(تحریر: صابر ابو مریم)
مقالہ کے تیسرے حصہ میں کوشش کی گئی تھی کہ مشرقی غوطہ میں رونما ہونے والے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے اور قارئین تک حقائق کو کھول کر پیش کیا جائے، تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہو۔یہ سوال ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے کہ سات سالہ شام کی خانہ جنگی اور بد ترین صورتحال میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب مشرقی غوطہ کے معاملے میں مغرب اور مغرب زدہ قوتوں کی جانب سے شدت دیکھنے میں آ رہی ہے اور اس عنوان سے جہاں ایک طرف انہوں نے فوری طور پر سیکورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلوایا ہے وہاں ساتھ ساتھ جھوٹی اور من گھڑت خبروں کو بڑے پیمانے پر مسلسل پھیلانے کا کام بھی جاری رکھا ہوا ہے تا کہ دنیا کے رائے عامہ کو شام اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کیا جائے، جس میں یقیناًماضی کی طرح اس مرتبہ بھی امریکی و اتحادی قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا ہو گا۔جہاں تک جھوٹی اور من گھڑت خبروں اور تصاویر سمیت ویڈیوز کے بنائے جانے اور جاری کئے جانے کا معاملہ ہے تو ا س سے متعلق کالم کے تیسرے حصہ میں بحث کی گئی ہے جبکہ کالم کے اس آخری اور چوتھے حصہ میں اب سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس اور مشرقی غوطہ میں موجود دہشت گرد گروہوں سمیت امریکی اوردیگر مغربی اہلکاروں کی بڑی تعداد کے متعلق اور دیگر پر گفتگو کی جا ئے گی۔
مشرقی غوطہ کی صورتحال پر سیکورٹی کونسل کے اجلاس سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے امور سے متعلق سیایسی مبصر اور ماہر امور بین الاقوامی تعلقات فلسطینی تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے کہا ہے کہ سیکوریٹی کونسل کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد میں غوطہ شرقیہ میں بیٹھے ہوئے دہشتگرد گروہوں کو تقسیم کرلیاگیا ہے کہ جس کے مطابق القاعدہ نواز النصرہ فرنٹ اور داعش کیخلاف آپریشن کو جاری رکھنے جبکہ دوسرے دہشتگرد گروہ کہ جنہیں سعودی عرب، قطر اور ترکی کی حمایت حاصل ہے ،ان سب کے خلاف فائربندی کا کہا گیا ہے۔جیش الاسلام نامی دہشتگرد گروپ کوجسے علی الاعلان سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جبکہ ،اخوان المسلمون سے وابستہ فیلق الرحمن نامی گروہ کو قطر اور ترکی کی حمایت حاصل ہے۔مذکورہ دونوں گروہوں نے سیکوریٹی کونسل کی قرارداد کے فوراً بعد ہی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فائربندی کرنا چاہتے ہیں۔تو کیا اس سارے ہنگامے کا اصل مقصد غوطہ میں موجود سویلن آبادی کو بچانا ہے ؟ یا پھر اپنے اپنے حمایت یافتہ گروہ کی آخری کھیپ کو بچانا مقصود ہے ؟یقیناًیہ اہم ترین سوال ہے کہ جس پر سے دنیا کی نظریں اوجھل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فرانس سے تعلق رکھنے والی ایک انسانی حقوق کی کارکن اور مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر ’’وینیسہ بیلی ‘‘ نے اسپوٹنک ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ ہمارا میڈیا ہمیں غوطہ سے متعلق بتا رہاہے اس میں ایک فیصد بھی سچائی نظر نہیں آرہی ہے، حالانکہ صورتحال اور اس کا پس منظر ہی کچھ اور ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نیٹو اتحادیوں کے کارپوریٹ ذرائع ابلاغ کی جانب سے ہمیشہ سے شام سے متعلق ایسی خبروں کو دیکھتے اور سنتے آ رہے ہیں کہ جو حقائق سے بالکل بر عکس ہیں اور ان خبروں میں ہمیں شامی افواج اس طرح پیش کر کر دکھائی جا رہی ہیں کہ جیسا کہ وہ اپنے ہی ملک کے عوام کو قتل کر رہی ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں، شامی افواج دہشت گرد گروہوں کے مقابل ہیں نہ کہ عوام کے مقابل۔ ’’وینیسہ بیلی ‘‘ نے مزید کہا ہے کہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہے کہ شامی علاقہ بالخصوص غوطہ سنہ2013ء سے ہی القاعدہ سے منسلک دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں یرغمال رہاہے ۔