-
ہندستان سے مسلمانوں کا صفایا کیسے کیا جائے؟
- سیاسی
- گھر
ہندستان سے مسلمانوں کا صفایا کیسے کیا جائے؟
2161
M.U.H
05/07/2018
1
0
از- عالم نقوی
یہ ہفت روزہ دلت وائس،بنگلور۱۶۔۳۱مئی ۱۹۹۹ کے اداریے کا عنوان ہے جو اُس کے ایڈیٹر وی ٹی راج شیکھر(پیدائش ۱۹۳۲) نے ۱۹ سال قبل لکھا تھا۔ ۱۹۸۱سے جاری دبے کچلے ہوئے محروم و مقہور ہندستانیوں کی طاقتور آواز شمار کیا جانے والا یہ ہفت روزہ میگزین ۲۰۱۱ میں بند ہو چکا ہے۔ اور اگرچہ وی ٹی راج شیکھر ابھی ماشا ء اللہ حیات ہیں، لیکن ان کا کوئی نیا مضمون عرصہ ء دراز سے، ہماری نظروں سے نہیں گزرا ہے۔ ہم ذیل میں اپنے ایک با ذوق و بیدار قاری بدیع الزماں خان کا ارسال کردہ، مذکورہ اداریے کا اردو ترجمہ مِن وَ عَن پیش کر رہے ہیں۔ اپنی رائے کا اظہار ہم بعد میں کریں گے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں نے اندلس (موجودہ اسپین )میں ۷۱۲ عیسوی سے ۱۴۹۲ ء تک سات سو اسی برس حکمرانی کی۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمان نہیں ہیں۔ تاہم اسپینی زندگی کے ہر پہلو پر اسلام کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ اسپینی زبان میں عربی کے متعدد الفاظ رائج ہیں۔ اس کی موسیقی میں ایک عربی لَے ہے۔ اس کی تہذیب و ثقافت پر یورپ سے زیادہ عرب اثر ات ہیں۔ اسپینی ناموں میں عربی لاحقہ ’اَل‘بکثرت ملتا ہے۔
فروری ۱۴۹۲ میں جب مسلم سیاسی قوت کے آخری گڑھ گریناڈا (قرطبہ ) کا سقوط ہوا مسلمانوں کی تعداد اسپین سے مسلسل گھٹی چلی گئی۔ اور ایک سو بیس برس بعد اس وقت اسپین سے ان کا صفایا ہوگیا جب ۱۶۱۲ ء میں مسلمانوں کے آخری جتھے نے بھی ہسپانیہ کو خیر باد کہہ دیا۔ اس طرح سولہ سو بارہ عیسوی میں اسپین سے اسلام پوری طرح اوجھل ہوگیا۔
لیکن ایک خاص قابل توجہ اور حیران کن بات یہ ہے کہ اسپین سے اسلام کی زوال پذیری کی اس مدت کے دوران کم و بیش پوری باقی ماندہ مہذب دنیا پر مسلمانوں ہی کی حکمرانی تھی !
عثمانی ترکوں نے ۱۵۵۳ ء میں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا تھا اور وہ (مشرقی یورپ کے )پورے جزیرہ نمائے بلقان (بوسنیا البانیہ اور یوگوسلاویہ وغیرہ ) پر حکومت کر رہے تھے۔ مصر پرمسلمانوں کے طاقتور ’غلام خاندان ‘کے بادشاہوں حکومت تھی۔ ایران عباسی حکمرانوں کے زیر نگین اپنے سیاسی عروج پر تھا۔ اور ہندستان پر مغلوں کی بادشاہت قائم تھی۔ لیکن (حیرت انگیز طور پر ) اسپین سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا! اور ان عظیم مسلم افواج میں سے کسی ایک نے بھی ہسپانوی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا !
