-
وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے خدشات
- سیاسی
- گھر
وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے خدشات
387
M.U.H
11/09/2024
2
0
تحریر:عادل فراز
وقف ترمیمی بل 2024،جس کا مقصد وقف املاک کے انتظام اور نگرانی کے نظام میں تبدیلی لاناہے ،مسلمانوں کے نزدیک اوقاف کی تباہی کے لئے قانون سازی کی ایک منظم سازش ہے ۔اس لئے مسلمان ہر سطح پر اس بل کی مخالفت کررہے ہیں ۔فی الوقت یہ بل جوائنٹ پارلمانی کمیٹی کے پاس غوروخوض اور حتمی رائے دہی کے لئے گیاہواہے ۔دیکھنایہ ہے کہ جوائنٹ پارلمانی کمیٹی اس بل پر کیا رپورٹ پیش کرتی ہے کیونکہ اس میں بھی بی جے پی کے اراکین کی اکثریت ہے ۔اگر سرکار کا مقصد اس بل کے ذریعہ اوقاف کی املاک کا تحفظ اور موجودہ نظام میں اصلاح کرنا ہوتاتو اس بل کی آمادگی سے پہلے مسلمانوں سے گفت وشنید کی جاتی ۔گفت و شنید کے لئے وقف بورڈ کے اراکین اور چیئرمین حضرات اہم نہیں ہیں کیونکہ یہ سرکار کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں ،ان کے بجائے وقف کےماہرین سے مشورہ کیاجاتاتاکہ یہ صورت حال معرض وجود میں نہ آتی ۔لیکن سرکار کا مقصد اوقاف کی جائدادوں پر قبضہ کرنا ہے کیونکہ ان کی آنکھوں میں اوقاف کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتاہے ۔یرقانی تنظیموں کے افراد تو اکثر کہتے ہوئے نظرآہی جاتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اوقاف قائم کئے ہیں ،اس لئے سرکار بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہے ۔
وقف ترمیمی بل پرتمام ریاستوں کے وقف بورڈ کےاراکین اور چیئرمین حضرات کی خاموشی قابل دید ہے ۔انہوں نے ثابت کردیاکہ وہ حکومتوں کے مخلص ہیں ملت کے نہیں ۔اس سے زیادہ ان سے توقع بھی کیاکی جاسکتی ہے ۔کیونکہ وقف بورڈ میں رکن اور چیئرمین بننے کے لئے لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں ،یہ کسی پر مخفی نہیں ہے ۔ تنہا تلنگانہ وقف بورڈ نے اس بل پر اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے اس کو ناقابل قبول قراردیاہے ۔اگر اس جرأت کا مظاہرہ ہندوستان کے تمام وقف بورڈ کرتے تو اس کا الگ ہی اثر ہوتا۔ممکن ہے ان کی یہ مخالفت وقف ترمیمی بل کو منسوخ نہ کرواپاتی لیکن ملت سے ان کی وفاداری اور وقف املاک سے اخلاص تاریخ میں ثبت ہوجاتا۔لیکن افسوس ایسانہیں ہوا۔خاص طورپر اترپردیش ،تلنگانہ ،کرناٹک ،مدھیہ پردیش ،پنجاب ،بنگال اورمہاراشٹرکہ جہاں سب سے زیادہ اوقاف کی جائدادیں موجودہیں ،ان ریاستوں کے وقف بورڈ اب تک خاموش ہیں ۔ان کی خاموشی یہ ظاہرکرتی ہے کہ وقف بورڈ کے اراکین حکومت کے زیر اثر ہیں ۔وقف بورڈ میں اراکین کی اکثریت کو حکومت منتخب کرتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ حکومت کی ایماپر کام کرتے ہیں ۔چیئرمین کسی بھی ریاست میں حکومت کی منشاکے خلاف منتخب نہیں ہوسکتااس لئے اس کے فیصلے بھی آزادانہ نہیں ہوسکتے ۔اترپردیش اور بہار میں یہ صورت حال مزید تشویش ناک ہے ۔ان دونوں ریاستوں کے وقف بورڈ ز نے اب تک وقف ترمیمی بل پر کوئی آزادانہ رائے پیش نہیں کی جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ حکومتوں کے کس قدر وفادار ہیں ۔