ڈاکٹر ساجد خاکوانی
ہالوکاسٹ یہودیوں سے متعلق دوسری جنگ عظیم کے دوران سبق آموزواقعات کاایک مجموعہ ہے۔ یہودی وہ قوم ہیں جن کے بارے میں دنیا کے کسی کونے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ شیکسپئر جیسے ڈرامہ نگار نے بھی ’’شائلاک‘‘نامی سود خور اور ننگ انسانیت کردارکو یہودی مذہب کا پیراہن پہنایاہے۔ قرآن مجید نے یہودیوں پرجوسب سے بڑا الزام دھرا ہے کہ وہ قاتلین انبیاء علیھم السلام ہیں اور حد تو یہ کہ ان یہودیوں نے محسن انسانیتﷺ کے ارادہ قتل سے بھی دریغ نہ کیا۔ دنیاپرمسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دور اقتدارمیں یہودی بہت عافیت میں رہے اوریہ دور ختم ہوتے ہی انہوں نے اپنی سازشوں کانشانہ مسلمانوں کو ہی بنایااور فلسطینیوں کی کمرمیں چھرا جاگھونپا۔ دنیا کی ہرقوم ان کی پس پردہ ذہنیت سے خائف ہے اور انہیں اپنے سے دور رکھنا چاہتی ہے اسی لیے مغربی اقوام نے انہیں اپنے ہاں جگہ دینے کی بجائے مسلمانوں کے سر پر لا تھونپاہے۔ ان کی ذہنیت، انکی تاریخ، انکے عقائد اور انکا انجام اس قرآنی آیت کا مصداق ہیں کہ ’’ہم نے ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی ہے‘‘۔
’’ہولوکاست‘‘ یونانی الفاظ سے ماخوذایک مرکب ہے جس کا مطلب ’’مکمل طورپرنذرآتش کردینا‘‘ہے۔ اس سے مرادیہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ کم و بیش ساٹھ لاکھ یورپی بنی اسرائیلوں کودوسری جنگ عظیم کے دوران قتل کیا گیاجس کا الزام نسل کشی کے ضمن میں نازی جرمنوں پر لگایا جاتا ہے۔ کچھ محققین کے نزدیک ’’ہالوکاسٹ‘‘سے مراد صرف یہودی مقتولین نہیں ہیں بلکہ وہ تمام مقتولین جنگ عظیم ثانی ہیں جو اتفاقی قتل نہیں ہوئے بلکہ جنہیں نازیوں نے کسی پروگرام کے تحت باقائدہ سے قتل کیا ہے جن میں دوسری اقوام کے چیدہ چیدہ لوگ، مذہبی راہنما، جنگی قیدی، ہم جنسیت کے دوران معذورہونے والے مرداور دیگر عسکری و سیاسی مخالفین بھی شامل ہیں ۔ اس تعریف کے تحت ہولوکاسٹ کے مقتولین کی تعداد ایک کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ ان دونوں آرا میں کون سی قرین قیاس ہے ؟یہودی سچ بولتے ہیں یا دیگر محققین؟اور کیا یہودیوں نے دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اور خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے دوسرے مقتولین کو بھی اپنا تو نہیں بنا لیا؟ یہ اﷲ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ صہیونیوں کے مطابق جنگ عظیم دوم کے سالوں قبل سے یہودیوں کو سول سوسائٹی سے نابود کرنے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی تھیں ۔ 1930کی دھائی میں ایسے ایسے قوانین بنائے گئے کہ آہستہ آہستہ یہودیوں کے معاشی، معاشرتی اور قانونی حقوق ماند پڑنے لگے اور انہیں جرمن یورپی معاشرے میں تنہاکیاجانے لگا۔ ان قوانین کا مقصدیورپ کو غیریورپیوں سے پاک کرنا تھا۔ 1933میں قوانین کا ایک مجموعہ منظور کیا گیا جن کے مطابق اہم علاقے اور اہم مناصب یہودیوں سے خالی کرالیے گئے۔ چنانچہ زرعی فارموں میں یہودی مزارعین سے لے کر کچہریوں میں یہودی وکلاء اور یہودی ججوں تک کو باہر نکال دیا گیا اور انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا۔ سکولوں ، کالجوں اور اخبارات کے دفاتر اور مختلف انجمنوں سے بھی انہیں قوانین کے تحت یہودیوں کا اخراج عمل میں آیا۔ 1935میں ہٹلر نے ایک تقریر کے ذریعے یہودیوں کو رہے سہے تمام سول حقوق سے بھی محروم کردیا۔ یہودیوں کے خلاف نازیوں کایہ آغاز انجام تھا۔
