ڈاکٹر ساجد خاکوانی
یہودیوں کاایک عرصے سے یہ خواب ہے کہ بیت المقدس کواسرائیل جیسی ناپاک ریاست کادارالحکومت بنادیاجائے۔ لیکن فلسطینی مسلمانوں کا جذبہ جہاداس خواب کی تعبیر میں ہمیشہ کوہ گراں ثابت ہوا۔ پہلی جنگ عظیم دسمبر2017کے بعد انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کویہاں آبادکاری کی اجازت عام دے دی تھی۔ گزشتہ دوہزارسالوں سے پوری دنیامیں بکھرے ہوئے جلاوطن یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھااور جوق درجوق فلسطین میں وارد ہونے لگے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعدجب گورے سامراج کے اعصاب شل ہوگئے اوردنیاسنبھالنااس کے لیے ممکن نہ رہاتواس نے مشرق کی طرف سے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے یقینی انقلاب کارواستہ روکنے کے لیے عین قلب اسلام میں صہیونیت کی آکاس بیل پیوست کردی اورنومبر1947 میں فلسطین جیسی مقدس سرزمین انبیاء علیھم السلام کو دولخت کرکے بندربانٹ کے ذریعے مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا۔ یہودیوں نے آؤدیکھانہ تاؤ14 مئی 1948 کو بلا مزید تاخیر کے اسرائیلی ریاست کے قیام کااعلان کردیا۔ مسلمانوں کے جذبہ جہادنے انگڑائی لی اور پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ مسلمانوں نے اگرچہ میدان مارنے کی جان توڑ کوشش کی لیکن غلامی زدہ عرب شیوخ کی قیادت نے مات کھائی اور78%فلسطینی علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلاگیالیکن پھربھی بیت المقدس جیسامحترم شہراردن کے قبضے میں ہی رہا۔ جون1967ء کی اگلی عرب اسرائیل جنگ میں یہ مقدس شہر بھی سیکولرعرب حکمرانوں کے نیشنل ازم اور کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اس وقت بیت المقدس کامسئلہ عرب اسرائیل مسائل میں سرفہرست ہے۔ تمام عالمی قوانین، قراردادیں اوربین الاقوامی برادری کامتفقہ فیصلہ ہے کہ بیت المقدس کاشہر فلسطین کی ریاست کا ہی لازمی حصہ ہے اور اسرائیل کوکوئی حق نہیں کہ اس شہر کواپنی ریاست میں ضم کردے۔
اسرائیل نے انتہائی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کاثبوت دیتے ہوئے 1980ء میں ’’اسرائیلی قانون یروشم‘‘کے نام سے ایک قانون مرتب کیاجس کے تحت بیت المقدس کوبلاشرکت غیرے مملکت اسرائیل کادارالحکومت مقررکردیاگیا۔ اورتمام عالمی قوانین کے عین برخلاف اوربزورقوت اسرائیل نے اپنے تمام وفاقی دفاتر تل ابیب سے بیت المقدس میں منتقل کردینے کافیصلہ کرلیا۔ چنانچہ اسرائیل نے تمام عالمی و بین الاقوامی دباؤ کو پاؤں کی ٹھوکرپررکھتے ہوئے اسرائیلی پارلیمان، ایوان وزیراظم، ایوان صدر اور عدالت عظمی کے دفاتر دھونس اوردھاندلی سے بیت المقدس میں منتقل کردیے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل نے صرف اسی پرہی بس نہیں کیابلکہ قومی نوعیت کے انتہائی اہم غیرسرکاری ادارے بھی بیت المقدس میں بھیج دیے گئے ہیں جن میں ’’عبرانی یونیورسٹی‘‘، ’’اسرائیلی عجائب گھر‘‘اور ’’قومی کتب خانہ‘‘جیسے ادارے بھی شامل ہیں ۔ لیکن پوری دنیاکے کسی ملک نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس میں کسی ملک کاسفارت خانہ نہیں ہے اور تمام سفارت خانے ہنوز تل ابیب میں ہی قائم ہیں۔ پوری دنیامیں اس بات پراتفاق پایاجاتاہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ جمارکھاہے حالانکہ اسرائیل نے پورے فلسطین پر ہی ناجائز قبضہ کررکھاہے۔ گھرکاایک حصہ کرائے پراٹھادیا جائے اور کچھ عرصہ بعد کرایہ دار مالک بن بیٹھے اور مالک مکان کو جوتے لگاکرباہرنکالناچاہے تودنیاکاکوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن بہرحال بیت المقدس کی حد تک توتمام عالم یک زبان ہے کہ یہ شہر بالاتفاق ریاست فلسطین کاحصہ ہے اور اسرائیل کی حکومت کے کہنے کے باوجود کسی ملک نے اپناسفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں کیا۔
