-
کرناٹک کے بعد ملک میں سیاسی تبدیلی کا عندیہ
- سیاسی
- گھر
کرناٹک کے بعد ملک میں سیاسی تبدیلی کا عندیہ
498
m.u.h
22/05/2023
0
0
تحریر: عادل فراز
کرناٹک میں کانگریس کی فتح اور بی جے پی کی شکست پر ہمیںحیرت نہیں ہوئی ۔اہل نظر اور سیاسی مبصرین کو یہ معلوم تھاکہ کرناٹک میں بی جے پی کمزور ہے ۔البتہ اس نے اپنی کمزوری کو دورکرنے کی بہت کوشش کی ،لیکن آخر وقت تک یہ ممکن نہیں ہوا۔انتخابات کے آتے ہی بی جے پی کو یہ یقین ہوگیا تھاکہ کرناٹک میں اس کی شکست یقینی ہے ،اس لئے اس کے رہنمائوں نے ایک بارپھر روایتی طریق کار کو اپناتے ہوئے نفرت اور تقسیم کی سیاست پر تکیہ کیا ۔لیکن افسوس یہ فارمولہ بھی بے سود ثابت ہوا۔گویاکہ ؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوانے کام کیا
کانگریس نے اپنے انتخابی منثورمیں بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی بات کہی تو اس کو بھی بی جے پی نے مذہبی رخ دینے کی کوشش کی ۔جبکہ کانگریس کے انتخابی منثور میں بجرنگ دل کے ساتھ پی ایف آئی کو بھی شامل گیا تھا لیکن بی جےپی نے بجرنگ دل کے مسئلے کو اپناانتخابی ہتھکنڈہ بنانے کی کوشش کی۔وزیر اعظم نریندر مودی جو بات بدلنے میں خاصی مہارت رکھتے ہیں،انہوں نے انتخابی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس ’شری رام ‘ کی طرح بجرنگ بلی اور جئے بجرنگ بلی بولنے والوںکو بھی تالے میں بند کرنا چاہتی ہے،اس لئے پولنگ بوتھ میں جئے بجرنگ بلی بول کر بٹن دبانا اور کانگریس کو سزا دینا۔اس طرح وزیر اعظم یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ بجرنگ بلی سے صرف بی جے پی کو عقیدت ہے ،کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ہندوئوں کو بجرنگ بلی سے کوئی عقیدت نہیں ۔دوسری بات یہ کہ بجرنگ دل کی کھلی حمایت کرکے بی جے پی نے یہ بھی واضح کردیاکہ ملک میں بدامنی پیداکرنے والی تمام تنظیموں کو اس کی سیاسی پشت پناہی حاصل ہے ۔بجرنگ دل کے کارکنان نے بی جے پی کی حمایت اور کانگریس کی مخالفت میں ریلیاں نکالیں ،مگراس کا بھی عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔تو کیا اس سے یہ سمجھاجائے کہ عوام پر بی جے پی اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی حقیقت واشگاف ہوچکی ہے ؟میرا ماننا ہے ہر گز نہیں ! کرناٹک الیکشن کی فتح قطعاً یہ ظاہر نہیں کرتی کہ عوام نفرت کے خلاف بیدار ہوچکی ہے ۔یہ اس وقت ممکن ہوگاکہ جب سڑکوں پر نفرت کا ننگا ناچ کرنے والوں کے خلاف عوام متحرک ہو۔ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والوں کے منصوبوں کو کامیاب نہ ہونے دیاجائے ۔کیونکہ جس وقت کرناٹک میں حجاب ،حلال گوشت جیسے دیگر مسائل کو ابھارا گیا ،اس وقت کوئی عوامی ردعمل سامنےنہیں آیا تھا ۔کرناٹک الیکشن میں کانگریس کی فتح ان اصولوں پر نہیں ہوئی ہے ،جن اصولوں کی اساس پر ملک کی سیاست کا منظرنامہ بدل سکتاہے ۔کرناٹک میں بی جے پی کا مقامی کیڈر کمزور ہوچکا تھا اور کانگریس کے لوکل کیڈر نے بڑی محنت کی تھی ۔