-
مسلم خواتین کا جنگ آزادی میں قائدانہ کردار
- سیاسی
- گھر
مسلم خواتین کا جنگ آزادی میں قائدانہ کردار
475
m.u.h
15/08/2023
0
0
تحریر: شاہد صدیقی علیگ
تاریخ شاہد ہے کہ جب انگریز حکام نے تحریک آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے حریت پسندوں کوقید فرنگ میں پہنچاد یا تو دختران ملت نے گھر کی دہلیز سے قدم نکال کر اس بات کو یقینی بنایا کہ چاہے ان کی جان چلی جائے مگر تحریک کو کسی بھی قیمت پر ختم نہیں ہونے دیں گے۔ جنہوں نے اپنی دلیری،جرأت اور استقامت سے برطانوی نو آبادیاتی حکام کو انگشت بد نداں کردیا۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کی کارگزاریاں تو کجا ان کے نام تک نصابی کتابوں کے صفحات پر محدّب آئینہ کی مدد سے بھی نظر نہیں آتے،مگر تاریخ ان کے کارناموں کو فراموش نہیں کرسکتی ہے۔
مہاتما گاندھی نے ینگ انڈیا میں لکھا تھا کہ مسلمان خواتین کے تذکرہ کے بغیر تحریک آزادی کی داستان ادھوری ہے۔“
آبادی بانو بیگم (پیدائش 1852ء- وفات13 / نومبر 1924ء): بی اماں ایک قدامت پسند مسلمان خاندان سے وابستہ ہونے کے باوجود ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں مسلم خواتین کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک ہیں۔ آبادی بانو بیگم(والدہ علی برادرس) پہلی مسلم خاتون تھیں جنہوں نے حجاب کو پرچم بنا کر سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مادر ہند کو برطانوی سامراجیت کے پنجوں سے آزاد کرانے کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔آبادی بانو بیگم جنہیں گاندھی نے بی اماں کالقب دیا تھا، 1852 ء میں اتر پردیش کے امروہہ ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئیں۔ لیکن شوہر عبدل علی خان کی قبل ازوقت وفات کے بعد پردے میں رہ کر جائداد کا معقول انتظام کیا اور اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم وتربیت میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔آبادی بانو کی سیاسی زندگی کا آغازپہلی عالمی جنگ سے ہوتا ہے۔ جب وہ 1917 میں اینی بیسنٹ کی ہوم رول لیگ تحریک سے وابستہ ہوئیں۔اینی بیسنٹ کی گرفتاری کے بعدبی اماں اپنی خراب مالی حالت کے باوجود 1917ء تا1921 ء تک قانون تحفظ ہندکے خلاف احتجاج کے لیے ہر ماہ 10 روپے عطیہ دیتی رہیں۔انہوں نے 30/دسمبر1917ء کو کلکتہ کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایسی ولولہ انگریز تقریر کی جس نے حاضرین پر دیرپا تاثر چھوڑے۔بیگم آبادی بانو نے خلافت اورستیہ گرہ تحریک کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بیگم نشاط النساء موہانی (پیدائش 1884- وفات 1937ء):بیگم نشاط النساء 1885ء میں اودھ، اتر پردیش میں پیدا ہوئیں، جن کی شادی 1901ء میں انقلاب زندہ آباد کے خالق اور کامل آزادی کی صدا بلند کر نے والے جوشیلے نوجوان انقلابی حسرت موہانی سے ہو ئی۔ 1908ء میں حسرت کی پہلی گرفتاری بیگم نشاط النساء کی سیاسی زندگی کانقطہء آغاز بنی اور اس کے بعد اپنے شوہر کے ہر سیاسی اور عوامی مشن میں معاون رہیں۔انہوں نے حسرت کی گرفتاری کے بعد پبلک ریلیشن آفسر کی خدمات انجام دینے کے علاوہ رسل گنج علی گڑھ میں سودیشی اسٹور بھی پوری لگن کے ساتھ سنبھالا اورمقدمہ کی پیروی بھی کی۔ اگرچہ بیگم نشاط النسا ء مالی طور پر کمزور تھیں لیکن اتنی خودار طبیعت کی مالک تھیں کہ کبھی دوسروں کی مالی مدد قبول نہیں کی۔
بی بی امت السلام (پیدائش1907ء - وفات29 /ستمبر 1985ء):بی بی امت السلام پٹیالہ کے ایک زمیندار کرنل محمد عبدالمجید خان کی بیٹی تھیں۔وہ ایک محرک سماجی کارکن اور موہن داس گاندھی کی سچی پیروکار تھیں۔وہ نوعمری سے ہی تحریک آزادی کی طرف راغب ہو گئیں اور برقعہ پہن کر انبالہ میں گلی گلی کھادی کی تبلیغ اور کھادی فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ 30۔1931 ء کے اوائل میں وہ بطور مہمان سابرمتی آشرم پہنچیں اور زندگی کے ہر عیش و آرام کو قربان کرکے اس کا حصہ بن گئیں۔ جب 1947 ء میں تقسیم ہند کے دوران ملک فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں آیا تو امت السلام نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے انتھک کام کیا۔ یہاں تک کہ وہ مہاتما گاندھی کے ساتھ نواکھلی گئیں اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے ان کے ساتھ روزہ رکھا۔ انہوں نے اپنی آخری سانس تک گاندھیائی نظریات کی پیروی کی تو مہاتما گاندھی نے بھی انہیں ہمیشہ پیاری بیٹی امت السلام کہہ کر مخاطب کیا۔محب وطن امت السلام 29 /ستمبر 1985 ء کو انتقال کر گئیں۔
