-
سرکار پر حملہ ملک پر حملہ نہیں ہے
- سیاسی
- گھر
سرکار پر حملہ ملک پر حملہ نہیں ہے
413
m.u.h
21/03/2023
0
0
تحریر: سراج نقوی
کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے لندن میں دیئے گئے ایک بیان پر بی جے پی، مودی حکومت اور سنگھ پریوار بری طرح چراغ پا ہیں۔ لندن میں راہل نے جو کچھ کہا ہے اس سے ناراض بی جے پی اور مودی حکومت نے کانگریس لیڈر کو گھیرنے کے لیے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ راہل اس بیان کے لیے معافی مانگیں۔ الزام ہے کہ راہل نے دوسرے ملک میں جاکر ہندوستان کی توہین کی جو ناقابل برداشت ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ ملک کی توہین تو ملک کے اندر بھی قابل برداشت نہیں اور یہ توہین راہل کریں یا حکومت کا کوئی فرد اس معاملے میں بلا تفریق کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ راہل گاندھی نے لندن میں جو کچھ کہا کیا وہ واقعی ہندوستان کی توہین ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے اپنے اوپر، سنگھ پریوار کے اوپر، ہندوتوا کے بہانے سخت گیر نظریات کو فروغ دینے والوں پر تنقید کو ملک کی مخالفت مان لیا ہے۔ یہ طریقہ کار درحقیقت حکومت کے ناقدوں کی زبانیں بند کرنے اور ان کی حوصلہ شکنی کرنے اور جمہوریت کے پردے میں آمریت کو جاری رکھنے کی کوششوں کے سوا کچھ نہیں۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ جان لیں کہ راہل گاندھی نے لندن میں آخر ایسی کیا بات کہہ دی کہ حکمرانوں اور اس کے حواریوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
دراصل لندن کے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کانگریس رہنما نے آر ایس ایس پر یہ الزام لگایا کہ اس نے ہندوستان کے تقریباً تمام جمہوری اداروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ راہل نے کہا کہ ”ہندوستان میں جمہوری مسابقت کا مزاج پوری طرح بدل چکا ہے اور اس کی وجہ ایک تنظیم آر ایس ایس ہے۔ اس انتہا پسند اور فسطائی تنظیم نے بنیادی طور پر ہندوستان کے تقریباً تمام اداروں پر قبضہ کر رکھا ہے۔“ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ”پریس، عدلیہ، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سب خطرے میں ہیں اور کسی نہ کسی طرح کنٹرول میں ہیں۔“
اب کانگریس لیڈر کے اس بیان پر بی جے پی لیڈروں کے خرافاتی رد عمل ملاحظہ فرمائیں۔ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر فرماتے ہیں کہ ”وہ (راہل گاندھی) ملک کے ساتھ غدّاری نہ کریں۔“ بی جے پی صدر جے پی نڈّا تو طاقت کے زعم میں یہ تک کہہ رہے ہیں کہ راہل گاندھی کو معافی مانگنی پڑے گی۔ اب نڈّا کو یہ کون سمجھائے کہ ہر لیڈر سنگھ کے رول ماڈل جیسا ”ویر“ نہیں ہوتا کہ اقتدار کے سامنے چند مراعات حاصل کرنے کے لیے گھٹنے ٹیک دے۔ مرکزی وزیر قانون رجیجو جنھیں سپریم کورٹ کے خلاف آئینی تاریخ کے سب سے زیادہ قابل اعتراض تبصروں کے لیے طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا، وہ فرماتے ہیں کہ ”اگر راہل ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوش کرتے ہیں تو وہ (کرن رجیجو) خاموش نہیں رہیں گے۔“ خیر رجیجو جیسے بڑبولے لیڈر سے خاموش رہنے کی توقع تو شائد کوئی نہیں کرتا، لیکن جہاں تک رجیجو یا بی جے کے مذکورہ بالا لیڈروں یا بھگوا خیمے کے دیگر لیڈروں کے راہل کے تعلق سے ظاہر کیے گئے رد عمل کا تعلق ہے تو یہ صرف کم فہمی اور حکومت، تنظیم اور ملک کو گڈ مڈ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ راہل گاندھی نے لندن میں آخر ایسی کیا بات کہی کہ جسے ملک سے غدّاری مانا جائے؟ آر ایس ایس، بی جے پی یا بھگوا ٹولے کے مفادات کو ملکی یا قومی مفادات کے ساتھ کس طرح خلط ملط کیا جا سکتا ہے؟ راہل نے لندن میں ایسی کوئی بات نہیں کہی کہ دنیا جس سے لا علم یا بے خبر ہو۔ راہل کو پانی پی پی کر کوسنے والوں کو اگر راہل کے بیانات پر اعتراض ہے تو راہل سے معافی منگوانے سے پہلے اپنے سفارتی چینلوں سے ان تمام بین الاقوامی ادروں یا غیر ملکی حکومتوں کے کچھ اداروں سے بھی معافی منگوانی چاہیے کہ جو مودی حکومت کو اور سنگھ کی سرگرمیوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