اکثر ریاستوں میں وقف بورڈز کے ممبران اور چیئرمین برسراقتدار یا حزب مخالف جماعت کے رکن ہوتے ہیں ،اس لئے وہ اپنی سیاسی جماعت کے موقف کے خلاف نہیں جاسکتے ۔اس بناپر یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ لوگ اوقاف کے تئیں مخلص نہیں ہوتے بلکہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔جوائنٹ پارلمانی کمیٹی نے بعض وقف بورڈ کےاراکین اور چیئرمین حضرات کو اجلاس میں مدعوکیاتھا،لیکن ان کی رائے اہم نہیں ہے اور نہ ان سے اس سلسلے میں بات کرنی چاہیے ۔وقف بورڈ اوقاف کی املک کا نگراں ہوتاہے مالک نہیں ۔دوسرے یہ کہ وقف بورڈ کے افراد ملت کے ترجمان نہیں ہوتے بلکہ سرکار کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں ،جو سرکار کے موقف کے خلاف نہیں جاسکتے ۔
وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کو چند خدشات لاحق ہیں ،جو وقف ترمیمی بل کے مسودے کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں ۔اس سے پہلے مسلمان وقف بورڈز کی کارکردگی اور ان کی نااہلی پر سوال اٹھاتے تھے لیکن اب تو اوقاف کی حیثیت خطرے میں ہے ،اس لئے مسلمانوں کا مشوش ہونا جائز ہے ۔مسلمانوں کو پہلا خدشہ یہ لاحق ہے کہ یہ بل وقف جائدادوں کی ملکیت اور ان کے کنٹرول پر براہ راست اثرانداز ہوسکتاہے ۔کیونکہ بل میں یہ کہاگیاہے کہ تمام اوقاف کی جائدادوں کو وقف کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے وقف ناموں کا پیش کرنا ضروری ہے ۔اگر یہ بل تصویب ہوجاتاہے تو اکثر اوقاف کی مالکانہ حیثیت ختم ہوجائے گی کیونکہ ان کے وقف نامے محفوظ نہیں ہیں ۔کچھ وقف نامے گردش زمانہ کی نذر ہوگئے اور کچھ وقف بورڈز کی نااہلی کی بنیاد پر غائب ہوگئے یا کردئیے گئے ۔متعدد بار وقف بورڈ کے دفاتر میں آگ زنی کے واقعات رونما ہوئے جن میں وقف کا ریکارڈ بھی متاثر ہوا۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وقف بورڈ ۱۹۲۳ ء میں معرض وجود میں آیااس لئے اس کے پاس تمام وقف املاک کا ریکارڈ موجود نہیں ہوسکتا۔دوسرا خدشہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعہ موقوفہ جائدادوں اور اداروں کی خودمختاری متاثر ہوگی ۔کیونکہ اس بل میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وقف بورڈ انتظامیہ میں غیرمسلموں کو بھی رکھاجائےگا۔پہلا سوال تویہ ہے کہ آخر وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی موجودگی کو کیسے قانونی ٹھہرایاجاسکتاہے؟یہ سراسر جبر اور آمریت کا شاخسانہ ہے ۔اگر سرکار دیگر قوموں اور مذہبوں کے اوقاف میں مسلمانوں کو نمائندگی دینے کی پہل کرتی ہے توپھر مسلمان بھی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی نمائندگی پر سوال نہیں اٹھائیں گے ۔سرکار اس راہ میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکتی کیونکہ اس کا اصل ہدف مسلمانوں کے اوقاف کی حیثیت کو ختم کرکے اپنے کنٹرول میں لیناہے ۔اس بل میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وقف املاک کی حیثیت کو برقرارکھنے یا اس کو منسوخ کرنے کا آخری فیصلہ ضلع مجسٹریٹ کا ہوگا۔