سید فکر الحاجیہ حسن (وفات 1970ء):جے ہند‘ نعرہ کے خالق میجرسید عابد حسن زعفرانی کی والدہ فخر الحاجیہ بیگم ایک قوم پرست اور جذبہئ حب الوطنی کا مجسمہ تھیں۔ جنہوں نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا بلکہ اپنے بچوں بدر الحسن، ظفر حسن اور عابد حسن کو بھی تحریک جدوجہد میں سرگرم حصہ لینے کی ترغیب دی۔انہوں نے خواتین بچوں کی فلاح وبہبودی کے لیے بہت کوششیں کیں۔ فخر الحاجیہ بیگم نے تر وپ بازار میں واقع اپنی رہائش گاہ عابد منزل میں دلایتی کپڑوں کی ہولی جلائی۔ انہوں نے عدم تعاون اور خلافت کی تحریکوں میں فعال کردار انجام دیا۔ سروجنی نائیڈو، اور فکر الحاجیہ نے آزاد ہند فوج کے سپاہیوں کو رہا کرانے کے لیے بہت جدوجہد کی۔سید فخر الحاجیہ حسن1970 ء میں انتقال کر گئیں۔
منیرہ بیگم: آل انڈیا کانگریس کے اول مسلمان صدر بدر الدین طیب جی کی بھتیجی تھیں۔ان کی شادی بہار کے نامور مجاہد آزادی مولانا مظہر الحق بیرسٹر سے ہوئی تھی جو اپنے حلقے کے ایک بڑے زمیندار تھے۔ منیرہ نے ویسے تو آنکھ کھولتے ہی سیاسی ماحول دیکھا تھا مگر مولانا کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم ہونے کے بعد ان کے حوصلوں کو مزید تقویت ملی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ سرگرم عمل ہوگئیں۔ اگرچہ منیرہ بیگم پردے کی پابند تھیں مگر پردہ کبھی ان کی سرگرمیوں میں حائل نہ ہوا۔ 1920ء میں جب گاندھی جی پٹنہ آئے تو ان کی ایما پر منیرہ بیگم نے اپنے گھر پر خواتین کا جلسہ منعقد کیا۔ جس کے بعد منیرہ بیگم نے تحریک آزادی کے لیے گاندھی جی کو ہیرے جڑے بیش قیمت چار کنگن بطور عطیہ پیش کیے۔جنہیں موصول کرنے کے بعد گاندھی جی جذباتی ہوگئے تھے۔
مذکورہ انقلابی خواتین کے علاوہ اور بہت سی ایسی حوصلہ مند اور دلیر مسلم صنف نازک ہیں جنھوں نے تحریک جدوجہد آزادی میں برطانوی پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، جرمانہ ادا کیا، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریز حکومت کے خلاف برسرپیکار رہیں، جب تک ملک کو انگریزی شکنجے سے آزاد نہ کرا لیا خاموش نہیں بیٹھیں۔ ان میں خصوصاً اکبری بیگم، سعادت بانو بیگم، شفاعت النساء، بیگم ڈاکٹر محمد عالم، عمر بی، صوفیہ سوم جی، خدیجہ بیگم، عمر بی (پنجاب) بیگم انیس قدوائی، زہرا انصاری، صغرا خاتون، عصمت آرا بیگم، بیگم خورشید خواجہ، سلطانہ حیات انصاری، امجدی بیگم، زاہدہ خاتون شر وانی (یوپی) زلیخاں بیگم ظہیرہ بیگم، سلطانہ بیگم، بیگم صوفیہ کمال (کلکتہ) مہر تاج، خورشید صاحبہ (صوبہ سرحد) لیڈی حسن امام، رضیہ خاتون، زبیدہ بیگم داؤدی، کنیز سیدہ بیگم (بہار) آمنہ طیب جی، بیگم ریحانہ عباس طیب جی، بیگم فاطمہ اسماعیل، شریفہ حمید علی طیب جی، بیگم سکینہ لقمانی، بیگم ثریا طیب جی، فاطمہ طیب علی، حاجرہ زیڈ۔احمد، آمینہ قریشی، فاطمہ بیگم عریفی (احمد آباد) سکینۃ الفاطمہ (بھوپال) حاجرہ بی بی اسماعیل، جمال النسا باجی، بیگم کلثوم سایانی، بیگم حمیدہ حبیب اللہ، بیگم ماجدہ بانو، سید ملاّ رابعہ بی (حیدرآباد) بیگم محبوب فاطمہ (دہلی) بیگم صفیہ عبدالواحد، حسینی بیگم، ساجدہ بانو، فریضہ بیگم (کشمیر)، مس سیوا بیگم (مدراس) وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں لیکن ان کے علاوہ ایسی بے شمار گمنام مجاہد آزادی خواتین بھی ہیں جن کا ذکر تاریخی صفحات میں درج نہ ہو سکا۔جنہوں نے و قت پڑنے ملک وقوم کی خاطر کارہائے نمایاں انجا م دیے جن کو تاریخ ہند میں سنہرے الفاظ سے لکھا جا سکتا ہے۔