ثاقب اکبر
بالآخر امریکہ نے 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان پر پوری دنیا کی طرف سے مایوسی، تشویش، ناپسندیدگی اور مذمت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کی تائید صرف دو ممالک نے کی ہے۔ ان میں سے ایک اسرائیل ہے اور دوسرا سعودی عرب ہے۔ اس معاہدے کے دیگر تمام فریقوں نے امریکہ کے اس اقدام پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی جوہری معاہدے سے دستبرداری کے باوجود اسے قائم رکھنے کے لئے پرعزم ہیں اور معاہدے کے دیگر فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
ایرانی صدر نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکہ کے بغیر بھی اس جوہری معاہدے پر قائم رہے گا اور وہ اس حوالے سے چین، روس اور دیگر یورپی ممالک سے مشاورت کریں گے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنے کے لئے انتظار کرنا ہوگا کہ پانچ دیگر بڑے ممالک کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مفادات کو نظر میں نہ رکھا گیا تو میں اپنے عوام سے بات کروں گا اور انہیں ان فیصلوں سے آگاہ کروں گا، جو اس سلسلے میں کئے جا چکے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سخت معاشی پابندیاں عائد کریں گے، کوئی بھی ملک جو ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے مقاصد میں مدد کرے گا، اسے بھی امریکہ کی جانب سے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے اس امریکی فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کو اس امریکی فیصلے سے مایوسی ہوئی ہے۔ برطانوی وزیراعظم ٹریزامے کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا جوہری معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ افسوسناک ہے۔ روس نے بھی اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ روس کو امریکی صدر کے اس فیصلے پر شدید مایوسی ہوئی ہے۔
اور یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ صہیونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل صدر ٹرمپ کے فیصلے کی قدر کرتا ہے۔ امریکہ میں سعودی سفیر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب امریکی صدر کی جانب سے کئے جانے والے فیصلے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ سے ہی ایران کی خطے میں دہشت گردی کی حمایت اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر خدشات رہے ہیں۔یورپی یونین نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب تک تہران جوہری معاہدے میں کئے گئے اپنے عہد پر قائم ہے،یورپی یونین کے اراکین بھی اس معاہدے پر قائم رہیں گے اور کوشش کریں گے کہ ایران,سے جو پابندیاں اٹھائی جا چکی ہیں، وہ پھر سے اس پر عائد نہ ہوں۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ کا فیصلہ پشیمانی اور پریشانی کا باعث بنے گا۔ چین نے بھی ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار افسوس کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے وہ کسی کوشش سے دریغ نہیں کرے گا۔ ایک مغربی سفارتکار نے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ ان پابندیوں کو پھر سے نافذ کریں گے، جن کی پہلی قربانی ان کے یورپی اتحادی بنیں گے۔ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے آج (9مئی2018ء) صبح تہران میں اساتذہ,سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کل رات آپ نے سنا کہ امریکی صدر نے کس سطح کی گھٹیا اور پست باتیں کیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں شاید دس سے زیادہ جھوٹ بولے۔ انہوں نے ہماری حکومت کو بھی دھمکیاں دیں اور ہماری قوم کو بھی اور کہا کہ میں یہ کردوں گا، میں وہ کر دوں گا۔ میں ایرانی قوم کی طرف سے کہتا ہوں کہ جناب ٹرمپ آپ غلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ میں پہلے ہی کہتا تھا کہ امریکہ کو ایران سے جوہری پروگرام پر مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک بہانہ ہے۔ اس پر بعض لوگ کہتے تھے کہ ایسا نہیں ہے۔ اب آپ نے دیکھ لیا ہے کہ یوں نہ تھا، ہم نے معاہدے کو قبول کر لیا، لیکن اسلامی جمہوریہ,ایران سے ان کی دشمنی ختم نہ ہوئی۔ اب انہیں علاقے میں ہماری موجودگی اور ہمارے میزائل پروگرام سے مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگر ہم اس میں بھی ان کی بات مان لیں تو بھی مسئلہ ختم نہ ہوگا، وہ کوئی نیا مسئلہ شروع کر دیں گے۔ اسلامی جمہوریہ کے نظام سے امریکہ کی دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ہم پر پوری طرح تسلط چاہتا ہے، جبکہ ہمارے انقلاب نے اس کا راستہ روک رکھا ہے۔ جو کچھ ہوا ہے، یعنی امریکی صدر کا گھٹیا اور پست طرز عمل، ہماری توقع کے خلاف نہیں ہے۔ یہی طرز عمل ماضی کے امریکی صدور کے دور میں بھی رہا ہے، ہر دور میں ایسا ہی رہا ہے۔ ایرانی قوم پوری قوت سے کھڑی ہے۔
