ہرش مندر کے نام سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو ۔وہ سابق آئی اے ایس افسر ہیں ۔گجرات تجربے ۲۰۰۲کے زمانے میں وہ احمد آباد میں تعینات تھے ۔انہوں نے چشم پوشی کا سرکاری حکم ماننے سے انکار کر کےاستعفیٰ دےدیا اور زندگی بھر حقوق انسانی کے لیے لڑتے رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔اور جو کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اسے ۲۰۰۴ ہی میں ایک کتاب لکھ کر دستاویز کی شکل دے دی تھی ۔ان کی کتاب کا نام تھا ’رُو! اے میرے محبوب ملک ‘Cry My Beloved Country:Reflections on the Gujrat Carnage
جس کا پہلا جملہ یہ تھا : میں نے گجرات میں دہشت گری اور قتل عام کا جو ننگا ناچ دیکھا ہے اس نے میرے قلب و روح کو بیمار کر دیا ہے میرے ناتواں کندھوں پر شرم اور بے بسی کا ناقابل بیان بوجھ ہے ‘‘
اس کے بعد سے اب تک ان کی کئی کتابیں آچکی ہیں جس میں Looking Away تازہ ترین ہے جس کا بنیادی خیال ہمارا وہ نظام ہے جو غربت کے خاتمے کے بجائے غریبوں کو ختم کرنے کے درپے ہے ۔ پروفیسر افتخار عالم نے اس کے ایک باب کا ترجمہ کر کے کانفرنس گزٹ علی گڑھ کے مارچ ۱۷ کے شمارے میں شایع کروایا ہے اس کتاب میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کا علم خود ہمیں اس کتاب سے پہلے نہیں ہو سکا تھا ۔ذیل میں اسی کے کچھ اقتباسات اپنے قارئین کے لیے حاضر ہیں :
’’دنیا میں سب سے اعلیٰ اور اول بننے کا خواب دیکھنے والے ہمارے اس ملک میں وسیع پیمانے پر موجود غربت اور افلاس ،خاصی پریشانی اور شرمندگی کا سبب بنتا ہے ۔اور شاید اسی شرمندگی کی وجہ سے ہماری افسر شاہی (بیوروکریسی )غربت کو دوسروں (با لخصوص غیر ملکیوں )کی نظروں سے چھپانے کی انتھک کوششیں کرتی رہتی ہے ۔پردہ داری کا یہ طریقہ ۲۰۱۰ میں دولت مشترکہ کھیلوں کے انعقاد کے وقت بڑے پیمانے پر سامنے آیا تھا ۔میں روز صبح اپنی کار میں اپنے کام پر جاتے ہوئے جھگی جھوپڑیوں کی ایک بستی کے قریب سے گزرتا تھا جہاں مٹی کی بوسیدہ دیواروں پر پلاسٹک یا ٹین کے ٹکڑوں کی چھتوں کے نیچے کوڑا کرکٹ چننے والے ،گھروں میں کام کرنے والے ،خوانچہ لگانے والے ،رکشہ چلانے والے یا مزدوری کرنے والے لوگ رہتے تھے ۔ ان بستیوں کے اوپر بجلی کے تاروں کا خطرناک جال اور زمین پرنالیوں کی بدبو دار کایلی کیچڑ پھیلی رہتی تھی ۔مرد اور عورتیں باری باری کھلے ہی میں نل کے نیچے نہا لیتے تھے ۔۔لیکن کامن ویلتھ گیم شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی جب مجھے یہ جھونپڑیاں نظر آنا بند ہو گئیں اور ان کے بجائے مجھے بانس کی پاڑوں پر بڑے بڑے اودے اور نیلے رنگ کے پوسٹر لگے ہوئے تھے جس پر شیر کے بچے کی تصویر بنی ہوئی تھی جو دولت مشترکہ کھیلوں کا نشان تھا !ان پودٹروں کو اس حکمت عملی کے ساتھ لگایا گیا تھا کہ پاس سے گزرنے والوں کو جھگی جھوپڑیاں نظر نہ آسکیں ۔یہ دیکھ کر مجھے شرمندگی کے شدید احساس نے گھیر لیا تھا ۔
پتہ چلا کہ غریبوں کو ہٹانے کا کام تو (کانگریس کی شیلا دکشت حکومت کے )افسروں نے بہت پہلے سے شروع کر رکھا تھا وہ اس طرح کہ مثال کے طور پر حکومت نے ایک مقام پر ساڑھے تین سو جھگی جھونپڑیوں کو بل ڈوزر سے مسمار کر دیا تھا اورغریبوں کے صفائے کے لیے انگریزوں کے بنائے ہوئے ایک پرانے قانون ’’بھیک مانگنے کے خلاف قانون ‘‘کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا جس میں غربت اور افلاس کو بذات خود ایک جرم قرار دیا گیا ہے ! اس کو نافذ کر کے فٹ پاتھوں پر رپہنے والے ہزاروں بھکاریوں کو اسی مقصد سے تعمیر کیے گئے نام نہاد ’’بھکاری جیلوں‘‘ میں پہنچا دیا گیا تھا جہاں جیلوں والی کوئی سہولت نہیں تھی ۔یہ قانون (انگریزوں کے بنائے ہوئے بہت سے پرانے فرسودہ قوانین کی طرح )ملزم کو اپنے دفاع کا موقع برائے نمام ہی دیتا ہے اور انہیں اس کی رو سے دس دس سال تک ان غیر انسانی بھکاری جیلوں میں رکھا جا سکتا ہے !