فرانسیسی خاتون ماہر سیاسیات کا کہنا ہے کہ عوام کے خلاف ان دہشت گردوں کی جانب سے سنہ2013ء سے ہی دہشت گردانہ کاروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں، کبھی کار بم دھماکوں کی صورت میں م،تو کبھی ان دہشت گرد گروہوں نے اسکولوں پر راکٹ گرائے ہیں، اسی طرح خود کش حملے کئے گئے ہیں تو آخر ہمارا (مغربی ) ذرائع ابلاگ ان حقائق کو کس کے لئے چھپا رہا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ نیتو اتحاد کا کارپوریٹ میڈیا ہے جو سچ نہیں بلکہ جھوٹ اور من گھڑت خبروں کو بیان کر کے دنیا کی توجہ اہم ایشوز سے ہٹانے کی کوشش میں رہتا ہے۔
مشرق وسطیٰ ایک اور نامور اور معروف سیاسی تجزیہ نگار محمد صادق نے شام کی موجودہ صورتحال بالخصوص شرقی غوطہ اور سیکورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بعد اپنی رائے میں کہا ہے کہ زمینی حقائق کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بات کافی آگے نکل چکی ہے۔انہوں نے یورپ کے عسکری زرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ دمشق کے قریبی ترین علاقہ شرقی غوطہ میں اس وقت پندرہ سو کے قریب اہم غیر ملکی فوجی آفیسرز موجود ہیں اس وقت انسانی بری صورت حال کی آڑ میں کئے جانے والے اس سارے شورشرابے اور مصنوعی ہنگامہ کا مقصد شرقی غوطہ میں موجود ان غیر ملکیوں خاص طور پر امریکی موجودگی کو شلٹر فراہم کرنا ہے۔امریکا شام کی حکومت کو گرانے کے لئے نئی کوشش کر رہا ہے اور اس نئے منصوبہ کا آغاز کر چکا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ امریکا نے شام کی تقسیم کے لئے داعش کی ناکامی کے بعد اب پلان بی پر عمل کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔امریکا چاہتا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت پر مختلف جوانب سے حملے کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا جاسکے۔ان حملوں میں دمشق کے اطراف اور دیگر علاقوں کے درمیان رابطوں کو بحال کرنا اور انہیں باقی حصے سے الگ کرکے ایک جغرافیائی چین میں جوڑنا ہے۔
عرب دنیا کے مایہ ناز سیاسی مبصر محمد صادق کا مزید کہنا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اردن، عراق اور شام کی سرحد تک قریب واقعہ امریکی اڈہ التنف اور دارالحکومت کے اس حصے کے درمیان بھی زمینی رابطہ بحال کرلے کیونکہ اس وقت مشرقی غوطہ میں موجود شدت پسندوں کی تمام تر امداد اور لوجسٹک سپورٹ وہاں سے ہی جاری رکھی گئی ہے۔ اس وقت التنف میں امریکہ،اردن اسرائیل اور برطانیہ کا مشترکہ آپریشن روم موجود ہے جو اس ساری صورتحال کو کنٹرول کررہا ہے۔جبکہ مشرقی غوطہ میں اس وقت موجودپندرہ سو غیر ملکی فوجیوں کا تعلق بھی انہی ممالک سے ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ غوطہ کو لیکر اس سارے شور شرابے اور سیکوریٹی کونسل کے اجلاس اور پھر فائربندی کا مقصد مزید مہلت حاصل کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ غوطہ کے ایشو پر مصالحتی کوشش کرنے والے مصری عسکری خفیہ اداروں کو امریکی پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ان کوششوں کو ترک کردیں۔واضح رہے کہ شام کی حکومت چاہتی تھی کہ مصالحت اور بات چیت کے ذریعے سے وہاں موجود سویلین آبادی کو نکالا جائے اور مصری اسی سلسلے میں کوششیں کررہے تھے۔تاہم امریکا کی جانب سے مصر کو بھی اس کام سے دور کر دیا گیا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ غوطہ میں جو کچھ کیا جا رہاہے سب کچھ امریکی ایماء پر ہے اور اس کے مفادات کے پیچھے امریکا ہی ہے اور پوری دنیا میں جھوٹ اور من گھڑت خبروں کے پھیلانے میں بھی امریکی ہاتھ کارفرما ہے تاہم اب پاکستان میں موجود امریکی حامیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کریں گے یا پھر شام سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمہ کا ساتھ دیں گے۔
بہ شکریہ : ابلاغ