-
جی۔۲۰ /اجلاس میں روسی صدر کی عدم شمولیت پرسوال
- سیاسی
- گھر
جی۔۲۰ /اجلاس میں روسی صدر کی عدم شمولیت پرسوال
448
m.u.h
31/08/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان میں منعقد ہونے والے جی۲۰ اجلاس میں روسی صدر ولاد یمیر پوتن شرکت نہیں کریں گے ۔عالمی سطح پرپوتن کی عدم شرکت موضوع بحث ہے ،کیونکہ سیاسی تجزیہ نگار بہت پہلے یہ پیش گوئی کرچکے تھے ۔اس کی بنیادی وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری خون ریز جنگ ہے ،جس نے عالمی رائے کو دوحصوں میں منقسم کردیاہے ۔امریکی بلاک روس کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکاہے اور وہ پوری طرح یوکرین کی حمایت میں ہے ۔دوسرا بلاک روس کی حمایت میں ہے جس میں دنیا کے مقتدر اور طاقت ور ترین ممالک شامل ہیں ۔دوسرا بلاک کسی بھی طرح امریکی بلاک سے کمزور نہیں ہے البتہ حامی ملکوں کی تعداد کم و بیش ہوسکتی ہے ۔یوں بھی ملکوں کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ ان کی عالمی حیثیت اور سیاسی قدرت کی بناپر کسی بھی بلاک کی اہمیت کا معیار طے ہوتاہے ۔اس لئے ہم کسی ایک بلاک کو کمزور یاطاقت ور نہیں کہہ سکتے ،البتہ امریکہ یہ ثابت کرنے پر تُلا ہواہےکہ وہ عالمی طاقت کی حیثیت سے برتر ہے ،مگر اب اس کی عالمی حیثیت بھی زیرسوال ہے ،اس لئے ہر دعوے کو من و عن تسلیم کرنا صحیح نہیں ہوگا ۔امریکہ نے اپنی سیاسی اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھنے اور روس کی عالمی حیثیت کو متاثر کرنے کےلئے یوکرین کاراگ الاپا ہواہے ،ورنہ یوکرین کے سلسلے میں اس کی نیت کے اخلاص سے ہر کوئی واقف ہے ۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نےگذشتہ نومبر میں بالی سربراہی اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی ۔ ان کی جگہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروف شریک ہوئے تھے ۔بالی اجلاس میں ان کے ساتھ نازیبا سلوک برتا گیا جس کی روس کو توقع تھی،اس لئے پوتن نے بالی سربراہی اجلاس سے دوری اختیار کی ۔جس وقت وزیر خارجہ لاوروف نے بولنا شروع کیا،اس کے حریف مندوب واک آئوٹ کرگئے۔برکس سمٹ ۲۰۲۳ میں بھی روسی صدربذات خود شریک نہیں ہوئے بلکہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کیا۔یہاں بھی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف روس کی نمائندگی کررہے تھے ۔جبکہ برکس اجلاس میں ناروا سلوک اور بائیکاٹ کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کیونکہ برکس میں اکثریت ان ملکوں کی تھی جو روس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔برکس کی توسیع نے بھی استعما ر کو خوف زدہ کیاہے ،جس میں اب سعودی عرب اور ایران بھی شامل ہوچکے ہیں۔
