-
ملائیت اور دانش کے مابین فکری و نظریاتی نزاع
- سیاسی
- گھر
ملائیت اور دانش کے مابین فکری و نظریاتی نزاع
467
m.u.h
04/02/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
اہل دانش اور ملّائی نظام کا نزاع نیا نہیں ہے ۔عرصۂ دراز سے دونوں کے مابین کشمکش جاری ہے ۔زندگی گذارنے کے طریقوں اور مذہب کی تشریح و تفسیر پر ان کا اپنا اپنا موقف ہے ۔دانشور طبقہ مذہبی احکامات کی تشریح اپنے موافق کرنا چاہتاہے اور دوسرا طبقہ مذہب پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔اس کشمکش سے نقصان یہ ہواکہ مذہبی احکام و عقاید کی تشریح تشنہ رہ گئی اورامتداد وقت کے ساتھ نزاع بڑھتا گیا ۔ملّائیت یہ سمجھتی رہی کہ دانشور طبقہ اس کی فکرونظر کا مخالف ہے اور اہل دانش یہ مانتے رہے کہ ملائیت مذہب اور سماج کے لئے خطرہ ہے ۔اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ ملائیت مذہب کی صحیح تشریح و تفسیر سے عاجز رہی اور دانشور طبقہ اپنی فہم و فراست اور عقلی تطبیق کو ہی مذہب سمجھتارہاہے۔اس دوطرفہ عدم مفاہمت کی مثال حجاب پر اختلافی موقف کے ذریعہ دی جاسکتی ہے۔ملائیت آج تک حجاب کی صحیح مقدار اورکیفیت کا تعیین نہیں کرسکی،البتہ وہ حجاب کے مسئلے پرفکری و عملی تشدد کا شکارہے ۔دوسری طرف دانشور طبقہ رائج حجاب کی کمیت و کیفیت کو ہی خلاف اسلام باور کرتاہے۔در اصل ان کی یہ مخالفت مسئلۂ حجاب کے بجائے اس کی مقدار اور کیفیت کے بارے میں ہے،جو آج تک تشنۂ تشریح ہے۔اس طرح کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن پر اہل دانش اور ملائیت کےدرمیان گہرا نزاع موجود ہے جس کا حل نظرنہیں آتا۔اس نزاع نے دونوں کے درمیان کی خلیج کو مزید گہراکردیاہے اور اب دونوں ایک دوسرے پر حملہ ور رہتے ہیں۔ملائیت تو خیر اپنے مزاج کے مطابق جارح رہی ہے لیکن اہل دانش بھی اس سلسلے میں نظریاتی تشدد کا شکار ہیں ،جو دانش کے مزاج کے خلاف ہے ۔
ملائیت کا ایک بڑا مسئلہ وقت اور حالات کے تقاضوں کی عدم تفہیم ہے ۔وہ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔جس وقت ایتھنز میں سقراط نے اپنے نظریات کا اظہار کیا ،اس وقت سقراط کے فکروفلسفہ کو سمجھنےوالوں کی تعداد نہیں کے برابر تھی۔نتیجہ یہ ہواکہ سقراط پرسماج میں تخریب اور نظریاتی افساد کا الزام عائد کرکے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کردیا گیا ۔یہ زہرکا پیالہ نہیں تھا بلکہ سقراط کے نظریات جو ملائیت زدہ سماج کے لئےزہرہلاہل ثابت ہورہے تھے ، سقراط کو خالص زہر کی شکل میں واپس کردیے گئے۔ایتھنز کے حکمران سقراط کا نظریاتی گلا گھونٹ کر خوشیاں منارہےتھے کہ اب کوئی ان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا موجود نہیں رہا ۔مگر سقراط مرا نہیں تھا۔اس کے نظریات آب حیات کی صورت میں باقی رہے ۔کیونکہ مفکر کے بدن کو موت آسکتی ہے مگر اس کی فکرنہیں مرسکتی ۔
