-
طاقتور ہی باقی رہے گا یہ تو جنگل کا اصول ہے!
- سیاسی
- گھر
طاقتور ہی باقی رہے گا یہ تو جنگل کا اصول ہے!
458
m.u.h
23/07/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ صرف زندہ رہنا ہی زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہیے ۔بحیثیت انسان ،ہماری بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنہیں وقت وقت پر پورا کرتے رہنا چاہیے۔صرف کھانا اور آبادی بڑھانا یہ کام تو جانور بھی کرتے ہیں ۔طاقت ورہی باقی رہے گا یہ تو جنگل کا اصول ہے ۔لیکن اگر طاقت ور دوسروں کی حفاظت کرے تو یہ انسان ہونے کی نشانی ہے ‘‘۔آرایس ایس سربراہ اور اس تنظیم سے منسلک دیگر افراد اس طرح کی باتیں ایک عرصے سے کرتے آرہے ہیں ۔موہن بھاگوت نے کوئی نیا راگ نہیں الاپا ہے بلکہ اس سے پہلے ان کی کرسی پر براجمان دیگر آرایس ایس رہنمائوں کا وردِ زبان بھی یہی ہوتا تھا ۔یوں بھی ہندوستان میں سب سے آسان ہدف مسلمان ہے ،اس لئے جو منہ میں آیا کہہ دیاگیا ۔آرایس ایس سربراہ سے پہلا سوال یہ ہے کہ آیا کھانا اور آبادی بڑھانا جانوروں کا کام ہے ؟انہیں اس جملے کی تشریح کرنا چاہیے تھی ۔جنگلی جانور ہوں یا پھر چڑیاگھر میں رکھے گئے جانوروں کی بات ہو،آبادی کا مسئلہ دونوں جگہ یکساں ہے ۔جنگلی جانوروں کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے جبکہ ان میں ایسے جانوروں کی اکثریت ہے جن کا ذبیحہ مسلمانوں کے یہاں حرام ہے ۔شیر،نیلگیری تہر،چیتا،بارہ سنگھا،تیندوا،ہاتھی ،اُلّو،مختلف اقسام کے بندر ،گدھ،دریائی گھوڑا،گینڈا،اور نہ جانے کتنے ایسے جانور ہیں جن کی موجودہ نسل کو محفوظ رکھنے کے لئے قومی سطح پر کوششیں ہورہی ہیں ۔بعض جانور اس حد تک نایاب ہیں کہ انہیں دیکھنے کا موقع ہر چڑیا گھر میں دستیاب نہیں ہوتا ۔جبکہ جنگلی جانور کھانے پینے اور سیکس کرنے کے لئے آزاد ہوتے ہیں،اس کے باوجود ان کی آبادی مسلسل گھٹ رہی ہے ۔اُلّو سمیت درجنوں ایسے جانور ہیں جن کی تمام اقسام کےشکار پر ہندوستان میں پابندی عائد ہے ۔اس کے باوجود ’اُلّو‘ فقط محاوروں میں نظرآتاہے آبادیوں یہاں تک کہ صحرائوں میں بھی نہیں ۔
رپورٹ کے مطابق سن اسّی کی دہائی تک بھارت میں گِدھوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے زیادہ تھی لیکن اس 'ماحولیاتی‘ پرندے کی تعداد اب محض چند ہزار رہ گئی ہے۔ اس کی بعض اقسام ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔جبکہ گدھ مُردار خوری اور اپنی مادہ سے رشتہ قائم کرنے کے لئے کسی کے فرمان کے محتاج نہیں تھے ۔سال گذشتہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت سرکار نے گدھوں کے تحفظ کے لئے 207 کروڑ روپے کی لاگت سے پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا تھا تاکہ اس ماحولیاتی پرندے کو معدوم ہونےسے بچایا جاسکے ،اس کے باوجود گِدھ صحرائوں میں نظر نہیں آتے ۔پارسیوں کے مذہبی قانون کے مطابق گِدھوں کا وجود بہت ضروری ہے ورنہ ان کےمُردے دخموں میں پڑے پڑے سڑجائیں گے اور ماحولیاتی امراض کا سبب قرار پائیں گے ۔اس سلسلے میں آرایس ایس پارسی دساتیر کی مدد کرسکتی ہے تاکہ گِدھوں کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے اور ان کے مُردے بھی اپنے انجام کو پہونچ سکیں۔موہن بھاگوت کے مطابق طاقت وروں کو دوسروں کے تحفظ کے لئے کوشش کرنی چاہیے ،اس تناظر میں انہیں گِدھوں کےتحفظ اور ان کی افزایش نسل پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔ان کی یہ کوشش ماحولیات کے لیے بہت کارگر ثابت ہوگی۔