دراصل تنقید و تبصرے سے خوفزدہ رہنا اور اپنے مخالفین کو مدلل جواب نہ دینا ہر اس حکومت، تنظیم یا آمر کا شیوہ ہوتا ہے کہ جسے ایسے تبصرے اپنے خلاف سازش نظر آتے ہیں۔ جو حکمراں میڈیا کا سامنا کرنے سے خوزدہ رہتے ہوں، جو حزب مخالف کی زبانیں بند کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے بے دریغ استعمال کو اپنا حق مانتے ہوں، جو اپنے فیصلوں کو جمہوریت کی کسوٹی پر تولنے کی بجائے سنگھ کے ایجنڈے پر تولنے کے پابند بنا دیئے گئے ہوں ان سے آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں۔ راہل گاندگی کے بیان پر ہنگامہ دراصل بی جے پی قیادت یا حکومت کی اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ دوسروں کو ”ٹکڑے ٹکڑے گینگ“ بتا کر ان کا مذاق بنانے والے اقتدارمیں آنے کے سبب خود کو ہی ہندوستان مان بیٹھے ہیں۔اسی لیے جب ان پر جمہوری طریقے سے حملہ ہوتا ہے تو وہ اسے ملک پر حملہ بتا کر حقائق کو الگ موڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں راہل لندن جاکر اپنے لبوں پر مہر سکوت لگا بھی لیں تب بھی دنیا حقیقت سے واقف ہو ہی جائے گی، بلکہ واقف ہے، اور اسے روکنے کے لیے صاحبان اقتدار کے پاس کوئی چارہ نہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب حکمرانوں نے یا حکومت کے پیچھے سے اس کی ڈور ہلانے والوں نے کسی پر ہندوستان کی مخالفت اور غداری کا الزام لگایا ہو۔ بہت پرانی بات نہیں کہ جب ہنڈن برگ نے مودی کے ’رفیق قلبی‘ اور مشہور صنعتکار اڈانی کے خلاف ایک رپورٹ جاری کرکے ان پر مالی بد عنوانیوں کا الزام عائد کیا تھا تو اڈانی نے بھی اسی طرح ہنڈن برگ کی رپورٹ کو ملک پر حملہ قرار دیا تھا۔ یعنی معاملہ صرف حکمراں جمات یا سنگھ کی اس غلط فہمی بلکہ خوش فہمی کا نہیں ہے کہ اس نے خود کو ملک مان لیا ہے بلکہ حکومت کے مقربین اور وفادار صنعتکار بھی اپنے کاروباری مخاصمت پر کسی حملے کو ملک اور اس کی ترقی سے جوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
بی جے پی قیادت کہتی ہے کہ راہل کو اپنے بیان کے لیے معافی مانگنی ہوگی۔ راہل نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اگر انھیں پارلیمنٹ میں بولنے کی آزادی دی گئی تو وہ اس موضوع پر اپنا جواب دیں گے۔ راہل اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کا کیا جواب دیتے ہیں، یہ وہ جانیں، لیکن کیا حکمراں ٹولہ اپنے ان بے شمار اقدامات کے لیے ملک سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہے کہ جن کے سبب ہماری جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور اب تک پہنچ رہا ہے۔ جن اقدامات کے سبب اس عظیم ملک کی عظیم جمہوریت، یہاں کی مذہبی اقدار، روائتی بھائی چارہ اور ہم آہنگی مجروح ہوئی اور ہو رہی ہے؟ سیکولرزم کو بھگوا کوڑے دان میں پھینک دینے والے اگر کسی خاص مذہب کے تہواروں کو منانے کے لیے اپنے افسران کو ہدایات دیتے ہیں، کسی خاص عقیدے کی پیروی کے لیے سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے تو یہ بھی اس ملک اور اس کی جمہوریت سے کھلواڑ کے مترادف ہے اور اس سے ہمارا ملک بدنام ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے راہل گاندھی کے زیر بحث بیان پر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے نزدیک یہ سب جائز ہے۔ جب کہ اگر کوئی اپوزیشن لیڈر ملک میں یا ملک سے باہر حکومت، سنگھ پریوار یا فرقہ پرست عناصر کے خلاف لب کشائی کرتا ہے تو اسے ملک سے بغاوت مان لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے بیانات صرف حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقید ہیں اور ان کا مقصد ملک کو بدنام کرنا نہیں بلکہ اس جمہوریت کی حفاظت کرنا ہے کہ جس نے دنیا بھر سے اپنی اہمیت کا اعتراف کرایا ہے۔ اسی لیے سرکار پر حملہ ملک پر حملہ قطعی نہیں ہے جیسا کہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