جی۔۲۰ اجلاس میں پوتن کی عدم شرکت کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں ،ان میں سے ایک وجہ روسی صدر کو لاحق جان کا خطرہ بھی ہے ۔جبکہ ان کے سیاسی حریف ویگنر گروپ کے رہنمایوگینی پریگو زین حال ہی میں ایک طیارہ حادثہ میں ہلاک ہوگئے،جبکہ انکی موت ابھی تک شکوک و شبہات کے دائرے میں ہے۔اس کے باوجود مغربی طاقتیں پوتن کے خلاف سرگرم عمل ہیں،جس کی رپورٹ روسی خفیہ ایجنسیوں نے بھی دی ہے ۔جس وقت روس میں پوتن کےخلاف فوجی بغاوت نے سراٹھایا تھا ،اس کے پس پردہ بھی خارجی عوامل کارفرما تھے ۔اس وقت بھی روسی صدر کی جان کو خطرہ لاحق تھا مگر انہوں نے اس مشکل کو سیاسی دوراندیشی کےذریعہ حل کیا۔مگراب بھی یہ خطرہ ٹلا نہیں ہے ۔یوکرین نے کئی بار متعدد ذرائع سےصدارتی ایوان کو ہدف بنایا مگر اس کو کامیابی نہیں ملی ۔مغرب بھی یہ چاہتاہے کہ کسی طرح پوتن کو راستے سے ہٹادیا جائے ،اس طرح وہ روس میں اپنے ہم نوا صدر کو لانا چاہتے ہیں ،جس کے لئے گذشتہ کئی سالوں سے کوششیں ہورہی ہیں ۔دوسرابڑا سبب مغربی ممالک کا بائیکاٹ اور نازیبا ردعمل ہے ۔پوتن کو معلوم ہے کہ ایسے اجلاس جن میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک شامل ہوں گے ،وہاں ان کی اہانت اورتقریر کا بائیکاٹ کیا جائے گا ۔امریکہ پوری کوشش کرے گا کہ اجلاس میں شامل ملک یوکرین کے مسئلے پر روس کی مخالفت کریں ۔جی ۔۲۰ اجلاس میں بھی امریکہ کی کوشش رہے گی کہ زیلنسکی کو مدعو کیا جائے ،جس طرح جی۔۷/اجلاس میں زیلنسکی کو چوردروازےسے داخل کیا گیا تھا ۔ایسانہیں ہے کہ امریکہ یوکرین کے لئے بہت مخلص ہے بلکہ وہ روس کو عالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتاہے ۔اپنی اس کوشش میں اسے ابھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔جی۔۲۰ میں پوتن کو نیچا دکھانے ،انہیں زیادہ اہمیت نہ دینے اور حتمی دستاویز میں روس کی مخالفت اور یوکرین کے ذکر کو شامل کرنے کے لئے امریکہ اپنی پوری توانائی صرف کرےگا ۔البتہ ہندوستان اس سلسلے میں ضرور متوجہ ہوگا کیونکہ روس اور امریکی بلاک کے درمیان ناراضگی کااسے اچھی طرح علم ہے ۔ہندوستان کبھی نہیں چاہے گا کہ دونوں بلاک کی مخالفت کی بناپر جی۔۲۰ اجلاس کا خوشگوار ماحول خراب ہو۔اس سے ہندوستان کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوگی ۔
ممکن ہے یوروپی دبائو کی بناپرزیلنسکی کو جی۔۲۰ اجلاس میں مدعو کرلیاجائے ،جس کے امکانات ابھی نظر نہیں آہے ہیں ۔کیونکہ یوکرین پر ہندوستان کا موقف یوروپی ممالک سے الگ ہے ۔ہندوستان نے روس اور یوکرین کی جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھاہے ۔روس کے ساتھ بھی ہندوستان کے خوشگوار روابط ہیں ،اس لئے ہندوستان کبھی نہیں چاہےگا کہ ان روابط پر کسی بھی طرح کی آنچ آئے ۔جی۔۲۰ اجلاس ستمبر میں ہونا ہے ۔اجلاس سے ٹھیک ایک دن پہلے امریکی صدر ہندوستان پہونچ جائیں گے ۔ان کا پہلے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ یوکرین کے مسئلے پر ہندوستان کے موقف میں تبدیلی کی بھرپور کوشش کریں گے ۔ناگاساکی میں منعقد ہوئے جی۔۷ اجلاس میں جاپان نے چوردروازے سے زیلنسکی کو شامل کرایا تھاتاکہ یوکرین کو روس کے مقابلے میں مضبوط کیاجاسکے ۔امریکی حلیف ممالک یوکرین کی حمایت میں کمر بستہ ہیں ،اس لئے جی۔۷ اجلاس میں زیلنسکی کو منصوبہ بند طریقے سے داخل کیا گیا تھا،اسی طرح کی کوشش جی۔۲۰ اجلاس کے لئے ہورہی ہے ۔لیکن ہندوستان کبھی اس کو تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ اس طرح روس اور ہندوستان کے روابط متاثر ہوں گے ۔یوروپی یونین نے بھی روس کے خلاف زیلنسکی کو اپنے اجلاس میں مدعو کیاتھا ،البتہ اس وقت جنگ پورے شباب پر تھی ،لہذا زیلنسکی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ شامل ہوئے تھے ۔