گلیلیوکے سائنسی نظریات کلیسا کے منجمد نظام فکر سے متصادم تھے لہذا اس پر کفر کا فتویٰ صادرکرکے جیل بھیج دیا گیا ۔کلیسا کے ذریعہ گلیلیوکو جیل بھیج دینے کی بنیاد پر زمین ثابت نہیں ہوگئی اور نہ سیّاروں نے سورج کے گرد طواف کرنا بند کردیا ۔ایسا اس لئے ہواکیونکہ ملائی نظام میں تحقیق اور تحمل کی گنجائش نہیں ہوتی۔گلیلیو سے اس کے نظریات پر دلائل طلب نہیں کئے گئے بلکہ اس کے نظریات کو کیتھولک عقاید کی مخالفت بتلاکر سزاسنادی گئی ۔کلیساکے اس تعزیز نامہ نےایک منجمد نظام فکر کو بے نقاب کردیا لیکن گلیلیو کے سائنسی نظریے کی موت ممکن نہیں ہوسکی ۔بالآخر ساڑھے تین سو سال کے بعد کلیسانے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور گلیلیو پر لگائے گئےتمام الزامات کو واپس لیا گیا۔گویا یہ گلیلیو کی نظریاتی فتح اور مقتدر کلیسائی نظام کی موت کا اعلان تھا۔
جیور ڈانوبرونو بھی کلیسا کے جامد نظام فکرکا شکار ہوا ۔برونو نے یہ سائنسی نظریہ پیش کیا تھاکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔اس نظریہ کو کلیسائی علم برداروں نے عیسائی عقائد و نظریات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس پر فردم جرم عائد کردی ۔برونو کو جس وقت سزا سنائی جارہی تھی وہ نادم ہونے کے بجائے تاسف آمیز لہجہ میں کہہ رہاتھا ’’اس کی بات نہیں سنی گئی ‘‘۔ ’بات نہ سننا‘ اور’ دلائل طلب نہ کرنا‘ملائیت کا فطری عمل ہے ،جس کے بے شمار شواہد تاریخ میں موجود ہیں۔برونو کو اپنے نظریات پر تائب ہونے کے لئے کہاگیا مگر اس نے انکار کردیا ۔پوپ اس کے دلائل سننے کو تیار نہیں تھے اور برونو اپنے نظریات کی تردید اور اپنی تحقیق پر اظہار ندامت کے لئے آمادہ نہیں تھا ۔نتیجہ یہ ہواکہ پوپ نے برونوکی زبان کاٹنے اور اسے زندہ نذرآتش کرنے کا حکم سنادیا ۔اس وقت برونو کا کہاگیا جملہ آج بھی تاریخ میں سنہری حروف میں درج ہے :’’ میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوف زدہ نہیں ہوں جتناخوف زدہ تم مجھے موت کی سزا سناتے ہوئے ہو‘‘۔برونو کو زندہ جلادیا گیا لیکن اس کی دانش کو نہیں جلایا جاسکا ۔اس کے بعدکلیسائی نظام فکر کا جنازہ دھوم دھام سے اٹھا اور آج کلیسا کو جامد نظام فکر کا آئینہ دار تسلیم کیاجاتاہے لیکن برونو متحرک خیالات کی علامت بن کر زندۂ جاویدہے ۔برونو کو زندہ جلانے والے آج بھی تسلیم کرتے ہیں کہ برونو کے نظریات برحق اورکلیسا کا موقف غلط تھا ۔
مسلمانوں کی تاریخ بھی ایسی مثالوں سے خالی نہیں ہے ۔اسلامی تاریخ میں بھی علم و دانش اور ملائیت کا فکری و عقلی تصادم ہمیشہ موجود رہا۔صحابیٔ رسولؐ حضرت ابوذرؓ نے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کی اور مسلمانوں کے اموال کی تقسیم میں عدم مساوات کا مسئلہ اٹھایا تو ان کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے زدوکوب کیا گیا ۔اس پر بھی حضرت ابوذرؓ خاموش نہیں بیٹھے تو انہیں ربذہ کی طرف جلاوطن کردیا گیا جہاں ان کی شہادت واقع ہوگئی۔