دیگر ریاستوں میں کانگریس کے پاس کرناٹک جیساکیڈر نہیں ہے جس کی بناپر وہ ان ریاستوں میں کمزور ہے ،خاص طورپر اترپردیش اور بہار میں ۔ان دونوں ریاستوں میں کانگریس نے زمینی جدوجہد سے دامن چھڑالیاہے ،اس کے باوجود اس کے رہنما یہ سوچ رہے ہیں کہ ان دونوں ریاستوں میں پارٹی کو تقویت حاصل ہوجائے ،یہ ممکن نہیں ہے ۔’بھارت جوڑو یاترا‘ کے وقت بھی کانگریس نے اترپردیش کو نظرانداز کیا تھا ،جس کا خمیازہ پارٹی نے بلدیاتی انتخاب میں بھگت لیاہے ۔یوں بھی اترپردیش میں کانگریس کا ووٹ بینک بہت پہلے منتشر ہوچکاتھا، جس کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔جن لیڈروں پر کانگریس نے یہ ذمہ داری عائد کی ہے ،وہ اس لائق نہیں ہیں کہ اترپردیش میں کانگریس کی واپسی ممکن کرواسکیں۔
کرناٹک میں گزشتہ ایک سال سے بی جے پی اوریرقانی تنظیموں نے مسلم منافرت کو بہت فروغ دیا۔خاص طورپر حجاب اور لو جہاد کے مسئلے کو بہت شدومد کے ساتھ اٹھایاگیا ۔اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی اورریاستی عدلیہ نے بھی حجاب کے خلاف فیصلہ سنایا۔حلال گوشت کی فروخت کو غیر قانونی اعلان کرنے کے لئے واویلا مچاگیا اور گوشت کی دکانوں کو بند کرنے کے لئے غنڈہ گردی کا سہارا لیا۔بجرنگ دل جیسی تنظیموں نے ’لوجہاد‘ کو موضوع بحث بنایا ہواتھا۔اس بیانیہ کو تقویت دینے کے لئے انتخابات کےدوران ’دی کیرالا اسٹوری‘ کو ریلیز کیا گیا ،لیکن یہ حربہ بھی بے اثر رہا ۔بی جے پی اور اس کے مقامی رہنمائوں نے انتخابی ریلیوں میں حجاب ،حلال گوشت اور لوجہاد کے جیسے مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کی ،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ وزیراعظم مودی کو ’بجرنگ بلی‘ کا سہارا لینا پڑا۔مگر افسوس اس بار بجرنگ بلی نے بھی ان کی نیّا پار نہیں لگائی ۔وزیر اعظم نے کرناٹک میں چالیس سے زیادہ ریلیاں اور روڈ شو کئے ،لیکن وہ اپنے منتشر ووٹ کو ایک جٹ نہیں کرسکے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب انتخابات میں مذہب کی اساس پر کم ذات پات کی بنیاد پر زیادہ ووٹ ڈالے جارہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جے۔ڈی ۔ایس نے اپنے علاقے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا،اس کےبرعکس دیگر علاقوں میں اس کی کارکردگی بہت خراب رہی ۔ذات پات کا مسئلہ بی جے پی کے لئے انتہائی پریشان کن ہے ،کیونکہ پسماندہ اور مزعومہ چھوٹی ذاتوں میں بی جے پی کا ووٹ فیصد کم ہے ۔لیکن اترپردیش اور ہندی لسانی علاقوں میں ایسا نہیں ہے ۔
مسلمان جوعام طوپر خوش فہمی کا شکار رہتاہے ،کرناٹک الیکشن میں کانگریس کی فتح کے بعد بھی یہ صورتحال کارفرما رہی ۔آخر مسلمان یہ کیوں سوچتاہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت اس کے مسائل کو حل کرواسکتی ہے ؟ آیا اسے اپنے قوت بازوپر اعتبار نہیں ہے ؟ کب تک وہ سیاسی جماعتوں کاآلۂ کاربنارہے گا ؟ یقینی طورپرپارلمانی الیکشن میں کانگریس کے علاوہ کسی دوسری علاقائی جماعت کی حمایت گویا اپنے ووٹ کو ضائع کرناہے ،لیکن ووٹ دینا اور سیاسی جماعت پر تکیہ کرنا دوالگ باتیں ہیں ۔