شہر سے ان بد نصیب غریب انسانوں کو غیر ملکیوں کی نظروں سے دور رکھنے کے لیے حکومت نے متعدد ’’چلتی پھرتی عدالتیں ‘‘ بنائی تھیں جن میں میجسٹریٹ کو کار کے ذریعے ان مقامات پر لے جایا جاتا تھا جہاں ان بد نصیبوں پر’’ بھیک مانگنے‘‘ کا الزام عائد کیا جاتا تھا جو مذکورہ قانون کے تحت قابل دست اندازی پولیس جرم تھا ۔مجسٹریٹ خود ہی استغاثہ دائر کرتا خود ہی گواہ ہوتا اور خود ہی بطور منصف سزا کا حکم سناتا ! جیسے جیسے کھیل شروع ہونے کی تاریخیں قریب آتی گئیں ان بے گھ بار غریب انسانوں کی شہر بدری ،یا حراست میں لے کر پبلک پارکوں میں لگائے گئے عارضی کیمپوں میں پہنچانے کا عمل تیز ہوتا گیا ۔یہ کیمپ بھی بڑی بڑی ہورڈنگز سے چھپائے جاتے تھے ۔ویسے تو ان لوگوں کو یقین دلایا جاتا تھا کہ انہیں وہاں کھانے پینے کے بندو بست کے ساتھ صرف کھیلوں کے ختم ہونے تک ہی رکھا جائے گا ۔لیکن ،(دنیا کا کم و بیش ہر حکمراں ،جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے )لہٰذا عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ ان کو ٹرکوں میں بھر کے اسٹیشن لے جا کر پہلے ہی سے ھچا کھچ بھرے ہوئے ٹرین کے جنرل ڈبوں میں جبرا ً ٹھونس کر شہر سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور ان کے ہاتھ پر ایک نیلا ٹھپہ لگا دیا جاتا تھا جو کسی طرح نہیں چھوٹتا تھا ،انہیں دھمکی دی جاتی تھی کہ اگر وہ کھیل کے دوران دلی واپس آئے تو انہیں ’بھکاری جیلوں میں ڈال دیا جائے گا ۔
پولیس عموماً جھگی جھوپڑیوں میں پہنچ کر اعلان کرتی تھی کہ وہاں رہنے والے فوراً جگہ خالی کر کے شہر کے باہر چلے جائیں اور کھیل ختم ہونے سے پہلے ہر گز ہرگز واپس نہ آئیں شہر میں صرف انہی لوگوں کو رہنے کی مشروط اجازت تھی جن کے پاس کسی قسم کا شناختی کارڈ ہو ۔لوگ مختلف شناختی کارڈ لے کر پہلیس تھانوں کے سامنے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آنے لگے تھے لیکن اکثر انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگتی اور ان کو شہر چھوڑنا ہی پڑتا تھا ۔ روزانہ کما کے کھانے والے یہ غریب اور محنت کش لوگب نہ صرف اپنی روز کی آمدنی سے محروم ہوئے بلکہ جو تھوڑا بہت جمع تھا وہ سفر خرچ کی نژر ہو گیا اور وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ پہلیس کی حراست اور ظلم سے بچ جائیں ۔ غربت کی یہ ’افسرانہ پردہ داری ‘ کوئی نہیں چیز نہیں (یہ بھی گجرات تجربے ہی کا ایک حصہ ہے ) وائبرنٹ گجرات ( Viberant Gujrat )کے سلسلے کی چوٹی کانفرنس کی تیاریوں کجے دوران بھی ۲۰۱۵ میں احمد آباد میں جب بین ا لا قوامی شہرت کے تاجر اور NRI,s غیر مقیم بھارتی بڑی تعداد میں جمع ہوئے تھے اس وقت بھی گجرات میونسپل بورڈ نےان راستوں پر جن کے ذریعے مہمان اپنے ہوٹلوں سے کانفرنس کے مقام تک جاتے تھے تمام جھگی جھونپڑیوں کو بڑے بڑے رنگین ہورڈنگز لگا کر چھپا دیا گیا تھا اور ان ہورڈنگس پر بھی گجرات حکومت کے نام نہاد کارناموں کی قصیدہ خوانی تھی ۔اسی طرح جب چین کے صدر ۲۰۱۴ میں احمدآباد آئے تھے تو اس وقت بھی نہایت ہھرتی کے ساتھ سابر متی آشرم کے قریب واقع جھگی جھونپڑیوں کو ہرے رنگ کے پردوں سے ڈحانپ دیا گیا تھا !‘‘
ہرش مندر کی اس کتاب کے مزید اقتباسات ہم پھر کسی موقع پر اپنے قارئین سے شئیر کریں گے اس وقت صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جو خطیر رقم غربت کو چھپانے پر خرچ کی جاتی ہے وہ اگر پوری ایمانداری کے ساتھ غربت کے خاتمے کی اسکیموں پر خرچ کی جائے تو چین ہی کی طرح عالمی سطح پر نیک نامی بھی حاصل کر سکتے ہیں ! لیکن ہمارا یعنی ہمارے حکمرانوں کا جو قارونی سرمایہ داریت کے اسیر ہیں انہیں عام آدمی ،جنتا جناردن اور عوام سے ووٹ بینک کی وقتی ضرورتوں کے سوا اور کوئی سروکار نہیں ہے ۔ان کا جاہل ،غریب اور پسماندہ و درماندہ رہنا ہی ان کے ظالمانہ اقتدار کے بقاکی ضمانت ہے !