محمد فراز احمد
گزشتہ پونے چار سال سے نیشنل ازم کی گفتگو عروج پر ہے، ہر کوئی اپنی دیش بھکتی ثابت کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے. ہندو ہو کہ مسلمان جو بھی اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا وہ یا تو دیش کا غدار ہوگیا یا اسے پاکستان جانے کا مفت ٹکٹ مل گیا، اور یہ ٹکٹ کوئی اور نہی بلکہ خود حکومت کے کارندے اپنی بغیر ہڈی والی نرم زبان سے تقسیم کررہے ہیں . ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2014 سے قبل ہم ہندوستانیوں کا نیشنل ازم سے کوئی رشتہ ہی نہیں تھا، یا پھر عوام میں ملک سے محبت کا شعور نہیں تھا وہ تو مودی حکومت کی کامیابی ہے کہ اس نے اس قسم کی شعور بیداری پروگرام منعقد کیا اور ملک کے طول و عرض میں تمام دیش بھکتوں کی فوج تیار کردی۔
نیشنل ازم کی یہ دوڑ انتہا کو پہنچ چکی ہے اور جو فرد بھی اس میں جتنا انتہا پرست ثابت ہوگا وہی اس ملک کا ٹھیکہ دار بن جائے گا. اس شعور بیداری کا فائدہ یہ ہوا کہ ہر کسی کا اصلی چہرہ سامنے آگیا، ہندو ہے تو ہندوؤں میں بھی ہندوستانی ہندو اور ملک دشمن ہندو کا علم ہوگیا اور مسلمانوں میں بھی دیش بھکت اور آتنگی، ملا اور جہادی مسلمانوں کا پتہ چل گیا. دیش بھکت مسلمان وہ ہیں جو وندے ماترم کے ساتھ دیگر نعرہ بازی کرتا ہو، پابندی کے ساتھ نماز کی جگہ یوگا کرتا ہو، بیف کھانے سے گریز کرتا ہو، حکومت کی ناکامیوں کو آنکھ بند کرکے قبول کرتا ہو. اس کے علاوہ آتنگی، ملا اور جہادی مسلمان وہ ہے جو حکومت کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لیتا ہو، اپنے مذہب پر عمل آوری کرتا ہو، قانون کے دائرے میں رہ کر بے جا نعرہ بازی سے گریز کرتا ہو، اپنی من پسند ڈش کھاتا ہو اور آزاد ہندوستان میں آزادی کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو. ان چہروں کے سامنے آنے کے بعد غور کرنا ہوگا کہ میں اور آپ کس جگہ فِٹ ہوتے ہیں ۔
مسلمانوں کے اندر ایک سب سے بری عادت یہ ہے کہ وہ بہت جلد مشتعل اور جذباتی ہوجاتے ہیں اور یہ بات باطل طاقتیں بہتر طور پر جانتی ہیں اسی حربہ کو استعمال کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہوکر کوئی ایسا اقدام کردیں جو دستور کے خلاف ہو. سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک اور ٹویٹر پر ایسے مباحث عام ہیں جہاں اشتعال انگیز باتیں شئیر کی جاتی ہے جس پر مسلمان مشتعل ہوکر اپنے جذبات کا غلط استعمال کر جاتا ہے جس سے سوائے نفرت کے کوئی اور چیز حاصل نہیں ہوتی. ہمارے ملک میں سب لوگ نفرت پھیلانے والے نہی ہے، اکثریت محبت کرنے والوں کی ہے لیکن یہ چند شر پسند لوگ ان کی نمائندگی کا ٹھیکہ لیتے ہوئے سب کو بدنام کرتے ہیں اسی لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی اشتعال انگیزی سے بعض رہیں ۔
اس آزادی کے موقع پر مسلمانوں کو چار چیزوں سے بچنے کا عہد لینا چاہیے. ایک یہ کہ حالات کیسے بھی ہوں وہ مشتعل نہیں ہونگے کیونکہ نبی صلعم نے مصیبت کے وقت میں بھی صبر کی تلقین کی ہے. دوسرے یہ کہ مایوس نہیں ہونگے، چاہے حالات کتنے بھی ناسازگار ہوں ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام نے مایوسی کو کفر سے جوڑ دیا ہے اور جو شخص مایوس ہوجاتا ہے وہ کوئی تعمیری کام انجام نہیں دے سکتا. تیسرا یہ کہ مرعوب نہ ہوں ، کسی بھی مذہب یا قوم کے طور طریقوں یا کسی کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوں کیونکہ مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی کو دیکھ کر مرعوب ہوجائے اور خدا کی ناشکری کریں . چوتھا، آخری اور انتہائی اہم کام یہ کہ وہ منتشر نہ ہوں . انتشار صرف مسلمانوں میں نہی بلکہ برادران وطن کے انتشار سے بھی بچیں اور اتحاد کی فضا کو پروان چڑھائیں تاکہ مسلمانوں اور برادران وطن کے اتحاد سے ملک دشمن عناصر کے خلاف آواز بلند کی جائے۔