پہلے امریکی صدور مر کھپ چکے ہیں اور ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوچکی ہیں اور اسلامی جمہوریہ اسی طرح قائم دائم ہے۔ یہ صاحب بھی خاک ہو جائیں گے اور ان کا بدن سانپوں اور بچھوؤں کی خوراک بن جائے گا اور اسلامی جمہوریہ اسی طرح قائم رہے گا۔آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ اب کہا جا رہا ہے کہ تین یورپی ممالک کے ساتھ ہم اس معاہدے کو جاری رکھیں گے، میں ان تینوں پر بھی اعتماد نہیں رکھتا، آپ بھی ان پر اعتماد نہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں پہلے دن سے بار بار کہتا رہا ہوں کہ امریکہ پر بھروسہ نہ کرنا۔ میں نے کہا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو معاہدہ کر لیں۔ پہلے ضروری حفاظتی اقدامات کر لیں،پھر معاہدہ کریں۔ میں نے کہا تھا کہ معاہدے کی ایک شرط یہ ہونا چاہیے کہ امریکی صدر اس پر دستخط کرے۔ ہماری حکومت کے محترم ذمہ داروں نے زحمت کی، اپنا پسینہ بہایا اور خوب کوشش کی، لیکن وہ یہ دستخط حاصل نہ کرسکے۔ ہم نے اڑھائی برس اس قرارداد پر عمل کیا اور اب یہ پست شخص کہہ رہا ہے کہ میں اسے قبول نہیں کرتا۔ ظاہراً ایرانی حکومت جس کی سربراہی ایرانی صدر ڈاکٹر روحانی کرتے ہیں، کا طرز عمل سفارتی ہے اور وہ سفارتکاری کی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں دیکھنا بھی چاہیے کہ دیگر پانچ بڑی طاقتیں کیا طرز عمل اختیار کرتی ہیں۔ انہیں خاص طور پر روس اور چین سے مشورہ کرنا ہوگا۔
کیونکہ ان دونوں ممالک کا یورپی ممالک کی نسبت ایران کے ساتھ تعاون کا بہتر رشتہ رہا ہے۔ شاید روس کو بھی توقع نہیں کہ یورپی ممالک اس پر کاربند رہ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم نے ایک یورپی سفارتکار کا قول نقل کیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلے کا پہلا شکار یورپی ممالک ہی ہوں گے۔ امریکہ ان ممالک کو کچھ مہلت ضرور دے گا، تاکہ وہ ایران سے اپنے تجارتی معاہدوں پر نظرثانی کرسکیں، نیز آئندہ کوئی نیا معاہدہ ایران کے ساتھ نہ کریں۔ بنیادی طور پر یورپی ممالک کی ذہنیت تاجرانہ ہے۔ ان کے تاجرانہ تعلقات امریکہ کے ساتھ کہیں زیادہ گہرے اور وسیع ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی,اقتصادی اور فوجی طاقت ہے، یہ بڑے ممالک نیٹو میں بھی امریکہ کے فوجی اتحادی ہیں۔ بظاہر وہ امریکہ کے دباؤ کا زیادہ دیر مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ اسی امر کی طرف ایران کے روحانی پیشوا نے بھی اپنے خطاب میں توجہ دلائی ہے۔ اس فیصلے سے ایران کی اقتصادیات پر ضرور منفی اثرات پڑیں گے، جو پہلے ہی بہت مضبوط نہیں ہے، لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کی پابندیوں میں جینے کا ہنر تو ایرانی قوم اور حکومت سیکھ چکی ہے۔ ایران کو بہرحال ان پابندیوں کے مقابلے میں زندہ رہ کر دکھانا ہے یا پھر تمام انقلابی ارمانوں کو چھوڑ کر امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے، جبکہ تاریخ اس امر کی,بھی شہادت دیتی ہے کہ جنھوں نے امریکہ کے سامنے سر جھکایا ہے، انہوں نے بھی امریکہ سے کچھ خیر نہیں پائی، جبکہ ایران نے جرات و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علاقے میں ایک نئی قوت حاصل کی ہے اور اپنے اثر و رسوخ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ایران کی ماضی کی پالیسیوں کے خطے میں اثرات اور عوام میں مقبولیت کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ استقامت کے راستے سے بالآخر اسے سرخروئی حاصل ہوگی۔ امریکہ اور خطے میں ان کے اتحادیوں کی ایران مخالف تمام تر سازشوں کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ عراق میں داعش کو شکست دینے میں ایران نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
شام میں ایران کے تعاون کے بغیر دہشت گردوں کو شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق لبنان میں حزب اللہ اور اس کے اتحادی انتخابات میں حتمی کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور مستقبل کی حکومت یقینی طور پر اسی اتحاد کی بننے جا رہی ہے۔ اس اتحاد کو ایران کی واضح حمایت حاصل ہے۔ یہ کامیابیاں ایران کی تمام تر اقتصادی اور سفارتی مشکلات کے باوجود ہیں۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اپنی استقامت و جرات کی پالیسی کو جاری رکھے گا اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی تمام تر پابندیوں اور سازشوں کا پامردی سے مقابلہ کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کارخانہ قدرت سے مستقبل کی کیا صورت برآمد ہوتی ہے۔
بشکریہ : ابلاغ