-
وقف ترمیمی بل اور مسلمانوں کا ردعمل
- سیاسی
- گھر
وقف ترمیمی بل اور مسلمانوں کا ردعمل
159
M.U.H
11/08/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان میںمسلمانوں کی سیاسی اورسماجی پسماندگی عروج پر ہے ۔ان کے وقار پر چوطرفہ حملے ہورہے ہیں ۔مذہبی تشخص خطرے میں ہے ۔ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلیں سرکاری سطح پر کی جارہی ہیں ۔ہجومی تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔حتیٰ کہ حالات اس قدر بدتر کردئیے گئے ہیں جو ناقابل بیان ہیں ۔لیکن مسلمان اب بھی شترمرغ کی طرح ریت میں سرڈال کرخود کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ،جب کہ شکاری ان کےسروں پر آپہونچاہے ۔کیا انہیں نظر نہیں آتاکہ اب ان کی جان مال اور ناموس بھی محفوظ نہیں ہے۔اگرہاشم پورہ ،گجرات ،مظفرنگر ،دہلی اور نوح میوات میں ہوئے فساد ات سے اب بھی ہم نے سبق نہیں لیاہے توپھر آنےوالی نسلوں کے مستقبل کے بارے میں کون غوروفکر کرےگا؟
بی جے پی سرکارنے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2024ء پیش کرکے وقف املاک کے لئےخطرے کی گھنٹی بجادی ہے ۔گوکہ یہ بل جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کوبھیج دیاگیاہے لیکن اس بل کے ذریعہ سرکار نے اپنی نیت صاف کردی ہے۔اب اسکی نگاہیں وقف املک پر لگی ہوئی ہیں تاکہ مسلمانوں کو بالکل تباہ وبربادکردیاجائے ۔کیامسلمان اب بھی نوشتۂ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں ؟خاص طورپر وہ مولوی اور دانشور جو زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ۔اب وہ دانشور کہاں ہیںجومسلمانوں کومسلسل آرایس ایس سے مکالمےکی دعوت دیتے رہے ہیں ۔کیا ایسی ناگفتہ بہ صورت حال میں مکالمے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟یہ وقت مزاحمت کاہےمکالمےاور مذاکرات کا نہیں !اس ئے یرقانی تنظیموں کے آلۂ کاروں کی منشا کو سمجھئے ۔یہ لوگ مسلمانوں کو مزید پسماندگی کے تحت الثریٰ میں دھکیلنا چاہتے ہیں ۔اس لئے ان کے مشوروں کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے ۔
وقف املاک کے لئے سب سے پہلے ۱۹۲۳ء میں انگریزوں نے ایکٹ پاس کیا۔اس قانون سازی کے ذریعہ انگریزوں نے اوقاف کی جائدادکااپنے لحاظ سے استعمال کیا۔اکثر سرکاری ادارے اوقاف کی زمینوں پر قائم کئے گئے ۔آج بھی زیادہ تر سرکاری دفاتر،افسروں کے بنگلے ،قدیم اسکول و کالج حتیٰ کہ بعض شہروں میں عدلیہ کی عمارتیں بھی اوقاف کی زمینوں پر قائم ہیں ۔جو عمارتیں وقف املاک پر نہیں ہیں وہ نزول میں درج ہیں ۔اس طرح وقف املاک کو اپنے قبضے میں لے کر مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ۔اس قدر بہیمانہ قبضے کے باوجود وقف جائدادوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی جس نے حکومتوں کو پریشان کردیا۔آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں ۔۱۹۵۴ء میں حکومت نے پارلیمنٹ میں وقف ایکٹ پاس کرکے وقف بورڈ کا محکمہ قائم کردیاجس کے بعد تمام وقف املک کی نگرانی ایک بورڈ کے سپرد کردی گئی ۔چونکہ وقف بورڈ حکومت کے زیر نگرانی تھااس لئے اس کےعہدیداران بھی ہمیشہ حکومت کے زیر اثر رہے ۔ان کی آنکھوں کے سامنے اوقاف پرقبضے ہوتے رہے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔بعض عہدیداران تو اس بدعنوانی میں بذات خود ملوث ہوئے اور اوقاف کی جائداد کو نیلام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔خاص طورپر گذشہ بیس سالوں میں جس قدر اوقاف کو لوٹا اور برباد کیاگیا،اس کی نظیر نہیں ملتی ۔یہ کھیل شیعہ اور سنّی دونوں بورڈز میں مشترکہ طورپر کھیلاگیاجس کے خلاف وقتاًفوقتاًآواز احتجاج بھی بلند ہوتی رہی ۔
اب جب کہ وقف ترمیمی بل 2024ء پارلیمنٹ میں پیش کردیاگیا ہے ،اس لئے اوقاف کی حیثیت اور بقاپر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں ۔اس سلسلے میں جو بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیاہے وہ کسی حکومت کا تیارکردہ نہیں بلکہ یرقانی تنظیموں کا مرہون منت ہے ۔و ہ زعفرانی گروہ جو ہندوستان میں مسلمانوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے توپھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کی املاک کو برداشت کرپائے گا۔ممکن ہے رام مندر کے متنازعہ فیصلے کی طرح وقف ترمیمی بل پر بھی ملّی قیادت کو سرکار اعتماد میں لے کر قانون پاس کردے ،کیونکہ موجودہ ملّی قیادت کا کوئی واضح موقف نہیں ہے ۔