ملّائیت ہمیشہ حکمراں طبقے کی زرخرید اور درباری مزاج کی حامل رہی ہے ۔اہل دانش کے یہاں مزاحمت اور بغاوت کا جذبہ توموجود ہوتاہے مگر اس قت تک جب ان کے یہاں دانش دین سے عاری نہ ہو۔وگرنہ کتنے ایسے دانشور گذرے ہیں جنہوں نے نظریاتی طوفان تو برپا کیا مگر عملی میدان میں کہیں نہیں ٹھہرے۔بنو امیہ اور بنوعباس کے عہد حکومت میں بھی ملّائیت درباروں کی زینت تھی ۔مفتی حکمرانوں کی طبیعت ،حکومتی تقاضوں اور ان کی خوشنودی کے پیش نظر فتویٰ دہی کا عمل انجام دیتے تھے۔اس کے عوض انہیں عظیم عہدوں ،القاب و خطابات ،کثیر رقموں اور خلعتوں سے نوازا جاتا تھا۔حکومت کی سرپرستی میں انکی فقہوں کی ترویج کی جاتی تھی ۔بدلے میں فقہا بادشاہوں اور خلفاء کی مرضی کو بنام دین پیش کرتے تھے ،جس کی ایک پوری تاریخ ہے ۔
سانحۂ کربلا عالم انسانیت کا ایسا تابناک واقعہ ہےجس نے اسلامی ملائیت زدہ نظام کو طشت از بام کردیا ۔ورنہ جس وقت فرزند رسولؐ امام حسینؑ بیعت کے مطالبے کے خلاف کھڑے ہوئے تھے ،ایک مکمل نظام فکر نے ان کے موقف کی مخالفت کی ۔کیونکہ اس نظام کے تحت ’’اگر امت مسلمہ نے اتفاق رائے سے کسی فاسق ،فاجر اور جابر کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تو اس کی مخالفت حرام اور قابل گردن زندگی جرم تھا ۔‘‘ نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسینؑ کربلا کے میدان میں قتل کردیے گئے اور ملائیت تماشائی بنی رہی ۔قتل حسینؑ پر طرح طرح کے جواز تلاشے گئے لیکن تاریخ نے نظریاتی اور عملی مجرموں کو معاف نہیں کیا ۔
آج بھی ملائیت اور اہل دانش کے مابین وہی صدیوں پرانی خلیج موجود ہے ۔دونوں کے زندگی گذارنے اور مذہبی اصول و ضوابط کی تشریح کے طریقے مختلف ہیں ۔مثال کے طورپر اہل دانش شراب کی ایک مقدار کو حرام نہیں سمجھتے ۔ان کے مطابق قرآن اور سنت پیغمبر میں نشہ کو حرام کہا گیاہے ۔شراب اس وقت تک حرام نہیں ہے جب تک وہ ذہن کو مائوف نہ کردے ۔اس طرح یہ طبقہ شراب نوشی کو اسلامی اصول و ضوابط کے تحت جائز سمجھتا ہے ۔اکثر اہل دانش وہائٹ وائن کے شوقین ہیں اور ان کی محفلوں میں شراب نوشی عام ہے ۔اس کے مختلف جواز پیش کئے جاتے ہیں اور حرمت شراب کو ملّائوں کی ذہنی اُپج یا اسلامی احکامات کی عدم تفہیم سے تعبیر کیا جاتاہے ۔
ملّائیت نے عالم اسلام اور اسلامی تعلیمات کو کس قدر نقصان پہونچایا ،اس کا احتساب آسان نہیں ۔البتہ اہل دانش کےغیر سنجیدہ موقف اور نظریات و عمل میں عدم مطابقت نے بھی سماج کو کم نقصان سے دوچار نہیں کیا ۔یہ طبقہ جو کہتاہے اس پر خود پابند عمل نہیں ہے ۔عصر حاضر میں یہ لوگ نظام کو بدلنے اور سیاست کو دانش کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی بات کررہے ہیں ،لیکن خود میدان عمل سے غائب ہیں ۔حجاب جیسے اہم مسائل پر اپنا نقطۂ نگاہ بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے لیکن ان کے یہاں اس قدر حجاب بھی موجود نہیں ہوتا جس کی وہ وکالت کرتے نظر آتے ہیں ۔اختلاف کا اصل سبب یہ ہے کہ ملائیت نے مذہب کی غلط تشریح کی اور اہل دانش مذہب کو قرآن و سنت کے بجائے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی فکر میں سرگرداں رہے ہیں ۔دونوں کے طریق کار نے مذہب کو اس قدر نقصان پہونچایاجس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔بہتر ہوتا کہ اہل دانش حق جو علماکے ساتھ فکری رابطہ پیدا کرتے ۔اسی طرح علما کو بھی اہل فکرودانش سے مکالمہ کی ضرورت تھی۔مگر افسوس کبھی اس راہ میں پیش رفت نہیں ہوسکی۔