اب ہم روس کی مخالفت کے بنیادی نکتے کی طرف آتے ہیں ۔مغربی ملکوں نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف پوتن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہواہے ۔اس لئے ہر اجلاس میں روسی مندوب کی تقریر کی مخالفت ہوتی ہے اور واک آئوٹ کیاجاتاہے۔عالمی سطح پر روس کے خلاف امریکی بلاک بہت متحرک ہے لیکن ابھی تک اس کا فائدہ یوکرین کو نہیں ہوا۔سوال یہ ہے کہ اگر یوکرین پر روسی حملے کی بناپر پوتن کا بائیکاٹ کیاجاجارہاہے تو یہ جرم تو امریکہ مسلسل کررہاہے ۔امریکہ نے بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے عراق پر حملہ کیاتھا،جس کا اعتراف استعماری طاقتوں نے بھی کیاہے ۔افغانستان کو تباہ کردیاگیا اور آج اس کے اقتدار کی زمام طالبان کے ہاتھوں میں ہے۔یمن ،شام اور دیگر ملکوں پر ہوئے حملوں میں بھی اس کے فوجی ملوث ہیں ۔اگر یوکرین پر حملے کو بنیاد بناکر روس کو مجرم مانا جارہاہے تو امریکہ کے جرائم کا احتساب کب ہوگا؟ یا پھر امریکی حلیف ملکوں کو کسی بھی ملک پر حملے کی آزادی حاصل ہے ؟ یا مسئلہ کی نوعیت دوسری ہے ۔کیونکہ امریکہ نے عام طورپر مسلمان ملکوں پر حملہ کیاہے اس لئے یوروپی یونین اور دیگر عالمی ادارےان حملوں کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔یوکرین میں چونکہ عیسائی آبادی زیادہ ہے جن پر ایک یہودی حکومت کررہاہے اس لئے یوکرین کے مسئلے کو ابھارا جارہاہے ۔ورنہ جس قدراموات یوکرین میں ہوئی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ اموات کی شرح تنہا عراق میں ہے ۔افغانستان ،یمن اور شام کےاعداد و شمار تو صحیح طورپر دستیاب ہی نہیں ہیں ۔اس لئےامریکی بلاک کے ذریعہ روس کی مخالفت منصفانہ نہیں ہے ۔انہیں چاہیے کہ پہلے عراق،افغانستان ،یمن شام اور دیگر ملکوں پر کئے گئے امریکی حملوں کا احتساب کریں اور اس کا عالمی عدالت میں مواخذہ کیا جائے ۔جبکہ عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کی امریکہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ تمام ادارے استعمار کے قائم کردہ ہیں جنہیں وہ اپنے مفاد میں استعمال کرتارہتاہے۔
یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ہندوستان جی۔۲۰ اجلاس کی میزبانی کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتاہے ۔آیا وہ امریکی دبائو میں یوکرین پر اپنے موقف کو تبدیل کرے گا یاپھر روس کے ساتھ اپنے خوشگوارروابط کی برقراری کو اہمیت دے گا ۔روسی صدر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ تقریر کریں گے ،اس تقریر پر امریکی بلاک کس ردعمل کا اظہار کرتاہے،یہ دیکھنا اہم ہوگا ۔کیونکہ امریکہ اجلاس کے ماحول کو خراب کرنے کی پوری کوشش کرے گا ،جس کی اجازت ہندوستان نہیں دے گا۔بہرحال ! دلّی دور نہیں ہے !