-
امریکی چودھراہٹ اور ہندوستانی خود مختاری
- سیاسی
- گھر
امریکی چودھراہٹ اور ہندوستانی خود مختاری
1539
M.U.H
14/07/2018
0
0
سید نجیب الحسن زیدی
امریکہ نے اپنی چودھراہٹ دکھاتے ہوئے بڑی ہی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ہندوستان کی جانب سے ایران کے ساتھ تعلقا ت پر نظر ثانی کرنے کو کہا ہے اور دھمکی دی ہے کہ چار نومبر تک ایران سے تیل کی درآمد کو ختم کر دے ورنہ امریکہ کی پابندیوں کو جھیلنے کے لئے تیار ہو جائے ، امریکہ نے یوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ دو ملکوں کے تاریخی دیرینہ تعلقات کو نظر انداز کرتے ہوئے انا ربکم الاعلی کے تحت اپنا حکم تھوپنے کی کوشش کی ہے ،یوں تو امریکہ نے ایک مستقل و خود مختار ملک کی خود مختاری کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ایسے ملک سے تعلق پر نظر ثانی کی بات کی جس سے تاریخی تعلقات امریکہ کے وجود میں آنے سے پہلے رہے ہیں لیکن ہندوستان میں موجود امریکہ نواز و اسرائیل نواز لابیاں یقینا اس بات کے درپہ ہوں گی کے ان دو تاریخی ورثوں کے حامل ملکوں کے تعلقات کو کسی نہ کسی طرح خراب کیا جا سکے چونکہ تاریخی ورثوں کے محافظ ممالک ویسے ہی مغربی ممالک خاص کر امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا ہیں کہ گلوبلائزیشن کی دنیا میں انکا اپنا ایک تشخص ان لوگوں کی پالیسی پر ایک ضرب ہے جو ہر قوم و ملک کو کے تشخص کو مٹا کر اپنے رنگ میں ڈھالنا چاہتے ہیں ۔
امریکہ کیوں کر دو ایسے ملکوں کے تعلقات میں مضبوطی کو برداشت کر سکتا ہے ،جنکی تہذیبیں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئی ہو جنکی سرکاری زبان مدتوں ایک رہی ہو چنانچہ ہندوستان ہو یا ایران مدتوں تک دونوں ملکوں کی سرکاری زبان فارسی رہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں فارسی زبان کے رشد و نمو میں ہندوستان کے فارسی گو شعرا کا بڑا ہاتھ رہا ہے اور ایک دور میں زبان فارسی کاایک بہت بڑا اور وسیع مرکز ہندوستان میں ہوا کرتا تھا، جسکے اثرات اب تک ہندوستان کی بعض تاریخی عمارتوں یا ہندوستان کے تاریخی و سرکاری دستاویزات میں نظر آتے ہیں ۔ہمیشہ سے ان دو ملکوں کا ہی نہیں دونوں کی قوموں کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ اٹوٹ و گہرا رشتہ رہا ہے ۔جبکہ امریکہ نے ان تمام تاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہندوستان کو ایران کے ساتھ تیل در آمد نہ کرنے کی نہ صرف تجویز دی ہے بلکہ یہ دھمکی بھی دی ہے اس کی بات نہ ماننے کی صورت میں ہندوستان کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔سرکاری سطح پر دیکھا جائے تو امریکہ کی اس تجویز سے بہت پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے اعلان کے چند ہفتوں بعد ہی گو کہ ہندوستان نے اپنے موقف کا ازقبل ہی اعلان کر دیا تھا اور ہندوستان کی وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ انڈیا کسی کی پابندی کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ صرف اقوام متحدہ کے ذریعے منظور کی گئی پابندیوں کے نفاذ کا پابند ہے۔ہندوستان کے لئے ایسا واضح اعلان اس لئے بھی ضروری تھا کہ دونوںملکوں کے آپسی تعلقات محض تیل کی درآمد و برآمد تک نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہیں چنانچہ اخباری رپورٹوں کے مطابق ہندوستان کےوزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والی ایک کابینی میٹنگ میں، ہندوستان اور ایران کے درمیان صحت اور ادویات کے شعبے میں تعاون کے بارے میں ایک مفاہمت نامے کی پچھلی تاریخوں سے منظوری دی گئی یہ وہ مفاہمت نامہ ہے جس پر ایران کے صدر کے ہندوستان کے دورے کے موقع پر ۱۷ فروری ۲۰۱۸ کو، دستخط کئے گئے تھے۔