یاد رہے کہ’ اسپین سے مسلمانوں کے اخراج‘ کا موضوع انیس سو تیس کے دہے سے بھارت کے ہندو نازیوں کے عمیق مطالعے کا مرکز رہا ہے۔ وہ اُسی وقت سے ہندستان میں اسپین کے منظر نامے کو دہرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اور (برائے نام اور غیر مؤثر ہی سہی لیکن ) مسلم قائدین نے بھی اسپینی ہتھکنڈوں سے بچاؤ کے امکانات پر غور کیا ہے۔
ہندوؤں کے (نام نہاد ) اونچے طبقوں کے لیے ہندستان کی سب سے بڑی اقلیت کے طور پر یہ مسلمان ایک بڑا سر درد بن چکے ہیں (جو ۱۹۸۱ کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا گیارہ اعشاریہ تین فی صد ہیں )۔ لیکن (المیہ یہ ہے کہ ) عصر حاضر کے مسلمان اسپین میں اسلام اور مسلمانوں کے زوال کی تاریخ اور ہندستان میں اُن کے ارد گرد رچائی جانے والی گہری سازشوں سےپوری طرح ناواقف ہیں۔
ہم اس تحریر کے ذریعے اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اہل فکر و دانش اس سلسلے میں مزید تحقیق کر سکیں۔
ہندستان ہی کی طرح اسپین میں بھی مسلمان تین طبقوں میں تقسیم تھے۔ (۱) اصل عربوں کی نسل (۲) عرب مردوں اور اسپینی ماؤں کی اولادوں پر مشتمل نسل اور (۳) عیسائیت کو ترک کر کے اسلام قبول کرنے والے ہسپانوی مسلمان۔
سقوط غرناطہ کے فوراً بعد اصل عربوں کی اکثریت نے اپنی جانوں کو بچانے کے لیے (جائداد کو بچانے کی نہیں، کیونکہ انہیں اپنی دولت ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں تھی ) اسپین چھوڑ کر تیونس اور مراکش جیسے عرب ملکوں کا رخ کیا۔ ان میں سے بھی سب اپنی جان نہیں بچا سکے بلکہ ان کی اکثریت راستوں میں عیسائی لشکروں کے حملوں میں ہلاک کر ڈالی گئی۔ ہسپانیہ میں باقی رہ جانے والے اصل عرب مسلمانوں کو، جنہوں نے اپنے نئے وطن کو نہ چھوڑ نے اور وہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا نئے عیسائی حاکموں نے ’’غیر ملکی اور اسپین کے غارت گر ‘‘ قرار دے دیا (جیسا کہ ہندستان میں بھی کہا جاتا ہے۔)
مسلمانوں کے اُس دوسرےگروہ نے، جن کے باپ مسلمان لیکن مائیں ہسپانوی النسل عیسائی تھیں کنگ فردی ننڈ کے اس وعدے پر اعتبار کرتےے ہوئے کہ ان کی حکومت میں سبھی شہریوں کو کامل مذہبی آزادی ہوگی، ہسپانیہ ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی برسوں کے دوران ان کی جانوں اور املاک پر عیسائی (دہشت گردوں )کے حملے ہوتے رہے لیکن (کنگ فردیننڈ کی نئی عیسائی حکومت نے) انہیں عارضی واقعات قرار دے کر نظر انداز کر دیا (اور مجرموں کو کبھی سزائیں نہیں دی گئیں ) یہی ہندستان میں ہوا کہ آزادی کے بعد ان سے مکمل مذہبی آزادی اور برابرکے انسانی حقوق کا وعدہ کیا گیا لیکن فرقہ وارانہ فسادات میں فسادیوں کھلی چھوٹ دی گئی اور ان کے خلاف کبھی کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی۔ اس کا موازنہ تقسیم ہند (۱۹۴۷) کے بعد ہندستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے کیا جا سکتا ہے۔
