-
اکیسویں صدی کا منی پور!
- سیاسی
- گھر
اکیسویں صدی کا منی پور!
517
m.u.h
24/07/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
منی پور میں حیوانیت اور سفاکیت عروج پر ہے ۔مرکزی اور ریاستی حکومت ہر سطح پر ناکام ہے ،اس کے باوجود انسانیت سوز واقعات کی ذمہ داری لینے کے لئے کوئی تیار نہیں ۔درندوں نے جس طرح خواتین کا برہنہ حالت میں جلوس نکالا اور اان کی عصمت دری کی ،اس کی نظیر اکیسویں صدی میں ملنا مشکل ہے ۔اور اگر کہیں کوئی نظیر مل سکتی ہے تو وہ صرف ہمارے ہندوستان میں مل سکتی ہے ۔یہ وہ زمانہ ہے کہ جب پوری دنیا ذات پات ،طبقاتی نظام اور رنگ و نسل کے جھگڑوں سے اوپر اٹھ کر سماجی ،معاشی ،اقتصادی اور سائنسی پیش رفت کی فکر میں غلطاں ہے ،اس زمانے میں ہمارا ہندوستان جو بزعم خود’وشووگرو‘ بننے کی کگار پر ہے ،اس قدر مذہبی ،نسلی اور علاقائی نفرت کا شکارہے جس کو بیان نہیں کیاجاسکتا۔حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ہندوستان سے اس فرسودہ نظام کا خاتمہ نہ ہو۔اس لئے ایسےموضوعات کو زندہ رکھاجاتاہے ۔قبائیلیوں ،مزعومہ چھوٹی ذاتوں ،اور اقلیتوں کو مزید پسماندگی کے تحت الثریٰ میں دھکیلا جارہاہے تاکہ وہ ہمیشہ کی غلامی سے آزاد نہ ہوسکیں ۔اس کے لئے مختلف تنظیمیں اور گروہ کام کررہے ہیں ،جنہیں حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔اگر ایسانہ ہوتا تو اب تک منی پور کے حالات پر قابو پالیا جاتا۔مگر جس ملک کا وزیر اعظم ملک کے حالات سے بے پرواہ دنیا کی سیاحت پر نکلاہو،اس کے ملک کے حالات کیسے بدل سکتے ہیں۔
ہندوستان کے طبقاتی اور قبائلی نظام کی اس سے زیادہ خوفناک تصویر اورکیاہوسکتی ہے جہاں عورت کو برہنہ کرکے ہجوم تماشا دیکھ رہاہو ۔کہاجارہاہے کہ ان کی عصمت دری بھی کی گئی ۔سوال عصمت دری کا نہیں ہے ۔کیونکہ جس خاتون کو برہنہ کرکے سڑک پر تماشائیوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا،اس کی عصمت دری میں کیا کسر باقی رہ گئی ؟پولیس اور خبروں کے مطابق یہ بدنما واقعہ 4مئی کو رونما ہوا،جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر اب گردش کررہاہے ۔سوال یہ ہے کہ پولیس اس حادثے سے کیوں کر غافل رہی؟ یا پھر اس کی غفلت کے پیچھے بھی کوئی گھنائونی سیاست کارفرماہے ؟ پولیس پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے ہی خواتین کو مشتعل ہجوم کے حوالے کیاتھا۔اگر یہ بات سچ ہے تو پھر منی پور کے حالات پر کس طرح قابو پایاجاسکتاہے؟ خیر! پولیس تو ہرنازک موقع پر جانبدارانہ کردار اداکرتی رہی ہے ،اس لئے ہمیں پولیس کے رویّے پر زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ہماری پولیس اب یرقانی ایجنڈے پر عمل پیراہے ،جس کی نس نس میں نفرت بھری ہوئی ہے ۔ایسے ماحول میں ’ہیمنت کرکرے‘ اور ’سبودھ کمار‘ جیسے بہادر پولیس والوں کی درکار ہوتی ہے ،جن کی تعداد بہت کم ہے۔