اگر اس مفاہمت نامے کے مندرجات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں نے کن اہم میدانوں میں ایک دوسرے سے تعاون کی قرارداد کو منظور کیا ہے اس مفاہمت نامہ کے اہم مندرجات یہ ہیں :
میڈیکل ڈاکٹروں اور صحت سے متعلق دیگر پیشہ ور افرد کی تربیت کے تجربے کا تبادلہ۔
انسانی وسائل کے فروغ اور صحت کی دیکھ بھال کی صورتوں کے قیام میں امداد۔
دوا سازی، میڈیکل آلات اور کاسمیٹکس کو باضابطہ بنانا اور ان کے بارے میں تفصیل کا تبادلہ۔
میڈیکل تحقیق نئی ٹکنالوجیوں اور معلومات پر مبنی اقدامات کے شعبے میں تعاون۔
صحت عامہ، ترقی کے پائیدار مقاصد (ایس ڈی جی) اور بین الاقوامی صحت کے معاملے میں تعاون۔
تعاون کا کوئی بھی دوسرا شعبہ، جس پر باہمی طور پر اتفاق ہو۔
ایک طرف یہ وہ مفاہمت نامہ ہے جسکو کابینہ کی جانب سے منظوری حاصل ہو چکی ہے وہ بھی ایسی کابینی میٹنگ میں جسکی صدارت خود ہندوستان کے وزیر اعظم نے کی دوسری طرف ہندوستان کی خود اپنی ضرورتیں ہیں اگر تیل ہی کی درآمد کو لیا جائے تو ہندوستان چین کے بعد ایران سے خام تیل خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ایران کی تیل کی برآمدات کا دس فیصدہندوستان کو جاتا ہے۔خبروں کے مطابق سنہ ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۶ کے درمیان ایران کے خلاف امریکہ اور یورپی ممالک کی پابندیوں کے باوجود ایران ہندوستان کو خام تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا علاوہ از ایں گذشتہ فروری میں ایرانی صدر روحانی کے ہندوستان دورے کے بعد ایران میں پٹرولیم، گیس اور توانائی کے شعبے میں ہندوستان کی شراکت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ جبکہ ہندوستان نے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔
ان مختلف مذکورہ دلائل کی روشنی میں یوں تو ہندوستان پر امریکہ کی کسی دھمکی کا اثر نہیں ہوناچاہیے لیکن جیسا کہ ہم نے کہا سرکاری سطح پر اصولی موقف کے باجود چونکہ ہندوستان میں امریکہ و اسرائل نواز لابیاں مسلسل دونوں ملکوں کے تعلقات کو خراب کرنے کے درپے ہیں ممکن ہے ہندوستان کی جانب سے ایسا کچھ سرزد ہو جائے جو امریکہ و اسرائیل کو خوش کرنے کا سبب ہو جیسا کے بعض اڑتی خبروں میں یہ بات گشت کر رہی ہے کہ حکومت ہند نے تو اب تک ایران سے تیل کی در آمد کے سلسلہ سے کچھ نہیں کہا ہے لیکن ہندوستان کی تیل کمپنیوں نے اپنی ریفائنریز سے یہ ضرور کہا ہے کہ وہ نومبر سے ایران سے تیل کی سپلائی بند ہونے کے لیے خود کو تیار کر لیں ، اگر یہ سچ ہے تو بہت افسوسناک ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان جیسا بڑا و خود مختار ملک کسی بھی وجہ سے ہو امریکہ کے سامنےخم ہونے کی تیاری میں ہے جو آئندہ کے لئے اچھا اشارہ ہر گز نہیں اگر چہ یہ سب احتمالات ہیں آگے کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہندوستان امریکہ کی چودھراہٹ کے آگے تسلیم نہ ہوتے ہوئے اپنے تاریخی ورثوں کی حفاظت کرے گا اور امریکہ کو انگوٹھا دکھادےگایا پھر امریکہ و اسرائیل نواز لابیوں کا شکار ہو کر اپنے درخشان تعلقات کو داو پر لگا دیگا… ۔