غرض یہ کہ اسپین میں اُن دوسرے زُمرے والے مسلمانوں کی جان و مال پر ہونے والے حملے کبھی کم نہیں ہوئے بلکہ قریب پچاس سال تک بے روک ٹوک جاری رہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج (۱۹۹۹میں) آزادی کے بیالیس سال بعد بھی ہندستان میں ہو رہے ہیں۔
ابتدائی برسوں میں مسلمانوں نے کچھ مزاحمت بھی کی۔ کہیں کہیں گلیوں میں کچھ جنگ و جدل کا سا سماں دیکھنے میں آیا لیکن بتدریج یہ مزاحمت دم توڑ گئی اور یک طرفہ حملوں میں مزید شدت آتی چلی گئی۔ اب تو پولیس نے بھی ہندستان میں مسلمانوں کے قتل عام کی چھوٹ دے رکھی ہے۔
ادھر اسپین میں جہاں منظم عیسائی گروپ مسلمانوں کو قتل کرتے پھر رہے تھے وہیں کنگ فردی ننڈ کی حکومت نے سرکاری نوکریوں (سروسز،خدمات) سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی اختیار کی اور درج ذیل اقدامات کیے :
پہلے تو نظم و نسق سے عربی زبان کو بہ یک بینی و دو گوش نکال باہر کیا گیا پھر مساجد میں قائم مدارس پر یہ پابندی عائد کردی گئی کہ وہ عمومی نصابی مضامین مثلاً سائنس، ریاضی، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ کی تعلیم نہیں دے سکتے وہ صرف مذہبی تعلیم تک خود کو محدود رکھیں۔ اور ملک کے عیسائیوں کو جو تاریخ پڑھائی جانے لگی اس میں پوری مسلم حکمرانی کو بربریت کا تاریک دور قرار دے دیا گیا اور اسپین کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری کو بیک قلم مسترد کردیا گیا۔ ہتھیار چھپا کر رکھنے اور خفیہ اجلاس کرنے کے الزامات کی آڑ میں ہسپانوی پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی معمول بن گئی۔ اصل عرب مسلمانوں کو عیسائیوں کے دشمن اور اسپین کے غارتگر کے بطور نمایا ں کیا جانے لگا۔
اور، عیسائی سے مسلمان ہوجانے والوں کو یہ باور کراتے ہوئے کہ ان کے اجداد کو جبراً مسلمان بنایا گیا تھا دوبارہ عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا جانے لگا اور کہا یہ جانے لگا کہ اب چونکہ نظام جبر ختم ہو چکا ہے اس لیے انہیں عیسائیت میں واپس آجانا چاہیے۔
اسلامی شریعت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور اسلامی طریقے سے ہونے والے نکاحوں کا سرکاری رجسٹریشن لازمی کر دیا گیا۔ اسپین میں اختیار کردہ ان سبھی حربوں پر ہندستان میں عرصہ دراز سے عمل در آمد جاری ہے۔
اس طرح سقوط ہسپانیہ کے بعد منظم طریقے سے مسلمانوں کو تضحیک و تذلیل، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اُن کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے اُن کے گھروں اور دوکانوں وغیرہ کو نذرِ آتش کیے جانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ مسلمانوں کے دوبارہ عیسائیت قبول کرنے کی جھوٹی تقریبات منعقد کی جا تی تھیں اور پھر پورے ہسپانیہ میں اس کی منظم تشہیر کی جاتی تھی۔ ہندستان میں بھی ہندو نازی تنظیمیں وہی سب کچھ کر رہی ہیں۔ (اور اب تو اکیسویں صدی کی اِس دوسری دہائی میں اُن کے لیے نام نہاد’ لَو جہاد ‘ اور ’گھر واپسی ‘ کی اصطلاحیں تک وضع کر لی گئی ہیں۔)
