-
کسان تحریک :وزیر اعظم ’فون کال‘ کی دوری کب ختم کریں گے؟
- سیاسی
- گھر
کسان تحریک :وزیر اعظم ’فون کال‘ کی دوری کب ختم کریں گے؟
871
M.U.H
23/02/2021
0
0
تحریر:عادل فراز
کسان تحریک ہنوز جاری ہے اور سرکار بھی اپنی کٹ حجتی پر اسی طرح قائم ہے ۔کسان اپنے مطالبات کو منوانے پر بضد ہیں اور سرکار چاہتی ہے کہ کسان اس کے بنائے ہوئے قانون کو صحیح مان کر اپنا احتجاج ختم کردیں ۔ٹریکٹر ریلی کے بعد سے اب تک سرکار نے کسانوں کے ساتھ بات کرنے کی پہل نہیں کی ۔البتہ وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے دیگر رہنما بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسانوں سے بات چیت کےلیے ہمہ وقت تیار ہیں ۔وزیر اعظم مودی نے ’من کی بات‘ اور پارلیمنٹ میں دیے گئے اپنے خطبے میں کہاتھاکہ وہ کسانوں سے مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔اگر کسان ان سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو وہ بس ایک ’فون کال‘ کی دوری پر ہیں ۔یہ دوری اب تک ختم نہیں ہوئی ہے !اگر وزیر اعظم چاہتے تو اب تک اس ’فون کال‘ کا استعمال کرکے کسانوں کو مذاکرات کی میز پر دعوت دے سکتے تھے مگر انہوں نے اس کی زحمت گوارا نہیں کی ۔وزیر زراعت بھی وزیر اعظم کی تقلید کررہے ہیں اور منتظر ہیں کہ کسان ان سے دوبارہ مذاکرات کی درخواست گزاریں تاکہ ان کی انا پر حرف نہ آئے ۔سوال یہ ہے کہ آیا سرکار عام آدمی کی نمایندگی کرتی ہے یا نہیں؟ اگر سرکار عام ہندوستانیوں کی منتخب سرکار ہے تو اسے مذاکرات کے لیے پہل کرنے میں احساس شرمندگی کیوں ہے؟ سرکار اگر اپنے عوام سے بات چیت نہیں کرے گی تو کون کرے گا؟بھلا اس میں شرمندگی اور برتری و کمتری کی بات کہاں سے آگئی ۔ مگر ایسا لگتاہے کہ سرکار نے اس قانون کو اپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے جس کے چلتے ابھی مذاکرات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔
پنجاب ،ہریانہ ،راجستھان اور مغربی اترپردیش میں کسانوں کی ’مہا پنچایتوں ‘ میں امڈی بھیڑ نے یہ ثابت کردیاکہ کسان اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ان مہا پنچایتوں میںاب اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران بھی شرکت کررہے ہیں ،یہ اچھی خبر ہے ۔اگر کسانوں کی بات سرکار نہیں سن رہی ہے تو اپوزیشن کا ایسے حالات میں کسانوں کے ساتھ آنا ان کے حوصلوں کو مہمیز کرے گا ۔انہیں یہ احساس ہوگا کہ ملک کی برسراقتدار جماعت اگر ان کے مطالبات کی ان سنی کررہی ہے تو سابق برسر اقتدار جماعت اور دیگر اپوزیشن لیڈران ان کے مطالبات کو درست مان کر ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے ملک کا ’گودی میڈیا‘ اس قدر بے غیرتی پر اتر آیاہے کہ وہ کسانوں کی مہا پنچایتوں کی طاقت اور اپوزیشن کے احتجاج کو سرے سے نظر انداز کررہاہے ۔کیا میڈیا نے بارور کرلیاہے کہ کسانوں کے مطالبات یکسر غلط ہیں اور انہیں ورغلاکر میدان عمل میں اتارا گیاہے ؟۔اگر ایسا ہے تو ’گودی میڈیا ‘ کو کھل کر یہ بات کہہ دینی چاہیے کہ کسانوں کے مطالبات بے بنیاد،ان کا احتجاج منڈی مالکوں،سرمایہ داروں اور اپوزیشن جماعتوں کے اشارے پر ہے ۔کم ازکم اس سے ملک کے عوام اور کسانون کو یہ یقین ہوجائے گا کہ اب جمہوری نظام میں میڈیا بے ضمیر اور بے اثر ہوگیاہے ۔اس کی آواز صرف سرکار کے حق میں اٹھتی ہے جمہوری و انسانی اقدار کے حق میں نہیں !
