-
ہندوستان میں بڑھتی عدم برداشت کا طوفان، اور ہجومی تشددکی وارداتیں
- سیاسی
- گھر
ہندوستان میں بڑھتی عدم برداشت کا طوفان، اور ہجومی تشددکی وارداتیں
1404
M.U.H
20/07/2018
1
0
سید نجیب الحسن زیدی
"جب پانی کی سطح بڑھتی ہے تو شرو ع میں لوگ اس پر غور نہیں کرتے اور یہبڑھتا چلا جاتا ہے۔ سطح بہت بڑھنے کے بعد آپ کی نظر اس پر پڑتی ہے اور آج یہی ہورہا ہے" یہ الفاظ ہندوستان کے سابق نائب صدر جمہوریہ جناب حامدانصاری کی جانب سے کئے گئے اس اظہار خیال سے متعلق ہیں جو انہوں نے نئیکتاب’’ڈیر آئی کوسچن‘‘کی رسم اجرا سے پہلے ہندوستان میں بڑھتی مذہبیمنافرت کے سلسلہ سے بیان کئے تھے ، آج اگر دیکھا جائے تو پانی کی سطحاوپر ہی نہیں ہو اٹھی ہے بلکہ ہر با ضمیر و آزاد اندیش انسان ایک بھیانکطوفان کو اپنے سامنے تیزی کے ساتھ بڑھتا دیکھ رہا ہے ، بہیمیت کا طوفان ،درندگی کا طوفان ، حیوانیت کا طوفان ،انتہا پسندی کا طوفان ، تشددکاطوفان ،قتل و غارت گری کا طوفان ، مذہبی جنون کا طوفان ،جہالت کا طوفان ،بربریت کا طوفان ،ہندوستان میں روز بروز بڑھتی عدم روادادی ،اور ہجومیتشدد کے بڑھتے واقعات اپنے آپ میں ایک ایسے بڑھتے طوفان کی نشاندہی کررہے ہیں جسکی جلد ہی روک تھام نہ کی گئی تو ہزاروں سالہ عظیم تمدن اس طوفان کی نذر ہو جائے گا ۔
ہندوستان میں جس طرح کہیں گائے کے گوشت کو بہانا بنا کر بے گناہوں کا قتلہو رہا ہے تو کہیں بچہ چوری کا الزام لگا کر بھیڑ کے ذریعہ لوگوں کی جانجا رہی ہے اسکے پیچھے صاف طور پر کچھ بھگوا عناصر کا رنگ نظر آتا ہے جوکبھی ان تشدد آمیز کاروائیوں کی نہ صرف یہ کہ مذمت نہیں کرتے بلکہ کہیںہجومی وارداتوں میں ملوث ملزمین کے گلوں میں مالائیں ڈالتے نظر آتے ہیںتو کہیں ان کی حمایت میں بولتے نظر آتے ہیں جسکی وجہ سے یہ شدت پسندافراد دندناتے گھوم رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جبکہ حکومت میںبیٹھے بعض نابکاروں کی شہہ پر ہی انکا جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ جہاں دلچاہتا ہے وہاں گھس کر مار پیٹ کرتے ہیں جسکو چاہتے ہیں قتل کر دیتے ہیںاور کہہ دیتے ہیں کہ" بھیڑ بے قابو ہو گئی تھی ہم کیا کر سکتے ہیں"؟جبکہ بالکل واضح ہے لاٹھی اور ڈنڈوں سے لیس کوئی بھیڑ پل بھر میں جمعنہیں ہو جاتی اس کے لئے پہلے سے تمہیدات فراہم کرنا ہوتے ہیں ، اشتعالانگیز تقریریں ہوتی ہیں ، نفرت کے بیچ بوئے جاتے ہیں لوگوں کو اکسایاجاتا ہے اپنے کام کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے اسے تقدس کی رنگ میں رنگاجاتا ہے تب جا کر یہ مذہبی دیوانے قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور کسی کاقتل ہوتا ہےجہاں ہجومی تشدد اور قتل غارت گری پر اتاولی بھیڑ کی ایک چین نظر آتی ہے، ایک تسلسل دکھتا ہے اس طرح کے واقعات کا وہیں اگر عدالت عظمی کے فیصلے
کو دیکھا جائے تو واضح طور پر اس کا فیصلہ ہے کہ " کسی بھی بھیڑ کو منمانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی " چنانچہ عدالت نے اس سلسلہ سے قانونبنانے تک کی بات کہی ہے ۔ عدالت کا موقف واضح ہے کہ شہری امن و امانبرقرار رکھنے کی ذمہ داری ریاستی انتظامیہ پر ہے ۔اور کسی بھی شخص کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ خوف و ہراس، پھیلانے لاقانونیت اورتشدد کا ماحول برپا کرنے والوں کیخلاف ریاستی حکومتوں کو ایکشن لیناچاہیے ۔