ہسپانوی مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے تو اپنے بچوں کو مساجد اور گھروں میں عربی (اور قرآن ) سکھا کر اپنے دین کو محفوظ رکھنے کا بے مزاحمت طریقہ کار اختیار کر رکھا تھا لیکن بتدریج وہ اپنی غیرت و حمیت کھوتے چلے گئے اور جب صرف سرکاری ایجنسیوں کے توسط ہی سے شادیاں کروانے کا حکم دیا گیا تو ابتدائی مرحلے میں تو مسلمانوں نے متوازی طور پر دونوں طریقوں سے شادیاں کرنے کا طریقہ اپنائے رکھا یعنی پہلے گھر پر شرعی طریقے سے نکاح کیا اور پھر سرکاری طریقے سے بھی شادی کی لیکن بتدریج گھروں میں خفیہ طور پر ہونے والی تقریبات نکاح ختم ہوتی گئیں اور صرف سرکاری شادی ہی باقی رہ گئی۔ اس کاایک سبب یہ بھی تھا کہ گھروں میں نکاح کی تقریب کو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا اور مسلمانوں کے لیے اس طرح چھپا کر نکاح کرنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔
اس دوران خود کو اَشرافیہ کہلانے والے امیر مسلمان،اسپین کے غریب مسلمانوں کو اسپین ہی میں بے یارو مددگار چھوڑ کر ترکی، مصر، تیونس اور مراکش وغیرہ جا کر آباد ہو گئے۔ کچھ اسی طرح کے حالات ہندستان میں بھی ہیں۔ متمول، انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان عملاً برہمنیت اختیار کر تے جا رہے ہیں اور نام نہاد اعلی ذات والے ہندوؤں کی کاربن کاپی بن کر رہ گئے ہیں۔ انہی کی جیسی شاندار کالونیوں میں رہتے ہیں جبکہ غریب مسلمان جو مجموعی مسلم آبادی کا ۹۵ فی صد ہیں ’باڑوں ‘ (اور جھونپڑ پٹیوں )میں رہتے ہیں اور دلتوں جیسی یا اُن سے بھی بد تر زندگی گزارتے ہیں۔ حالانکہ یہ اسلام کے نسبتاً بہتر پیرو ہیں لیکن متمول مسلمانوں نے انہیں بے سہارا چھوڑ رکھا ہے۔ اور اس طرح وہی مسلم مخالف فسادات میں سب سے زیہادہ مارے بھی جاتے ہیں۔
اسپین میں سقوط کے بعد کی ابتدائی نصف صدی میں نفرت کے جو بیج بوئے گئے تھےوہ فصل دوسرے نصف میں پوری طرح پک کر تیار ہو چکی تھی اور عیسائیوں کی منشا کے عین مطابق نتائج بر آمد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ یعنی۔ ۔وہاں مسلمانوں کی کوئی سیاسی قیادت نہیں رہی۔مسلمانوں کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں اور ان کی قیادت کرنے والی روشن ضمیر شخصیتیں بھی نہیں رہیں۔ بے بصر مذہبی رہنما سرکاری پروپیگنڈے اور حکومت کی اسلام دشمن کارروائیوں کا نہ کوئی توڑ کر سکے نہ ملت کی صحیح رہنمائی کا حق ادا کر سکے۔ وہاں ضرورت تھی صالح، طاقتور اور مسلح مسلم قیادت کی جو ناپید تھی۔ جو لوگ مصر اور مراکش وغیرہ سے مدد حاصل کرنے کی باتیں کرتے تھے، خود خوف زدہ مسلمان ہی سرکار دربار میں ان کی نشاندہی کر دیتے تھے اور وہ بے موت مارے جاتے تھے۔ وہاں فی الواقع ہسپانوی مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک احمد شاہ ابدالی(اور صلاح الدین ایوبی ) کی ضرورت تھی مگر اس وقت نہ کوئی ابدالی تھا نہ ایوبی !
