شہری کی کوئی تصویر یا ویڈیو فلسطینی مسلح فوجیوں پر پتھر بازی کرتے ہوئے سامنے نہیں آیا ؟کیوں ہر وقت میڈیا میں نہتے فلسطینی ہی ہاتھوں میں اینٹیں اور پتھر لئے اسرائیل کے مسلح فوجیوں کے خلاف مزاحمت کرتے دکھائ دیتےہیں۔کیا دہشت گردی کا پیمانہ اور اسکے معیارات اب اسرائیل طے کرے گا ؟۔اگر ہمارے قومی میڈیا کے نزدیک اسرائیل امن پسند اور دہشت گردی کا شکار ملک ہے اور فلسطین دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے تو پھر ہم کس بنیاد پر کشمیر میں فوج کی موجودگی اور کشمیریوںپر جاری تشدد کو صحیح ثابت کریں گے ۔کیونکہ کشمیر ی بھی اپنی زمین پر امن ،سکون اور ترقی کے خواہاں ہیں اور فلسطینی بھی ۔جس طرح پاکستان اور دیگر طاقتیں کشمیر میں تشدد کو فروغ دے رہی ہیں اور نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہاہے اسی طرح اسرائیل فلسطینیوںپر تشدد کرتا آرہاہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر مہاجروں اور بنجاروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ ٔاسرائیل کو تاریخی ثابت کرنے کے لئے اسرائیل کی مظلومیت کا راگ الاپنے والا میڈیا اگر ذرا بھی حق پسند اور حق گو ہوتا تو کم از کم فلسطین کی مزاحمت کی تاریخ کا سرسری مطالعہ ہی کرلیا جاتا ۔فلسطین کو دہشت گرد ملک کا تمغہ دینے سے قبل اسرائیل کی بربریت اور دہشت گردی کی تاریخ پر غائرانہ نظر ڈالنے کی زحمت کرلی جاتی۔ناممکن ہے کہ میڈیا کے ذمہ دار افراد فلسطینیوں کی مزاحمت اور اسرائیلی جارحیت کی تاریخ کا علم نہ رکھتے ہوں مگر پھر بھی ہمیں ان سے حسن ظن ہے ۔اگر اپنی زمین پر دشمنوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا دہشت گردی ہے تو پھر ہم نے انگریزوں کی ناجائز حکومت کے خاتمہ کے لئے اور اپنے وطن عزیز کی آزادی کے لئے جو تحریکیں چلائی ہیں اور قربانیاں دی ہیں انکی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے ؟حقیقت حال یہ ہے کہ ملک میں موجود زعفرانی دہشت گرد تنظیمیں نہ کل انگریزی حکومت کے خلاف تھیں اور نہ انہوں نے کبھی انگریزوں کے خلاف جدو جہد آزادی میں حصہ لیا تھا اس لئے وہ آزادی کے لئے دی گئ قربانیوں کی کبھی قدر نہیں کرسکتے اور نہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارا قومی میڈیا تو ایسے لوگوںکے بہکاوے میں نہ آئے جنکی نگاہ میں ہمارے ملک کی جمہوریت اور آزادی کی کوئ قیمت نہیں ہے ۔
اگر اسرائیلی دورہ کانگریس کے دور اقتدار میں ہوتا تو اب تک ہر جگہ مخالفت کا بازار گرم ہوتا ۔ہر طرف کانگریس کے خلاف لوگ سڑکوں احتجاج کررہے ہوتے ۔مسلم تنظیمیں کانگریس کے وزیر اعظم کا پتلا پھونک رہی ہوتیں۔اور حزب مخالف کانگریس کو دیش دروہی ثابت کرنے پر تلا ہوتا مگر اس وقت باالکل برعکس ہورہاہے ۔ہر طرف مرگ آسا خاموشی چھائ ہوئی ہے جیسے اس ملک میں اندھے بہرے اور گونگے بستے ہوں۔ایسی خاموشی سے تو موت بہتر ہے ۔ وہ مسلم تنظیمیں جو ’’یوم القدس‘‘ کی اہمیت نہیں سمجھتی تھیں یا جان بوجھ کر ’’یوم القدس‘‘ کے موقع پر احتجاج کرنے سے گریز کرتی تھیں آج انکی خاموشی قابل افسوس بھی ہے اور لائق مذمت بھی ۔سامراج نے مسلمانوں کو یہ یقین دہانی کرائ تھی کہ ’’یوم القدس‘‘ کی تحریک ایران کی تحریک ہے جسکا تعلق خالص شیعہ فرقہ سے ہے اس لئے اس تحریک کو مضبوط کرنا گویا خطہ میں سعودی حکومت کےخلاف ایران کو مضبوط کرنا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’یوم القدس‘‘ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت میں اور قبلۂ اول کی بازیابی کےلئے کی شروع کی گئی تحریک کے بعد وجود میں آیا ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ’’عالمی یوم القدس‘‘آیت اللہ خمینی طاب ثراہ کی کوششوں کے نتیجہ میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرسکاہے مگر اس تحریک کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے ۔حیرت ہوتی ہے کہ اپنی مظلومی کا مرثیہ پڑھنے والی مسلمان قوم فلسطینیوں کی مظلومیت اور قبلہ ٔ اول پر صہیونیت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف آج بھی متحد نہیں ہے ۔ایسے میں ہمیں کوئ حق نہیں ہے کہ اسرائیلی جارحیت اور وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے خلاف دکھاوٹی احتجاج کریں۔