اگر ہماری قیادت بروقت اپنی بیداری کا مظاہرہ کرتی تو حالات اس قدر دگرگوں نہیں ہوتے ۔ان کی اکثریت نے تو برسراقتدار طبقے کے سامنے سرتسلیم خم کردیاتھا اور اندریش کمار کے شانہ بہ شانہ نظر آرہےتھے ۔وہی اندریش کمار جو ’مسلم راشٹریہ منچ ‘ کے ذریعہ مسلمانوں میں نفوذ پیداکرکے بی جے پی کی سیاہ کرتوتوں کے لئے رہیں استوار کررہے ہیں ۔پھررہی سہی کسر ’داراشکوہ فائونڈیشن‘ نے پوری کردی ۔وہ دانشور جو خود کو قیادت کا دعویدار سمجھتے تھے وہ بھی آرایس ایس کی گود میں جابیٹھے ۔نتیجہ یہ ہواکہ بی جے پی کو یہ باور کرادیاگیاکہ مسلمانوں میں اس کی مخالفت کی تاب موجود نہیں ہے ،اس لئے اس کے اراکین کی دریدہ دہنی اور جسارت میں مزید اضافہ ہوااور وہ لوگ برسرعام ’دیش کے غداروں کو،گولی ماروسالوں کو‘ جیسے نعرے لگانے لگے ۔مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور تعلیمی مراکز پر حملے بڑھ گئے ۔ایسے قانون پارلیمنٹ سے پاس کروائے گئے جن سے مسلمانوں کو اپنی شہریت اور وجود خطرے میں محسوس ہونے لگا۔جس وقت یہ تماشے ہورہے تھے ملّی قیادت مذمتی بیانات دے کر اپنے فرائض کی ادائیگی کررہی تھی اور خواتین کھلے آسمان کے نیچے سڑکوں پر احتجاج کررہی تھیں ۔جب صورت حال یہ ہوتو پھر وقف ترمیمی بل کو پاس ہونے سے کیسے روکا جاسکتاہے ؟
ہمیں یہ بھی یاد رکھناچاہیےکہ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی موجود ہے ۔یہ الگ سوال ہےکہ ان کی نمائندگی پہلے سیاسی جماعتوں اور پھر مسلمانوں کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے ۔لیکن مسلم نمائندگی سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔بی جے پی میں جو مسلمان موجود ہیں انہیں مسلمانوں کا نمائندہ کہنا غلط ہوگا۔کیونکہ انہیں مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔یعنی ریاست اورمرکز میں موجود مسلم نمائندے انتخاب میں کامیاب ہوکر نہیں پہونچے بلکہ انہیں بی جے پی سے وفاداری کا صلہ دیاگیاہے ۔اس طرح دوفائدے بی جےپی کو حاصل ہوئے ۔ایک تویہ کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دئیے بغیر انہیں’کہنے کو‘ مسلم نمائندگی مل گئی اور دوسرے بعض عہدوں کےلئے اپنے تیارکردہ افرادہاتھ آگئے ۔ظاہر ہے ایسے افراد کو نہ مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی ہوگی اور نہ مسلمانوں کو ان سے کوئی توقع وابستہ رکھنی چاہیے ۔اس کے برعکس دیگر سیاسی جماعتوں میں جو مسلم نمائندگی موجود ہے وہ مسلمانوں کی حمایت یافتہ ہے ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی پہلی ترجیح ملّی مفاد نہیں ہے ۔یہ لوگ اپنی جماعتوں کے وفادارہوتے ہیں ۔عہدے اور منصب کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کرگذرنے کو تیاررہتے ہیں ۔اگر ایسانہیں ہے توپھر چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار ان کی موجودگی میں وقف ترمیمی بل کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟کیا اس سلسلے میں نتیش کمار اور چندر بابونائیڈو نے اپنے اراکین کی رائے معلوم نہیں کی ؟اگر نہیں تو پھر ان جماعتوں میں ان کی نمائندگی کی حیثیت کی ہے؟ اور اگر ان کی رائے معلوم کی گئی توپھر وہ اس بل کی حمایت کیسے کرسکتےہیں؟
پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے کرن رجیجو نے جس طرح متولیوں کے کردار پر سوال اٹھایا وہ بھی قابل غور ہے ۔گویاکہ وہ متولیوں کی بدعنوانیوں کی بنیاد پر یہ بل لے کر آئے ہیں؟اگر متولیوں کی بدعنوا نی کی بنیاد پر یہ بل تیار کیاگیاہے تو پھر ہندوستان کا کون ساسرکاری اور نیم سرکاری ادارہ ایساہے جہاں بدعنوانی نہیں ہے ؟الزامات تو سرکار پر بھی لگتے رہتے ہیں ۔توکیا ان الزامات کی بنیاد پر اس طرح کا بل تیارکیاجاسکتاہے؟اس طرح تو سرکار کو بھی اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے ۔متولیوں میں بدعنوانی موجودہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس طرح اوقاف پر ہندوایڈمنسٹریٹر مقررکردیاجائے یہ بھی انصاف نہیں ہے ۔دوسرے سرکار کو ان املاک کی طرف بھی دھیان دیناچاہیے جہاں راتوں رات قبضے کی نیت سے مندر تعمیر کردئیے گئے ہیں ۔ایک طرف منصوبہ بندطریقے سے اوقاف کی املاک پر مندر تعمیر کرکے ان پر قبضہ کیاجارہاہے ۔دوسری طرف سرکار وقف ترمیمی بل کے ذریعہ تمام وقف جائدادوں کو ہڑپنے کی تیاری میں ہے ۔ایسی نازک صورت حال میں مسلمان اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے مناسب حکمت عملی اختیار کریں ۔کیونکہ اگر اب بھی بیدار نہیں ہوئے تو خطرے کی گھنٹی ہر بار نہیں بجےگی !