اس مقصد کی خاطرایسے کیمپس بنائے گئے جہاں یہودیوں کو غلام بناکرلے جایا جاتا اور ان سے اتنی مشقت کرائی جاتی کہ وہ تھکا کر مار دیے جاتے یا پھر بیمار ہو کر اور بھوکے رہ رہ کر مار دیے جاتے۔ بچ جانے والوں پر طبی تجربات کر کر کے انہیں معذورکردیاجاتااور پھر انہیں موت کی آغوش میں پہنچادیاجاتا۔ اس سب کے باوجود بھی اگر کچھ لوگ بچ جاتے تو نازی جرمن انہیں گیس چیمبروں میں ڈال کرہلاک کر دیتے۔ یورپ کے بعض عجائب گھروں میں نازی جرمنوں کے گیس چیمبروں کی باقیات اب بھی زائرین کے لیے رکھی گئی ہیں ۔ جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن نازیوں نے ہالو کاسٹ کے لیے جو اصطلاح استعمال کی اس سے مراد ’’یہودیوں کے مسئلے کا آخری حل‘‘تھا، یہ اصطلاح جرمن زبان سے متعلق تھی۔ صہیونی تاریخ دانوں کے مطابق جرمنی کا ہر ادارہ یہودیوں کے اتنے بڑے قتل کے پروگرام میں ملوث تھا جرمن وزارت داخلہ اورمسیحی چرچس نے یہودیوں کا پیدائشی ریکارڈ دیا اور اس بات کی تعیین کی کہ کوکون کون سی بستی میں کون کون یہودی ہے، جرمن محکمہ ڈاک نے وہ خطوط متعلقہ حکام تک پہنچائے، جرمن وزارت خزانہ نے یہویوں کی جائدادوں کی تفصیلات مہیا کیں ، جرمن کاروباری اداروں نے یہودی تاجروں ، یہودی ملازموں اوریہودی مزدوروں کے بارے میں جامع معلومات فراہم کیں ، جرمن محکمہ مواصلات نے یہودیوں کو انکے ہلاکتی کیمپوں میں لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ اور ریل گاڑیاں مہیا کیں ۔ یہاں تک کہ جرمن جامعات تک نے یہودی طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کر دیا اور یہودی تعلیمیات واسرائیلی لٹریچرکونذرآتش کر دیا۔
یہودیوں کا قتل عام اس تمام علاقے میں ہواجو نازی جرمنوں کے زیرقبضہ تھے، جہاں اب کم و بیش 35 یورپی ممالک کی سلطنتیں قائم ہیں ۔ اس سے قبل یہاں یہودیوں کی بستیاں آباد تھیں اور 1939میں سات ملین یہودی نفوس یہاں ہنستے بستے گھروں میں آبادتھے، جن میں پانچ ملین کو یہاں قتل کردیاگیا۔ پولینڈ اورروس میں قتل ہونے والے یہودیوں کی تعداداس کے علاوہ ہے۔ دیگرافراد اگر اپنا مذہب یا رائے تبدیل کر لیتے تو انہیں قتل بچالیاجاتا تھا لیکن یہودیوں کے لیے یہ رعایت بھی نہیں تھی۔ یہودیوں کے قتل میں عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کے لیے بھی کوئی تخصیص نہیں تھی، قبائل کے قبائل کو قتل کردیاجاتااور انکے بچوں پر طبی تجربات کر کے توانہیں بھی موت کی وادی میں دھکیل دیاجاتا۔ اس دوران فری میسنریزکو بھی گرفتارکر کر کے ہلاکتی کیمپوں میں بھیجاگیا۔ ہٹلرکاپختہ نظریہ تھا کہ فری میسنریزبھی یہودیوں میں سے ہیں چنانچہ ان کیمپوں میں انہیں زبردستی سرخ کپڑے پہنائے جاتے اور ایک لاکھ سے دولاکھ تک کی تعدادمیں انہیں ان ہلاکتی کیمپوں میں نازیوں نے قتل کیا۔ نازی جرمن جن جن علاقوں کو فتح کرتے وہاں وہاں سے یہودیوں کو ختم کرتے جاتے یہاں تک کہ جب پولینڈ کو فتح کیاتو اتنی بڑی تعداد کے پول یہودیوں کو قتل کرنا آسان نہ تھاچنانچہ طویل غوروحوض کے بعد کم وقت اور کم لاگت میں قتل کرنے کے لیے زہریلی گیس استعمال کی گئی۔ پولینڈ کی سرزمین قتل یہود کی بہت بڑی امین ہے۔ چھ ہلاکتی کیمپوں سے شروع ہونے والاہولوکاسٹ کے پولینڈ سمیت مقبوضہ ممالک میں پندرہ ہزارسے زیادہ کیمپ بن گئے۔ ان کیمپوں میں یہود سے بدترین مشقت لی جاتی اور پھر ضرورت ختم ہونے پر انہیں قتل کردیاجاتاجبکہ بے شمار یہود دوران مشقت ہی دم توڑ دیتے۔ شروع میں یہ کیمپس شہروں سے باہر تھے لیکن ٹرانسپورٹ کے وسیع اخراجات کے باعث بعد میں ان کیمپوں کویہودی آبادیوں کے قریب ہی منتقل کردیاگیا۔
اس سے شدید ترحالات روس کے مفتوحہ علاقوں میں بھی پیش آئے۔ یہاں یہودیوں کو زندہ بھی جلایا گیااور جب گولی مارنے اور زندہ جلانے کا سامان میسر نہ آیا یا اسے مہیاکرنا مہنگاتصور کرلیاگیاتو لاکھوں یہودیوں کو روس کے شدیدترین ٹھنڈے علاقوں میں بے آب و گیاہ تنہاچھوڑ دیاگیااور یہ لوگ یخ بستہ اورجان لیواٹھنڈی ہواؤں سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس سب کے باوجود1941ء کے آخر تک روس کے صرف 15%یہودی مارے گئے تھے، اس رفتار کو تیزکرنے کے لیے ایک بار پھر وسیع پیمانے پر زہریلی گیسوں کا تجربہ کیا گیااور ظاہر ہے یہ تجربہ شہری علاقوں میں ممکن نہ تھا چنانچہ اس کے لیے شہر سے باہر بہت بڑی بڑی جگہیں بنائی گئیں جہاں یہودی نسل کو نیست و نابود کرنے کا عمل سالوں تک دہرایاجاتا رہا۔ یہودیوں نے اس سارے ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی بلند کی لیکن بے سود۔ کچھ کیمپوں میں نوجوان یہودیوں نے ہتھیارتک بھی اٹھائے لیکن ظاہر ہے نازی جرمن اس وقت پوری دنیاسے کنٹرول نہ ہونے والاطاقت کاطوفان تھاتو یہود اس سے کیسے جان چھڑاسکتے تھے۔ پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیاکے کسی کونے سے اس وقت اورآج بھی یہودیوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ اس قوم نے جس برتن میں کھایا اسی میں سوراخ کیا، ہرقوم کو ڈسنے کی کوشش کی، ہرگروہ کو بلیک میل کیا، دولت کی خاطرانسانیت کو داؤ پر لگایا۔ دوسری جنگ عظیم کے اس المناک پہلو کا دوسرا تاریک ترین رخ یہ ہے کہ جنگ عظیم کے دونوں متحارب فریقوں کو سرمایافراہم کرنے والی بہت بڑی فرم یہودیوں کی ہی ملکیت تھی۔ کیااپنے ہم مذہب بلکہ ہم نسل رشتہ داروں پر اتنا بے پناہ ظلم ہونے دیکھ کر وہ سرمائے کی فراہمی بند نہیں کر سکتے تھے؟
قریب تھا کہ یہودیوں کی نسل ہی اس دنیا سے اس کرہ ارض سے نابود ہو جاتی لیکن اﷲ تعالی نے قتل انبیاء علیھم السلام، ناشکری، ذلت و مسکنت اورعبرت کے اس نشان کو قیامت تک باقی رکھناہے۔ شاید اسی حکمت کے تحت مشیت ایزدی نے انہیں فلسطین میں عارضی جگہ دی تاکہ ان کی نسل قیامت تک باقی رہے۔ اگر ان میں تھوڑی سی عقل ہوتی تواس جگہ کو غنیمت سمجھ کر امن اور سکون سے رہ لیتے، فلسطینیوں نے انہیں کھاتو نہیں جانا تھالیکن تف ہے ان کی دانش پر کہ اپنے میزبانوں پر آج بھی انہوں نے عرصہ حیات تنگ کر رکھاہے۔ ہم چڑھتے ہوئے سورج کے پیچھے اس دن کو ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ سرزمین فلسطین ایک بار پھر اپنے حقیقی وارثوں کے قبضہ قدرت میں ہو گی اور یہوداپنی بداعمالیوں کے باعث ایک بار پھردنیامیں ذلت و مسکنت کانشان عبرت ہوں گے انشاء اﷲ تعالی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)