1972 میں اندارا گاندھی نے شیر کے شکار کے ساتھ ممالیہ اور کچھ رینگنےوالے جانوروں تک کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی ،تاکہ ان کو معدوم ہونے سے بچایا جاسکے۔آج بھی شیر وں کی آبادی 1972 کے تناسب میں بہت زیادہ افزایش نہیں پاسکی ہے کیونکہ چڑیا گھروں میں جانوروں کو محفوظ کردینے سے ان کی معدوم ہوتیں نایاب اقسام کو محفوظ نہیں کیا جاسکتا ۔جانور جس فطری نظام اور نفسیاتی قوت کے ساتھ جنگل میں رہ کر آزادی محسوس کرسکتاہے ،اسکا موازنہ کسی دوسرے متبادل نظام سے نہیں کیا جاسکتا ۔ممالیہ جانور فصلوں کی تباہی کا ایک ذریعہ بھی بنتے ہیں مگر حکومتوں کی توجہ اس طرف زیادہ نہیں ہوتی ۔خاص طورپر گائے ،بھینس،بکرے بکریاں ،نیل گائے اور سانڈ کسانوں کی فصلوں کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ۔جبکہ مذکورہ تمام جانوروں کا ذبیحہ مسلمانوں کے یہاں جائز ہے۔اس کے باوجود جنگلات میں اکثریت انہی جانوروں کی ہےجنہیں اسلام نے حلال قرار دیاہے،جیسے نیل گائیں،پہاڑی انداز کے بکرے بکریاں،بھینسے اور بچھڑے وغیرہ ۔فی الوقت مذکورہ تمام جانوروں کے شکار پر پابندی عائدہے اوردیہی جنگلات میں ان کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا عذاب سوائے کسانوں کے کوئی اور محسوس نہیں کرسکتا مگر ’ہندوتووا‘ کی المناک سیاست اور گائے کے نام پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ نے کسانوں کی زبانوں پر مہر لگادی ہے ۔اس سے پہلے کسانوں کو آوارہ جنگلی جانوروں سے اپنی فصلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہتھیار اور جال رکھنے کی اجازت ہوتی تھی ،مگر اس وقت کسان جانوروں کو کسی بھی طرح کی اذیت دینے سے خائف ہیں ۔انہیں اپنی فصلوں سے زیادہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگیاں عزیز ہیں ۔
واقعیت یہ ہے کہ جانوروں کی معدوم ہوتی ہوئی نسلوں کے لئے جنگلوں کی کٹائی اور جانوروں کےگھروں کو ختم کردینا ایک بڑا سبب ہے۔جانور وں کا فطری گھر جنگل ہے ۔جنگل ہی نہیں بچیں گے تو جانوروں کی نایاب نسلوں کو چڑیاگھروں میں کیسے محفوظ کیا جاسکے گا۔اور کتنے جانوروں کو ہم چڑیاگھروں میں محفوظ کرسکتے ہیں ،یہ بھی ایک سوال ہے ۔وہاں جانور اپنے فطری حوالوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا ۔جنگلوں میں آگ لگنے کے عمل نے جانوروں کے گھروں اور بلوں کو تباہ کردیا جس نے ان کے وجود کو نایاب بنادیا ۔انسانوں کے ساتھ بھی یہی عمل دہرایا جارہاہے ۔ان کی آبادیوں کو جنگوں اور فساد کے موقع پر جلادیا جاتاہے ۔گھر تباہ کردیے جاتے ہیں ۔زندگی گذارنے کے اسباب ناپید ہوجاتے ہیں ۔انسان غذائی قلت کا شکار ہوجاتاہے جیساکہ جنگ زدہ علاقوں میں دیکھا جارہاہے ۔متعدد وبائی امراض ان پر مسلط ہوجاتے ہیں اور لوگ تڑپ تڑپ کر زندگی کی جنگ ہارجاتے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جانوروں کے تحفظ کا لایحۂ عمل بناتے رہیں اور انسانوں کی نسلیں معدومیت کے دہانے پر پہونچ جائیں ۔اس وقت ملک یا دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا پر مسلط جنگیں بڑا خطرہ ہیں ۔کہیںمہلک کیمیائی ہتھیار دنیا اور انسانیت کے خاتمہ کا سبب نہ بن جائیں ۔بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کیا جاسکتاہے مگر بے اندازہ طاقت کے نشے میں دھت استعمار کو کیسے قابو میں رکھاجاسکتاہے، یہ سوچنا بے حد ضروری ہے ۔