ہسپانوی مسلمانوں کی اکثریت ملک کے عیسائی قومی دھارے میں شمولیت ہی کو نجات سمجھے بیٹھی تھی۔۔ اور جنہیں موقع ملا وہ باقی سب کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جہاں جن کو پناہ ملی چلے گئے۔ ۱۶۱۲ عیسوی میں اسپین چھوڑنے والا مسلمانوں کا آخری جتھہ ملاؤں پر مشتمل تھا۔
ہندستان میں بھی مسلمانوں کی قیادت اعلی ذاتوں والی ہندو پارٹیوں کا دم چھلہ بن کے رہ گئی ہے۔ لے دے کے صرف دینی قیادت نے مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کوباقی رکھنے کی اپنے امکان بھر کوشش کی ہے۔ فی الواقع اسپین کے تجربے کوعظیم تر توانائی اور استعداد کے ساتھ ہپندستان میں آزمایا جا رہا ہے۔ اردو کا ہندستان میں وہی حال ہوا ہے جو اسپین میں عربی کا ہوا تھا۔ مسلمان اپنے طور پر کسی نہ کسی مدارس کے ذریعے دینی تعلیم (اور کسی حد تک اردو کو بھی ) باقی رکھے ہوئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ متمول سیکولر مسلمان ، اپنے غریب بھائیوں سے با لعموم پوری طرح کنارہ کش ہیں۔ ہم نے تبلیغی جماعت کی بنگلور کانفرنس منعقدہ ۱۵ مارچ ۱۹۸۵ میں با لخصوص اس صورت حال کا مشاہدہ کیا تھا ۔ ان کا تبلیغی دورہ فی الواقع اپنے خول کے اندر پناہ لینے جیسا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تبلیغی جماعت کو منظم کرنے کی کسی بھی کوشش کو فرقہ پرستی پر محمول کیا جاتا ہے۔
ہر وہ مسلم تنظیم جو اعلیٰ ذاتوں کی حمایت نہیں کرتی مسلم قوم پرست قرار دے دی جاتی ہے۔ اس طرح عام مسلمانوں اور متمول مسلمانوں کے درمیان خلیج دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے قتل عام کی وارداتوں کو ایک فطری امر تصور کیا جانے لگا ہے۔
اگر کبھی کسی بین ا لا قوامی اسلامی پلیٹ فارم سے ہندستانی مسلمانوں کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش بھی ہوتی ہے تو اسے ہندستان کے داخلی امور میں بے جا اور ناقابل تسلیم بیرونی مداخلت قراردے کرمسترد کر دیا جاتا ہے۔
ہندستانی نصابی کتب سے مسلمانوں کی تاریخ کو نکالا جا رہا ہے اور ہندستان کے لیے جان دینے والے مسلمانوں کا بھی تذکرہ کرنے سے پرہیز کیا جانے لگا ہے۔ یہاں تک کہ ٹیپو سلطان جیسے عظیم ہندستانی شہید سپوت کے نام سے ملک کے نوجوانوں کی اکثریت ناواقف ہے جبکہ’ تاتیا ٹوپے ‘جنہوں نے ملک کے لیے نہیں، محض اپنے وظیفے کے لیے جنگ کی تھی، اور ’جھانسی کی رانی لکشمی بائی‘ جس نے اپنے متبنّٰی بیٹے کو سلطنت کی جا نشینی دلانے کے لیے جنگ کی تھی۔۔ اُن کے نام ہر ہندستانی کے ہونٹوں تک پہنچا دیے گئے ہیں !
سائنس، طب، موسیقی، فنون لطیفہ وغیرہ میں گراں قدر خدمات یا بہادری کے لیے کوئی بھی مسلمان ایوارڈ نہیں پاتا۔ حتی کہ حکمراں کانگریس پارٹی کے تنظیمی عہدے رکھتے ہوئے ملک کی آزادی کے لیے لڑنے اور جیل جانے والے مولانا آزاد، محمد رفیع قدوائی، سید محمود، اور ہمایوں کبیر جیسے عظیم مسلم رہنماؤں کے نام پر کوئی سڑک یا عمارت معنون نہیں کی جاتی جبکہ نصف درجن سے زائد نام نہاد اعلی ذات والے ہندو قائدین کے ناموں سے منسوب مقامات یا اداروں سے شاید ہی کوئی شہر بچا ہو۔ ‘‘
مترجم نے اس کے بعد دلت وائس کے ۱۹۸۵ میں لکھے گئے ایک اور اداریے کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا ہے جو ہندستان کی تاریخ کے بھگوا کرن کے بارے میں ہے جس کا سلسلہ کانگریس کے دور ہی میں شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ہم آج یہ کالم یہیں تمام کرتے ہیں اپنا تبصرہ اور تاریخ کی کتابوں کے بھگوا کرن والے اداریے کا ترجمہ، اگلے کالم کے لیے مؤخر کرتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)