اس عدالتی حکم کے باجود صورت حال اتنی خطرناک ہے کہ ذرایع کےمطابق گزشتہ برسوں گئو رکشااور بچہ چورکے الزام میں بھیڑنے کئی افرادکو زدوکوب کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق۲۰۱۲سے۲۰۱۸کے دوران صرف گئو رکشا کے نام پر ۸۵واقعات ہوئے جن میں۳۳افراد کوبھیڑنے حملہ کرکے قتل کردیا یہ اعداد و شمار کیا ایک بڑے طوفان کا پیشخیمہ نہیں ہیں جو مسلسل ہماری سماجی یگانگت کی تاراجی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اور عجیب بات تو یہ ہے کہ اب گائے کے ساتھ ساتھ بچہ چوری کا معاملہ بھیاسی نہج پر ہے ، کہ بچہ چوری کے بہانے بے قابو بھیڑ جسے چاہتی ہے موت کےگھاٹ اتار دیتی ہے ، کتنا دردناک واقعہ اسی ہفتہ پیش آیا جب کرناٹک کےبیدر میں بچہ چوری کا الزام لگا کر ایک سافٹ ویئر انجینئر کا پیٹ پیٹ کرقتل کر دیا گیا ۔کیا یہ قابل غور نہیں کہ پہلے تو گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنایا گیا اور اب بچہ چوری کی افواہ پھیلاکر پیٹ پیٹ کر قتل کرنے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہےمحض ریاست مہاراشٹرا میں گزشتہ دو مہینوں میں افواہ کی وجہ سے بھیڑ کےذریعہ پیٹ پیٹ کر مار دینے کے ۱۴معاملوں میں ۱۰ لوگوں کی جان جا چکی ہےاور تو اور اب تو مرغی کے چوری کے الزام میں بھی قتل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے چنانچہ کسی جگہ جب یہ خبر پڑھی تو دم بخود رہ گیا کہ ریاست کیرالا میں ایک مزدور کو مرغی چوری کرنے کے پاداش میں مشتعل بھیڑ نے اتنا پیٹاکہ وہ اسپتال پہنچ کر بھی زخموں کی تاب نہ لا سکا اور چل بسا یہ سارےواقعات مسلسل ہو رہے ہیں اور مسلسل ان سے نپٹنے میں حکومت ناکام ہے ،ہندوں کے مذہبی رہما و سماجی کارکن سوامی اگنیویش پر بھی ذرائع کے مطابقکچھ شدت پسندوں نے حملہ کیا ہے اور انہیں بری طرح زود کوب کیا گیا ہےایک ۸۰ سالہ بوڑھے انسان کو جسے دنیا میں امن و خیر سگالی کے قیام کی سلسلہ سے کوشش کرنے والے فعال و متحرک فرد کے طور پر پہچانا جاتا ہے،جوخود ہندووں کے ممتاز مذہبی رہنما ہونے کے ساتھ ایک سماجی کارکن بھیہیں ، کتنا افسوسناک ہے کہ ایک ایسے ضعیف العمر شخص کو بھی محض اس لئےنشانہ بنایا جاتا ہے کہ نظریاتی طور پر یہ فرد ہندو فرقہ پرست عناصر پرمسلسل تنقید کرتا رہا ہے ،اور انکے نظریات و افکار کو ہندو دھرم کے خلافسمجھتا ہے ، جبکہ اس حملے کا شکار ہونے کے بعد خود ان کے اپنے الفاط یہتھے : "میں امن پرست انسان ہوں اور امن ہی کے سلسلہ سے کوششوں کے طور پرپہچانا جاتا ہوں مجھے نہیں معلوم ہے کہ ان لوگوں نے مجھے نشانہ کیوںبنایا ہے "؟
اس واقعہ کو ہوئے ابھی دو ہی دن ہوئے ہیں اورعین ممکن ہے یہ تحریر لکھے جانے تک اس قسم کے اور بھی واقعات رونما ہو چکے ہوں ، ایسےمیں ہم سب کہ ذمہ داری ہے کہ سوچیں کہ اس قتل و غارت گری کے طوفان کو کسطرح روکا جائے اس کے لئے جسکا بھی دروازہ کھٹکھٹانا پڑے کھٹکھٹایا جائےلوگوں کے اندر بیداری لائی جائے اس لئے کہ اگر عدالت کی جگہ کسی بھی جرمکا فیصلہ بھیڑ کرنے لگے تو ملک کے نظم و نسق کا کیا ہوگا اسکا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، تعجب کی بات ہےان حساس مسائل میں جنکا تعلق عمومینظم و انصرام سے ہے حکومت خاموش تماشائی بنی نظر پڑتی ہے اور جس سختی کےساتھ اسے نبٹنا چاہیے ان عناصر سے نہیں نبٹ رہی ہے جو ملک کی سالمیت کےلئے ایک ایسا خطرہ بن رہے ہیں جسکو ہم جدید مذہبی سفاکیت کا نام دے سکتےہیں کیا مقام فکر نہیں کہ حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاجا رہا ہے اور جیسے جیسے الیکشن نزدیک آ رہے ہیں ویسے ویسے اور بھیمذہبی منافرت کا زہر گھولا جا رہا ہے ایک طرف حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرےبیٹھی محض کاغذی کاروائیوں میں لگی ہے جبکہ طوفان خوف و دہشت مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ، وہ دن دور نہیں جب یگانگت و باہمی رواداری وبقاء بقاہمی کی مثال دئے جانے والے ملک کا تعارف ہجومی تشدد کے طوفانوںسے کیا جائےگا ۔