تحریر-سید مجاہد علی
سعودی عرب نے پانچ حلیف ملکوں کے ہمراہ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع اور سرحدیں سیل کرنے کا اعلان کرکے دراصل یہ واضح کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ریاض میں طے پانے والی پالیسیوں کو نافذ العمل دیکھنا چاہتا ہے۔ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اگرچہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، یمن اور لیبیا کی طرف سے دہشت گردوں اور ان ملکوں کو غیر مستحکم کرنے کے بارے میں تند و تیز الزامات عائد کئے گئے ہیں لیکن اس اقدام سے درحقیقت یہ واضح کیا گیا ہے کہ سعودی عرب نے تیل سے حاصل ہونے والی دولت اور سعودی شاہ کے خادم حرمین شریفین کی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے اہم ملکوں میں اس قدر اہمیت حاصل کرلی ہے کہ یہ تمام ملک اس کی ہر بات ماننے پر مجبور ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب اسلام آباد کے لئے سعودی عرب کی نگرانی میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
مئی کے آخر میں ریاض میں منعقد ہونے والی عرب اسلامی امریکی کانفرنس میں شرکت سے پہلے پاکستان کا خیال تھا کہ وہ فوجی اتحاد کے حوالے سے ایسا مؤقف اختیار کرسکتا ہے کہ سعودی عرب بھی خوش رہے اور ایران بھی ناراض نہ ہو۔ اس پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو نئے اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کی ذمہ داری قبول کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ جنرل راحیل کی موجودگی میں پاکستان کا ایک مضبوط نمائندہ سعودی دارالحکومت میں موجود ہوگا۔ اس طرح سعودی عرب کی نگاہ میں پاکستان کی قدر و قیمت پہلے سے دو چند ہو جائے گی۔ اگرچہ اس وقت بھی ان سطور میں اور متعدد مبصرین نے متنبہ کیا تھا کہ یہ دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ سعودی عرب علاقائی سیاست میں بالا دستی کے لئے اسلامی اتحاد کے نام سے اپنی عسکری صلاحیت اور سفارتی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ شیعہ آبادی والے عرب ملکوں میں ایران کا اثر ختم کروانے کے کام کا آغاز ہو سکے۔ اس وقت پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ اتحاد کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ اشارے بھی دیئے گئے تھے کہ جنرل راحیل شریف فوجی اتحاد کے سربراہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سعودی عرب اور ایران کے اختلافات ختم کروانے اور ایران اور دیگر شیعہ آبادی والے ملکوں کو بھی اتحاد کا حصہ بنانے کے لئے کردار ادا کریں گے۔
تاہم اس تصوراتی کامیاب حکمت عملی کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کے وزیر اعظم کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ نہ تو انہیں صدر ٹرمپ سے ملاقات کا موقع فراہم کیا گیا اور نہ ہی سربراہی کانفرنس سے خطاب کرنے کا وقت دیا گیا۔ نواز شریف سعودی شاہی خاندان کے ساتھ قریبی ذاتی تعلقات کے دعوؤں کے باوجود خالی ہاتھ ریاض سے واپس آئے۔ اس موقع پر جنرل راحیل شریف بھی کسی نمایاں حیثیت میں نہیں دیکھے جا سکے۔ اس طرح یہ تو واضح ہو گیا کہ اسلامی فوجی اتحاد کو اگر سعودی عرب مالی وسائل فراہم کرے گا تو وہ اس سے اپنی مرضی کے مطابق کام بھی لے گا۔ جنرل راحیل شریف کو اس متحدہ فوج کی سربراہی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سعودی شاہی خاندان انہیں پالیسی بنانے کا حق بھی تفویض کردے گا۔ یوں محسوس ہو تا ہے کہ ان کا رول پاکستان سے سابقہ فوجیوں کی نئی فوج کے لئے بھرتی اور انہیں ایک ورکنگ فورس میں تبدیل کرنے تک محدود ہوگا۔ سعودی حکمران بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام میں حرمین شریف کی وجہ سے سعودی عرب کے لئے عقیدت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوجی بہتر عسکری فورس ہیں جو مختلف قسم کے حالات میں جنگ کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ سابق پاکستانی آرمی چیف کے ذریعے انہیں بھرتی کرنا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا آسان ہوگا۔
سعودی شاہ سلمان اور صدر ٹرمپ نے سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایران کو نشانہ بنایا تھا اور واضح کردیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں نئی حکمت عملی ایران کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعے اس کا دائرہ اثر محدود کرنے پر استوار ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں نے اب بیک وقت ایک سے الزامات لگاتے ہوئے جس طرح قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کئے ہیں ، اس سے یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ ایران کے حوالے سے سعودی حکمران کسی اختلافی رائے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ قطر کے امیر تمیم بن حمد بن الثانی کا اصل قصور یہ کہ وہ مسلمان ملکوں کے درمیان براہ راست تصادم کو مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے۔ سعودی عرب نے انہیں تنہا کرکے یہ واضح کیا ہے کہ جو ملک بھی ریاض کی حکمت عملی سے اتفاق نہیں کرے گا ، اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے یہ بات انتہائی خطرناک ہے کہ سیاسی یا سفارتی انتقام لینے کے لئے قطر پر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جو ملک سعودی عرب سے اختلاف کرے گا اسے دہشت گردوں کا حامی اور سرپرست قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔ اسلامی فوجی اتحاد کی باقاعدہ صورت سامنے آنے اور اس کے اسلامی نیٹو کی صورت اختیار کرنے کے بعد سعودی عرب ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون سا معرکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کہلائے گا اور کون سا ملک دوستوں میں شمار ہوگا۔
پاکستان نے اگرچہ فوری طور پر قطر کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن سعودی عرب کی تازہ ترین کارروائی پاکستان کے لئے سنگین انتباہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ یا تو اسلام آباد کو دو ٹوک اور واضح مؤقف اختیار کرنا پڑے گا اور مشرق وسطیٰ کی بڑی طاقت اور پاکستان کی معیشت کے لئے اہمیت رکھنے والے ملک سعودی عرب سے مخالفت مول لینا پڑے گی یا ایران کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ بن کر ایک طرف ایران کی دشمنی کا سامنا کرنا ہوگا تو دوسری طرف ملک کے اندر فرقہ وارانہ تقسیم اور تصادم سے نمٹنا پڑے گا۔ سعودی عرب کی ناراضگی کی صورت میں وہاں کام کرنے والے بیس لاکھ سے زائد پاکستانی کارکنوں کو کسی نوٹس کے بغیر وطن واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر کے حوالے سے سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس قسم کا سعودی فیصلہ پاکستان کی معیشت اور سیاست کے لئے شدید دھچکہ ثابت ہوگا۔
اس صورت حال کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے بروقت درست خارجہ پالیسی بنانے اور ریاض کے منصوبوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی ایسی منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ اگر سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک اس کے خلاف تادیبی اقدامات کرتے ہیں تو وہ ان کا سامنا کرنے کے قابل ہو۔ پاکستان کا خیال تھا کہ وہ بیک وقت سعودی عرب اور ایران کو راضی رکھ سکے گا۔ سعودی عرب کی تازہ ترین جارحانہ سفارت کاری سے واضح ہوتا ہے وہ دوٹوک وفاداری کو ہی دوستی قرار دیتا ہے۔ خودمختارانہ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کرنے والے ملکوں کے ساتھ وہ قطر کی طرح درشت اور سخت طریقہ سے پیش آنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