کسان مہاپنچایتوں کی طاقت اور اس کے دائرۂ اثر سے گھبراکر سرکار نے بھی اپنے نمائندوں کو میدان میں اتاردیاہے ۔سرکار کے مطابق یہ احتجاج پورے ملک کے کسانوں کا احتجاج نہیں ہے بلکہ جاٹ برادری کا احتجاج ہے ۔لہذا انہوں نے اپنے جاٹ نمائندوں کو کسانوں کی تفہیم کے لیے ان کے درمیان بھیجنے کی تیاری کی ہے ۔اگر سرکار یہ سوچ رہی ہے کہ کسانوں کا احتجاج فقط جاٹ برادری کا احتجاج ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمینی حقیقت سے بے خبر ہے یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہی ہے ۔کیونکہ کسان تحریک میں ہر برادری اور ذات پات کے لوگ نظر آرہے ہیں ۔ممکن ہے اس تحریک میں جاٹ برادری کی اکثریت ہو ،مگر کیا جاٹوں کے مطالبات پر سرکار کو غورنہیں کرنا چاہیے ۔اگر کسان تحریک میں پورے ملک کے کسان شامل نہیں ہیں تو کیا احتجاج کررہے کسانوں کے مطالبات ناجائز اور غیر آئینی ہیں ۔انہیں جمہوری نظام اور آئین ہند یہ حق نہیں دیتاہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے سرکار سے مطالبہ کریں ؟۔ کسان تحریک میں جاٹوں کی اکثریت مورد بحث نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کے مسائل ،مطالبات اوراحتجاج کی بنیادوں پر غوروخوض ہونا چاہئے۔سرکار اپنے جن جاٹ نمائندوں کو کسانوں کے درمیان بھیج رہی ہے انہیں بھی چاہئے کہ وہ پارٹی لائن سے ہٹ کر کسان تحریک کے حقائق سرکار تک پہونچائیں تاکہ سرکار کو کسان تحریک کی طاقت اور اس کی بنیادوں کا صحیح علم ہوسکے ۔ہم قطعی طورپر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرکار کسان تحریک کی زمینی حقیقت ،تحریک میں شامل کسانوں کے چہروں اور ان کی ذات پات کے بارے میں پوری معلومات رکھتی ہے ،کیونکہ سرکار بے دست و پا نہیں ہے اس کے پاس ملک کی مختلف ایسی ایجنسیاں ہیں جو زمینی حقیقت کا علم رکھتی ہیں اور سرکار کے لیے آنکھ اور کان کا کام کرتی ہیں ۔مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سرکار اپنی ضد پر اٹل ہے اور اپنی اناکا دامن چھوڑنا نہیں چاہتی ۔اس ضد اور انانیت سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا ۔کسان کھیتی باڑی چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے مجبور ہے اور سرکار مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کا شکار ہے ۔کسانوں کے تعاون کے بغیر تو مہنگائی پر قابو پانا بھی آسان نہیںہوگا ۔اس لیے بہتر ہوگاکہ سرکار اپنی ضد چھوڑ کر کسانوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے ۔
وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے ایوان میں کہا تھا کہ سرکار مذاکرات کے حق میں ہے لیکن انہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ آخر زرعی قانون میں ’کالا‘ کیاہے؟ سوال یہ ہے کہ آخر کسانوں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں میں وزیر زراعت کو قانون کی کمزورویوں اورخامیوں کا علم کیوںنہیں ہوسکا؟ اگر کسان قانون کی کمزورویوں اور خامیوں پر بات نہیں کررہے تھے تو پھر مذاکرات کیوں ہورہے تھے؟ وزیر زراعت کو اسی وقت واضح الفاظ میں کہدینا چاہیے تھا کہ کسانوں کے پاس قانون کی پیچیدگیوں پر بات کرنے کے لئے کوئی لائحۂ عمل نہیں ہے اس لیے ہم دوبارہ اسی وقت بات کریں گے جب وہ فقط اور فقط نئے زرعی قانون میں موجود خامیوں کی نشاندہی کریں گے ۔اگرکسانوں نے مذاکرات کی میز پر قانون میں موجود کمیوں اور کمزوریوں پر بات نہیں کی تو وزیر زراعت کواس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی کہ آخر متعدد ملاقاتوں میں کسانوں کے ساتھ کن نکات پر بات ہوئی؟۔اب تک کسان تحریک میں وزیر زراعت کا رویہ حیران کن رہاہے ۔ایسا لگتاہے کہ وہ کسانوں سے مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں ۔وزیر زراعت کی خوداعتمادی دیکھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ انہوں نےنئے زرعی قانون کا جس گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیاہےکسان رہنما اس بصیرت اور صلاحیت سے عاری ہیں ۔اس لیے وزیر زراعت کو عوام کے درمیان جاکر نئے زرعی قانون کی اہمیت اور افادیت پر گفتگو کرنی چاہیے،تاکہ عوام کسان رہنمائوں کے ورغلانے میں نہ آئے۔آیا وہ ایسا کریں گے ؟کیونکہ بی جے پی کی ایک پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد عوام کے درمیان جانے سے گریز کرتی رہی ہے ۔اگر ان کے پیش نظر انتخابات نہ ہوں تو وہ انتخابی ریلیوں میں جاکر بھی اپنی بات رکھنے کو ترجیح نہیں دیں گے ۔
ہمیں امید ہے کہ سرکار اپنی ضد چھوڑ کر بہت جلد کسانوں کے ساتھ مذاکرات کی پہل کرے گی ۔کسانوں کو بھی چاہیے کہ وہ سرکار کو بات چیت کے لیے دوبارہ آمادہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ بالآخر ان کے مسائل کا حل اور مطالبات پورے کرنے کا اختیار سرکار کے ہی پاس ہے ۔اگروزیر اعظم مذاکرات کے لئے پہل کرتے ہیں اور خود کسانوں کے ساتھ بات چیت کی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس میں ان کی ہتک نہیں ہے بلکہ یہ اقدام وزیر اعظم کےعہدے کےعین مطابق اور شایان شان ہے ۔کیونکہ وہ صرف بی جے پی کے لیڈر نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