موہن بھاگوت کا یہ کہناکہ طاقت ور ہی باقی رہے گا یہ تو جنگل کا اصول ہے لیکن طاوقت ور دوسروں کی حفاظت کرتاہے یہ انسان ہونے کی نشان دہی ہے،در اصل ’ہندوتوا‘ کے تناظر میں دیا گیا بیان ہے ۔موہن بھاگوت کے مطابق ہندوستان میں طاقت ور قوم ہندو ہے جس کو ہر حال میں دوام حاصل ہے ۔دیگر آبادیاں کمزور ہیں جن کی حفاظت کی ذمہ داری ہندوئوں پرہے ۔اس طرح یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کے اصل باشندے ہندو ہیں ۔ہمیں یا کسی کو اس بیان سے کیا اعتراض ہوسکتاہے کہ ہندوئوں کے مقابلے میں دیگر آ بادیاں ہندوستان میں کمزور ہیں ۔لیکن کیا ان آبادیوں کو ہندوئوں کا تحفظ حاصل ہے ؟ کیا آرایس ایس سربراہ اس قانون پر جسے وہ ہندوستان میں نافذکرنا چاہتے ہیں ،خلوص دل سے ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی ہندو حکومتوں نے کمزور طبقات کی حفاظت کی ہے ۔ہندو اور دیگر طبقات تو باہم زندگی گذارنا چاہتے ہیں مگر عدم توازن اور بے اطمینانی کی کیفیت کس نے پیداکی ؟یہ بھی واضح کیا جائے ۔ہندوستان کے استقلال کے بعدجتنے فسادات آزاد بھارت میں رونما ہوئے ہیں ان میں کس مذہب اور طبقے کی نسل کشی کے اعدادو شمار زیادہ ہیں ،یہ بھی بتلا یا جائے ۔گجرات ،مظفر نگر اور دہلی جیسے فسادات میں حکومتوں اور انتظامیہ کا کردار کیا تھا ؟انتظامیہ میں اکثریت کس مذہب اور طبقے کی ہے اور ان کا رویہ دیگر مذاہب اور طبقات کے ساتھ کیسارہاہے ؟ ان مسائل پر بھی بھاگوت جی کو روشنی ڈالنی چاہیے تھی ،تاکہ طاقت وروں کے ذریعہ کمزوروں کے تحفظ کا مسئلہ مزید روشن ہوسکتا۔بھاگوت جی آپ جو کہتے ہیں اس کا اثر پورے بھارت پر پڑتاہے ،خاص طورپر آپ کے بیانات کو اُچکنے والے لوگوں کی کمی نہیں ہے ،اس لئے تقریر میں استدلال کو ملحوظ رکھا جائے اور گنجلک باتوں کی تشریح لازمی کی جائے۔دوسرا اہم موضوع یہ ہے کہ جنگل میں طاقت ور کمزور جانوروں کا شکار کرتے ہیں ،آیا اس تناظر میں بھی کچھ بیان کرنے کی ضرورت تھی یا نہیں ؟
عالمی یوم آبادی کے موقع پر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے موہن بھاگوت کے برخلاف بیان دیا ۔یوگی جی نے کہاکہ ہندوستان میں ایک مذہبی طبقے کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو ملک میں عدم توازن اور خانہ جنگی کا باعث بن سکتی ہے ۔بھاگوت جی طاقت وروں کے ذریعہ ملک کے دیگر طبقات کو تحفظ فراہم کرنے کی بات کررہے تھے اور یوگی جی دیگر طبقات کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ملک میں عدم توازن اور خانہ جنگی کا باعث قراردے رہے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہواکہ عدم توازن اور خانہ جنگی کمزوروں کی آبادی کی افزایش سے ممکن ہے ،طاقت ور طبقہ اس سے مستثنیٰ ہے ۔تو پھر یہ بھی واضح کردیا جائے کہ طاقت ور طبقے کو پیدائش میں افزایش اور کمزوروں کے تحفظ سے کس طاقت نے روک رکھاہے ؟