-
ایودھیا میں بی جے پی کی شکست، سنگھ پریوار فکرمند
- سیاسی
- گھر
ایودھیا میں بی جے پی کی شکست، سنگھ پریوار فکرمند
102
M.U.H
22/07/2024
0
0
تحریر: پروفیسر اپوروانند
ہندوستان میں اب دو نظریات کی لڑائی ہے ایک نظریہ سیکولرازم اور دوسرا نظریہ آر ایس ایس کا ہندوراشٹر سے متعلق ہے۔ سنگھ پریوار کے اُس نظریہ کو ہندو راشٹر کا تصور کبھی کہا جاسکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی نے رام مندر تحریک کی قیادت کی اور اس تحریک کے نتیجہ میں ہی بی جے پی اقتدار حاصل کرسکی۔ مودی کی پہلی دوسری اور اب تیسری میعاد اسی رام مندر تحریک کی مرہون منت ہے۔ حال ہی میں لوک سبھا میں قائد اپوزیشن راہول گاندھی کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ ہم نے رام مندر تحریک کو ہرادیا۔ ان کا یہ بیان یقینا ایک نظریاتی انتباہ ہے، ویسے بھی فی الوقت اصل لڑائی اس نظریئے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا اور وہ نظریہ آر ایس ایس کا نظریہ ہندو راشٹر ہے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوتوا کی ترجمانی کرنے والے رسالہ ’’سوراجیہ‘‘ نے راہول گاندھی کے اس بیان کو وارننگ سے تعبیر کیا اور اس نے اس ضمن میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ’’وارننگ کیلئے شکریہ راہول گاندھی‘‘ لکھا۔ سوراجیہ نے راہول گاندھی کے بیان کو غلط اور منفی اندازمیں لیتے ہوئے اور اس کی غلط تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ 7 جولائی کو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ نے اپنی سیاسی زندگی یا کیریئر کا سب سے اہم بیان دیا جس میں کہا کہ ’’جو تحریک لال کرشن اڈوانی نے شروع کی تھی اور جس کا مرکز ایودھیا تھا اسے ہم نے ایودھیا میں ہی شکست سے دوچار کردیا، حیرت اور افسوس کی بات یہ ہیکہ سوراجیہ کو راہول گاندھی کے بیان میں سچائی اور حقیقت کی بجائے وارننگ سنائی دی، سوراجیہ نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا ہندو راہول کے بیان کو سن بھی رہے ہیں، سمجھ بھی رہے ہیں۔ سوراجیہ کے مطابق اس بیان سے راہول گاندھی کے ارادوںکا اندازہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں صدر کے خطبہ پر تحریک تشکر پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے راہول گاندھی نے ببانگ دہل کہا تھا کہ صرف مودی، امیت شاہ، راج ناتھ سنگھ، آر ایس ایس اور بی جے پی ہی ہندو نہیں ہے یا ہندوؤں کی نمائندگی کرنے والے نہیں ہیں، یہ صرف خود کو ہندو کہتے ہیں جو غلط ہے‘‘۔ اس بیان کے بعد گجرات کے احمد آباد میں کانگریس کے دفتر پر بی جے پی والوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جس پر وہ احمد آباد پہنچے اسی دفتر کے باہر ایک جلسہ منعقد کیا اور اس سے خطاب میں کہا کہ بی جے پی ایل کے اڈوانی کی قیادت میں چلائی گئی۔ رام مندر تحریک کو انڈیا اتحاد نے اس کے اپنے مرکز ایودھیا میں شکست سے دوچار کیا۔ مسٹر گاندھی دراصل حالیہ لوک سبھا انتخابات میں پارلیمانی حلقہ فیض آباد میں بی جے پی کی شرمناک شکست کی طرف اشارہ کررہے تھے۔ ایودھیا اسی حلقہ کے تحت آتا ہے جہاں سے انڈیا اتحاد کے امیدوار اودھیش پرساد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار للو سنگھ کو ووٹوں کی اکثریت سے ہرا کر بی جے پی۔ آر ایس ایس کو ایک ایک طرح سے شرمسار کردیا۔ مسٹر اودھیش پرساد ایک دلت ہیں۔ ہر کوئی اس بات پر حیران ہیکہ ہندوتوا کی سیاست کا مرکز سمجھے جانے والے ایودھیا میں ایک دلت امیدوار کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست نے اسے (بی جے پی) کو جارحانہ انداز ترک کرکے دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اہم بات یہ ہیکہ اپوزیشن نے 18 ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں اس کامیابی کا بھرپور استعمال کیا۔ بی جے پی قائدین پر طنز و طعنوں کے تیر برسا کر ان کی ہوا ڈھیلی کردی۔ اودھیش پرساد کی کامیابی کے حوالہ سے راہول گاندھی اور صدر سماج وادی پارٹی اکھلیش یادو نے بی جے پی کا بہت مضحکہ اڑایا۔ پہلی صف میں راہول گاندھی اور اکھلیش یادو کے درمیان اودھیش پرساد کو بیٹھایا گیا اور وقفہ وقفہ سے بی جے پی کو طنز و طعنوں کا نشانہ بناکر دونوں اودھیش پرساد سے ہاتھ ملاتے رہے۔ اودھیش پرساد کے چہرہ پر پھیلی مسکراہٹ بی جے پی ارکان پارلیمان کے دلوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ نیزہ کی طرح چبھ رہی ہے۔ ان کا نام اودھیش رام کے ہی مترادف ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ جب بی جے پی کو خود ایودھیا میں شکست ہوئی تب بی جے پی قائدین نے اپنی خفت مٹانے یہ کہہ دیا کہ اسے ایودھیا میں نہیں فیض آباد میں شکست ہوئی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ اترپردیش کی ریاستی حکومت نے 2018 میں ضلع فیض آباد کا نام تبدیل کرکے ایودھیا رکھ دیا تھا ایسے میں بی جے پی کو اپنی ہی پارٹی کے اس فیصلہ پر افسوس ہو رہا ہوگا۔ ایک بات ضرور ہیکہ بی جے پی خود اس بات کی خواہاں تھی کہ لوگ فیض آباد کا نام بھول جائیں اور اس کی بجائے ایودھیا کو اپنے ذہنوں میں تازہ رکھیں ایک اور ستم ظریفی یہ ہیکہ 2018 میں جو لوگ نام بدلنے کی مخالفت کررہے تھے وہ اب فیض آباد کی بجائے ایودھیا ہی کہہ رہے ہیں۔ اس کے برعکس بی جے پی قائدین اسے ایودھیا کی بجائے فیض آباد کہنے پر اصرار کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی فیض آباد میں ہار سکتی ہے۔ ایودھیا میں کیسے شکست ہوسکتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ بی جے پی کو فیض آباد یا ایودھیا سے شکست ہوچکی ہے اور اس کے قائدین و قیادت سب کے سب اس ہار کو لے کر کافی صدمہ میں ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایودھیا میں شکست کے بعد بھاجپا اور آر ایس ایس مشینری دونوں نے ایودھیا کہ ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کردی ہے حد تو یہ ہیکہ ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی اور کہا گیا ہیکہ وہ نمک حرام ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس والے یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ بی جے پی نے ایودھیا کے لوگوں کو ایک بڑا رام مندر دیا لیکن انہوںنے احسان فراموشی کی۔ جہاں تک راہول گاندھی کے بیان کا سوال ہے انہوں نے صرف یہی نہیں کہا کہ ہم نے ایودھیا میں رام مندر تحریک کو ہرادیا ہے بلکہ اس حلقہ میں بی جے پی کی شرمناک شکست کی وجوہات بھی بتائیں۔ دراصل ایودھیا میں یوگی حکومت ؍ انتظامیہ نے اس نئے مندر کی راہ ہموار کرنے کی خاطر لوگوں سے ان کی اراضیات چھین لی، ان کے مکانات اور دکانات کو منہدم کردیا جس کے نتیجہ میں عوام ناراض ہوگئے تھے۔ عوام نے بی جے پی کو شکست دے کر اس کی سزا دی۔ واضح رہے کہ نریندر مودی نے پارلیمانی انتخابات کے دوران مہم میں بار بار یہ کہتے ہوئے ہندوؤں کو کانگریس کے خلاف اکسانے کی کوشش کی کہ اگر بی جے پی کو کامیابی نہیں دلائے گئی تو پھر کانگریس رام مندر پر تالا لگوادے گی اور پھر سے بیچارے رام خیمہ میں آجائیں گے۔ اس طرح کی کذب بیانی کے باوجود لوگوں نے ایودھیا میں بی جے پی کو مسترد کردیا۔ ایک ایسے مقام سے جو بی جے پی کی مذہبی سیاست کا مرکز رہا ہے اس کے امیدوار کا شکست کھاجانا بہت کچھ ظاہر کرتا ہے ۔آپ کو یہاں ایک اہم بات بتانا چاہیں گے کہ جن لوگوں نے بی جے پی اور اس کی پہلی شکل جن سنگھ کے سیاسی سفر کو دیکھا ہے انہیں اچھی طرح معلوم ہیکہ بی جے پی اور جن سنگھ نے ہندوستانی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے جو کچھ تجربات کئے ان میں رام مندر کی تحریک سب سے اہم رہی جس نے ہندو عقیدہ کو ہندوتوا میں تبدیل کردیا۔ اس تحریک کے ذریعہ یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ ہندوؤں پر ظلم و جبر کیا گیا اس تحریک نے رام کے نام نہاد مقام پیدائش کو ہندو عقیدہ کا مرکز بنا دیا اور جو یہ مانتا ہے وہی ہندو ہوسکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں عدالتوں نے جو فیصلہ دیا خاص طور پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا وہ حقیقت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی سب سے بڑی کامیابی ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نریندر مودی کا عروج بھی اس تحریک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کارسیوک اور رام سیوک جیسی اصطلاحات بھی اس تحریک کی دین ہے۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کی نمبر 6 بوگی میں آگ لگی۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ آگ کیسے لگی لیکن اس آگ کے بہانے سال 2002 کے دوران گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان مسلم کش فسادات نے نریندر مودی کو نہ صرف اڈوانی کے ہندوتوا کا لیڈر بنا دیا بلکہ ان کا ہم پلہ بھی بنا دیا۔ رام جنم بھومی تحریک کی حقیقت یہی ہیکہ یہ کوئی مذہبی تحریک نہیں تھی بلکہ اسے ہم اکثریتی تحریک یا مسلم مخالف کا نام دے سکتے ہیں جو اس تحریک کی پشت پر سوار ہوکر ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب بی جے پی حکومت کے فیصلوں سے اچھی طرح ظاہر ہوتا ہے مثلاً مسلمانوں کے خلاف قوانین کی منظوری، مسلمانوں کے خلاف تشدد اور مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کے ذریعہ رام جنم بھومی تحریک کے مقصد کو اب بھی حاصل کیا جارہا ہے۔ راہول گاندھی کے مطابق رام جنم بھومی تحریک صرف رام کے نام کا استعمال کرتی ہے جبکہ اس کا رام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہندو مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ راہول گاندھی یہ بھی ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ ایودھیا کی مندر اور وہاں کے لوگوں کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ بی جے پی کے لئے سیاسی اور اراضیات کے تاجرین کیلئے زمینات سے کمائی کا ذریعہ ہے۔ بہرحال بی جے پی اسی ذریعہ پر تکیہ کئے ہوئے ہے لیکن راہول گاندھی اسے باربار یہ احساس دلا رہے ہیں کہ تم ہندوؤں کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ہم بھی ہندو ہیں لیکن ایسے ہندو جو کسی کو ڈراتے دھمکاتے نہیں زور زبردستی نہیں کرتے فرقہ پرستی کے ذریعہ انسانیت کو داغدار نہیں کرتے۔