یعنی وقف نامہ بھی کسی جائداد کو وقف ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوگابلکہ ضلع مجسٹریٹ یہ فیصلہ کرے گاکہ آخر اس وقف جائداد کی حیثیت کو بحال رکھاجائے یاختم کردیاجائے ۔اس بارے میں مجسٹریٹ کسی بھی معاملے کو دہائیوں تک التوا میں رکھ سکتاہے اور جب تک وہ حتمی فیصلہ نہ کرے اس جائداد کو استعمال نہیں کیاجاسکے گا۔یہ ایک مضحکہ خیز شق ہے اور اوقاف کو ختم کرنے کی منظم سازش کا حصہ ہے ۔آخر ضلع مجسٹریٹ کو اس بل میں اس قدر اختیارکیوں دیاجارہاہے ؟ کیا اس سے پہلے الگ الگ ریاستوں کے مختلف اضلاع میں ان کی کارکردگی زیر سوال نہیں رہی ہے ؟اگر ضلع مجسٹریٹ کی ایمانداری اور کارکردگی کا مشاہدہ کرناہوتو سرکار اور جوائنٹ پارلمانی کمیٹی کو وقف حسین آباد لکھنؤ کی املاک کا دورہ کرناچاہیے ۔جتنی عمارتیں اور جائدادیں وقف حسین آباد کی ملکیت ہیں ان کی خستہ حالی اور خالی پڑی زمینوں پر ناجائز قبضے یہ ظاہر کردیں گے کہ ضلع مجسٹریٹ نے کتنی ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ کام کیاہے ۔خاص طورپر سرکار نے جس طرح وقف املاک پر قبضے کرکے سرکاری دفاتر اور پارک بنائے ہیں ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ اوقاف کے تحفظ کے لئے سرکار کس قدر مخلص ہے ۔اس لئے مسلمانوں کواوقاف کے سلسلے میں نہ توسرکارپر اعتماد ہے اور نہ ضلع مجسٹریٹ پر ۔رہا وقف بورڈ کا مسئلہ تو اس نے بھی ہمیشہ سرکاروں کے مفاد میں کام کیاہے اوقاف کے مفاد میں نہیں ،اس لئے ہم اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں!
وقف ترمیمی بل پر ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اس بل کی روسے تمام مذہبی عمارتوں کی حیثیت متاثر ہوگی ۔یعنی کسی مسجد ،خانقاہ یا امام باڑے میں خواہ کتنے ہی عرصے سے مذہبی سرگرمیاں انجام پارہی ہوں ،ان سے یہ ثابت نہیں ہوگاکہ وہ زمین مسجد ،خانقاہ یا امام باڑے کی ملکیت ہے ۔گویاایک مسجد میں اگر دوڈھائی سو سال سے نماز ہورہی ہے تب بھی یہ مدت اس زمین کو وقف کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے ناکافی ہوگی ۔اب اس سے زیادہ مضحکہ خیز اس بل میں اور کیاہوگا۔دوسری طرف سرکار ان تمام مندروں کو قانونی حیثیت دے رہی ہے جو دوسروں کی زمین پر ناجائز طریقے سے تعمیر کئے جارہے ہیں ۔اگر سرکار اور ضلع مجسٹریٹ خاص طورپر ناجائز قبضوں کے خلاف ہیں تو اوقاف کی املاک پر گذشتہ پچاس سالوں کے دوران جو مندر تعمیر کئے گئے ہیں کیا ان کو ہٹوایاجاسکے گا ؟ وقف حسین آباد لکھنؤ کی زمینوں پر گذشتہ بیس سالوں میں درجنوں مندر قائم ہوگئے ہیں ،جن کو ہٹوانا اب آسان نظر نہیں آتا۔
مختصر یہ کہ وقف ترمیمی بل اوقاف کی بربادی کی ضمانت بن کرآیاہے ۔اس بل کو مسترد کروانا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے ۔خاص طورپر ان افراد کا جو الگ الگ سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں اور خود کو ملت کاترجمان بتاتے ہیں ۔اگر یہ بل پاس ہوتاہے تو وقف املاک کا انتظام حکومت کے ہاتھوں میں چلاجائے گااور تمام موقوفہ اداروں کی خودمختاری ختم ہوجائے گی ۔ملّی تنظیمیں اس بارے میں کوشاں ہیں ،ان کی پشت پناہی بھی ضروری ہے ۔