مشتعل ہجوم نے کلیدی ملزم کے گھر کو نذرآتش کرکے اپنے غم و غصے کا اظہارکیا ،لیکن یہ ردعمل بھی غیر جمہوری ہے ۔لیکن جب پولیس اور قانون فوری کاروائی میں غفلت کا مظاہرہ کرے تو اس طرح کا ردعمل ظہور میں آتاہے ۔برہنہ خواتین کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ۴ ملزمین کو گرفتارکیاہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ اب تک پولیس کیا کررہی تھی؟ معلوم ہوکہ خواتین کی برہنہ پریڈ کا واقعہ 4 مئی کو نسلی تشدد بھڑکنے کے صرف ایک دن بعد پیش آیا تھا، جس میں اب تک مختلف برادریوں کے 150 سے زائد افراد ہلاک اور 600 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جب کہ 70000 سے زیادہ مرد، خواتین اور بچے اپنا گھر بار چھوڑ کر منی پور اور میزورم سمیت پڑوس کی شمال مشرقی ریاستوں کے ریلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔منی پور میں شرپسندوں نے پولیس تھانوں سے ہتھیار لوٹ لئے ۔فسادیوں کے خوف سے لوگوں نے گھر بار چھوڑ دیاہے ۔ہر طرف آگ ہی آگ ہے ۔لوگ شہروں اور دیہاتوں سے جنگلوں کی طرف کوچ کرگئے ۔حالات اس سے بھی بدتر ہیں جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے دوماہ سے بھی زیادہ مدت کے بعد منی پور پر اپنے موقف کا اظہارکیا۔ان کا بیان منی پور کی صورت حال پر قابوپانے کے لایحۂ عمل سے عاری اور خالص سیاسی نوعیت کا بیان تھا ۔ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے عین قبل جمعرات کو وزیر اعظم نریندر مودی نے منی پور تشدد پراظہار افسوس کیا ۔اس مختصر تقریر میں انہوں نے منی پور کے واقعہ کی حساسیت کو نظر انداز کرتے ہوئے چھتیس گڑھ اور راجستھان کے حالات کا دکھڑا رونا شروع کردیا ۔سوال یہ ہے کہ ایسے انسانیت سوز واقعات ہندوستان میں رونما کیوں ہوتے ہیں ؟ آخر حکومتیں اس قدر غافل اور بے پرواہ کیوں ہیں ؟منی پور کے حالات پر قابوپانے کے لئے وزارت داخلہ نے کیا اقدامات کئے، اس پر وزیر اعظم نے کوئی بات نہیں کی ۔وزیر اعظم نے تقریباً ۷۸ دنوں کے بعد منی پور کے حالات پر تبصرہ کیاہے ،جو ان کےناکارہ سیاسی شعور کا غماز ہے۔اس بیان کو صورت حال کا جائزہ نہیں کہاجاسکتا ۔انہوں نے کہاکہ قصورواروں کو بخشانہیں جائے گا ،لیکن وہ قصوروار جو منظر میں نہیں ہیں ،کیا ان پر کاروائی کی جائے گی؟خاص طورپر وہ پولیس والے جنہوں نے خواتین کو گھروں سے نکال کر مشتعل ہجوم کے سپردکردیا تھا ۔وزیر اعظم کے بیان سے ظاہر ہورہاتھاکہ وہ خواتین کے تقدس اور احترام کے تئیں بیحد حساس اور سنجیدہ ہیں ،لیکن ان کے بیان میں کسی سخت قانونی کاروائی کا انتباہ موجود نہیں تھا ۔اگر وہ واقعی خواتین کے تقدس اور احترام کے تئیں سنجیدہ ہیں تو کیا انہیں 4مئی کو رونما ہوئے اس واقعہ کی اطلاع نہیں تھی؟ کیا وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں منی پور کے حالات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا؟