مسلمان خواہ کسی بھی ایک سیاسی جماعت کو متحد ہوکر ووٹ کرے لیکن اپنے مسائل کے حل کے لئے دوسروں پر انحصار بند کرنا ہوگا ۔آج تک انہیں کسی بھی سیاسی جماعت نے کیادیاہے ؟ تعلیمی و اقتصادی پسماندگی کی شرح دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔روزگاروں میں ان کے لئے مواقع کی گنجائش تقریباً ختم کردی گئی ہے۔سماجی طورپر بھی ان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے ۔آزادی کے بعد سے آج تک ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاگیا،اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ فلاں سیاسی جماعت ہمارے حالات کو بدل دے گی،ایک غلط مطمح نظر ہے ۔حالات کی تبدیلی کے لئے اپنے قوت بازوپر اعتبارکرنا ہوگا ۔سیاسی جماعتوں سے کوئی توقع رکھنا کارعبث ہے ۔البتہ اس قدر مایوسی کا اظہار بھی کفر ہے کہ ہمارے دانشور اور علما حالات کی تبدیلی کی تدبیر سازی کے بجائے یرقانی تنظیموں کی گود میں جا بیٹھے ۔آج وہ پوری قوم کو انتہا پسند تنظیموںکی بیعت کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ انہیں ذاتی فائدہ حاصل ہوسکے ۔کیا انہیں اس حقیقت کا اندازہ نہیں ہے کہ ان کی تملق پرستی اور ہزارہا دعوئوں کےباوجود بھی مسلم دشمنی کم نہیں ہوئی ہے ۔قومی تشخص پر حملے ہورہےہیں اور مذہبی عبادت گاہوں کو ہتھیانے کا عمل مسلسل جاری ہے ۔مسلمان جوانوں کو زندہ جلایا جارہاہے ۔حتیٰ کہ انہیں اپنی مسجدوں اور گھروں میں بھی مذہبی امور کی انجام دہی سے روکا جارہاہے ۔اس کے باوجود یرقانی تنظیموں کے قصیدہ خواں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کےبجائے خودسپردگی کے مشورے دے رہے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے شرپسندوں کے حوصلوں کو تقویت دی اور مسلمانوں کو بزدلی کا شکار بنادیا۔
کرناٹک میں بی جے پی کی شکست نے یہ توواضح کردیاکہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہے ۔ہندوستان میں مختلف ریاستوں میں اس کو کراری شکست کا سامنا کرناپڑاہے ،لیکن کرناٹک کی شکست نے اس کے حوصلوں کو پست کردیا۔اس کے اثرات یقیناً 24 کے انتخابات میں نظر آئیں گے ،لیکن یہ دعویٰ قبل از وقت ہوگا کہ بی جے پی آیندہ پارلمانی انتخابات میں کس قدر کمزور ثابت ہوگی ۔البتہ وزیر اعظم مودی کا طلسم ٹوٹ رہاہے ۔اس لئے 24 میں فتح کویقینی بنانا بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہوگا ۔دوسری اہم بات یہ کہ مسلمانوں کو پارلمانی الیکشن میں کسی ایک جماعت کو متحد ہوکر ووٹ دینا چاہیے ۔علاقائی جماعتوں کو ووٹ دینا گویا اپنے ووٹ کی وقعت کو ضائع کرنا ہے ۔اس لئے پارلمانی الیکشن میں کانگریس سے بہتر کوئی جماعت نہیں ہے ۔کانگریس کے علاوہ کوئی سیاسی جماعت بی جے پی کے سحر کو باطل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی ،اس کے لئے دیگر سیکولر جماعتوں کو بھی کانگریس کے ساتھ آناہوگا۔البتہ صورتحال کی تبدیلی کے لئے مسلمانوں میں سیاسی نظم و ضبط درکارہے۔ان کا سیاسی وسماجی انتشار ملت کی تضعیف کا سبب ہواہے ،اس لئے اب بیدار ی نہایت ضروری ہے۔