سونے پر سہاگہ یہ کہ منی پورکے وزیر اعلیٰ کے پاس وزارت داخلہ کا قلمدان بھی موجودہ ہے،کیا انہوں نے مرکز کو اس گھنائونے واقعہ کی خبر نہیں دی؟اگر وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کو اس واقعہ کی اطلاع نہیں تھی ،تو انہیں فوراً استعفیٰ دے دینا چاہیے۔جس کے اقتدار میں ایسا بدنما واقعہ رونما ہونے پر اس کو بھنک تک نہ لگے ،اس کو اقتدار کی کرسی پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔وزیر اعظم کو منی پور کے وزیراعلیٰ پر بھی تنقید کرنی چاہیے تھی ۔صرف تنقید پر اکتفا نہیں کیاجانا چاہیے تھا بلکہ تشویش ناک صورت حال کے لئے انہیں ذمہ دار قراردیاجانا چاہیے۔بہتر ہوتااگر وزیر اعظم دنیا کا چکّر کاٹنے کے بجائے منی جاکر حالات کا نزدیک سے جائزہ لیتے ۔خواتین کے تقدس کو پامال کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی نگرانی خود کرنی چاہیے تھی ۔مگر اس واقعہ کو ہفتے بیت گئے اور کسی نے اس پرمناسب اقدام نہیں کیا ،یہ حیرت ناک ہے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بیان سے سیاست جھلک رہی تھی ۔ وہ منی پور کی موجودہ تشویش ناک صورتحال پر فکر مند نہیں تھے۔انہوں نے اس واقعہ کو سیاسی رنگ دینے کی پوری کوشش کی ،اس لئے منی پور کے ساتھ راجستھان اور چھتیس گڑھ کا ذکر کیا ۔کیونکہ منی پور میں بی جے پی پوری طرح ناکام ہوچکی ہے ،اس لئے منی پور کے حالات پر بات کرنے کے بجائے دوسری ریاستوں کا تذکرہ کیاجارہاہے تاکہ عوام توجہات کو بھٹکایاجاسکے ۔
عدالت عظمیٰ نے بھی اس واقعہ پر گہرے رنج و غم کا اظہارکرتے ہوئے اس واقعہ کی مذمت کی ۔عدالت عظمیٰ نے سرکار کے ترجمانوں سے کہاکہ سرکار اس واقعہ پر جلد از جلد اقدام کرے اور اگر سرکار مناسب اقدام نہیں کرتی تو پھر ہمیں مداخلت کرنا پڑے گی ۔عدالت عظمیٰ کا یہ بیان سرکار کے لئے ’چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے ‘ کے لئے کافی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے مرکز اور ریاستی حکومت سے فوری رپورٹ کا مطالبہ کیاہے ،یہ انسانی حقوق کا سنگین معاملہ ہے ۔عدالت نے یہ بھی کہاکہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ تنہا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ اس طرح کے دوسرے واقعات بھی رونما ہوئے ہوں گے۔چیف جسٹس کا یہ بیان واقعی حقیقت پر مبنی ہے ۔کوئی قطعی طورپر یہ نہیں کہہ سکتاکہ منی پور میں ایسا دوسرا واقعہ رونما نہیں ہواہوگا۔ اب دیکھنایہ ہے کہ مرکزی حکومت منی پور کے وزیر اعلیٰ کو برطرف کرتی ہے یا نہیں ۔مجرموں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی یا نہیں ،یا پھر انہیں بھی سیاسی پشت پناہی دی جائے گی ،جس طرح بلقیس بانو کے مجرموں کو دی گئی ۔منی پور کی صورت حال پر قابو پانا مرکزی حکومت کی ذمہ داری تھی ،اس لئے وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔لیکن حکومت سے مواخذہ کی جرأت میں کس میں ہے؟