بدھ 6دسمبر2017کوامریکی حکومت کے اعلی عہدیداروں نے کہاہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلینے کافیصلہ کرلیاہے۔ جس کے بعد تل ابیب میں امریکی سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل کردیاجائے گا۔ اس کے چندگھنٹوں بعد ہی امریکی صدر نے اپنے اس فیصلے کااعلان بھی کردیا۔ اس طرح دنیاکی واحدسپرپاورکی طرف سے بیت المقدس کے اسرائیلی وفاقی دارالحکومت ہونے کی حیثیت مصدقہ ہوجائے گی۔ امریکی اعلی عہدیداروں نے یہ بھی کہاکہ امریکی صدر بیت المقدس پر اسرئیلی قبضہ کواوراس شہرکواسرائیلی داراحکومت کے طورپرتسلیم کرتے ہیں ۔ ان عہدیداروں کے مطابق جلدیابدیرجیسے ہی امریکی وزارت خزانہ نے رقومات فراہم کیں اوربیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی تعمیرمکمل ہوئی توتمام دفاتر منتقل کردیے جائیں گے۔ ان میں سے ایک عہدیدارنے کہاکہ امریکی صدر کے مطابق اگرچہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے لیکن پھربھی بیت المقدس کے اسرائیلی دارالحکومت ہونے کی حیثیت سے انکارکر کے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے۔ 1995ء میں بھی امریکی کانگریس نے ملکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن اس وقت کے امریکی صدر نے قومی سلامتی کے پیش نظر اس منصوبے کو چھ ماہ تک موخر کرنے کاحکم صادر کردیاتھا۔ اگرامریکی سفارت خانہ بیت المقدس میں قائم ہواتوامریکہ دنیاکاپہلا ملک ہوگا، کیونکہ اب تک کسی ایک ملک کابھی سفارت خانہ یہاں قائم نہیں کیاگیا۔ امریکی حکومت کے ان ارادوں سے امریکہ کہ اسلام دشمنی اظہرمن الشمس ہوگئی ہے، اگرچہ امریکی حکمرانوں کامسلمان دشمن رویہ پہلے بھی کوئی ڈھکاچھپانہیں تھالیکن اب توکم از کم ان حکمرانوں کو بھی دوست اوردشمن کی تمیزسمجھ آجانی چاہیے جو ہرآن امریکہ پر صدقے واری جاتے ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں یہ بھی کہاہے کہ اس طرح وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا، مسلمانوں کی کمر میں چھراگھونپ کر امریکہ بہادر فریقین کو راضی کر کے امن قائم کرنے کادعوی کرتاہے۔ ایک عام دیکھنے والا بھی بخوبی اندازہ لگاسکتاہے کہ بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے کااقدام خود امریکہ کے ان تمام منصوبوں اور اقدامات پر پانی پھیردے گاجواب تک اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہو چکے ہیں یازورزبردستی سے کرائے جاچکے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ نادان دوستی کاکرداراداکیاہے اوراس طرح اسرائیل دنیابھرمیں مزید تنہائی کاشکار ہوکررہ جائے گا۔ اسرائیل فلسطین امن معاہدوں کے بعد اسرائیل کے خلاف نفرتوں پر اگر کچھ گرد بیٹھ چکی تھی تو بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت مان لینے سے وہ نفرتیں پھرتازہ ہوجائیں گی اورساری دنیاکی طرف سے اسرائیل پرایک بار پھر تندوتیز تنقید کے نشتر چلنے لگیں گے۔
امریکی حکومت کے اس اعلان پرفلسطینی مسلمانوں کا فوری ردعمل سامنے آیا اورالجزیرہ ٹی وی کے مطابق غزہ کی پٹی میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اورانہوں نے اس متوقع امریکی فیصلے کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ فلسطینی قیادت نے اس بارے میں تین روزہ احتجاج کااعلان بھی کر دیاہے۔ فلسطینی قائد جناب اسمئیل ہانیہ نے امریکی فیصلے کومسترد کردیاہے اور اسے کھلا تضاد قراردیاہے، انہوں نے آئیندہ جمعۃ المبارک کو یوم مذمت منانے کابھی اعلان کیاہے۔ اردن کے شاہ عبداﷲنے کہاہے اس امریکی فیصلے سے خطے کے امن کو شدید نقصان کااندیشہ ہے۔ شاہ عبداﷲنے یہ بھی کہاکہ اس فیصلے سے عرب اسرائیل امن منصوبے کوبھی نقصان پہنچے گا۔ اردن کے شاہ عبداﷲنے فلسطینی صدرمحمودعباس سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے اور مل کر اس معاملے سے نبردآزماہونے کاکہاہے۔ سعودی عرب جیساملک بھی اس معاملے میں امریکہ کے خلاف ہے اور سعودی حکومت نے کہاہے کہ یہ فیصلہ غیرمنصفانہ اور غیرذمہ دارانہ ہے۔ ایران، چین اور ترکی نے بھی اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ ترکی کے وزیراعظم طیب اردغان نے کہاہے امریکہ نے خطے کوایک بار پھر جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیاہے۔ برطانوی وزیراعظم نے بھی اس امریکی اقدام سے اتفاق نہیں کیااورفرانس کے صدراور جرمن چانسلرنے بھی کہاہے ان کے ممالک اس امریکی اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس فیصلے کو عظیم سانحہ قراردے دیاہے۔ امریکہ کے اس فیصلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کااجلاس جمعہ کو متوقع ہے جب کہ عرب یونین ہفتہ کو اپنی بیٹھک کرنے کاسوچ رہی ہے۔
شایدامریکہ کو اسرائیل کے تاریخی مدت زوال میں تاخیر برداشت نہیں ہے۔ اسی لیے امریکی قیادت نے بہت دیرسے اسرائیلی انجام دیکھنے کی بجائے اسے وقت میں جلدی کے پیمانوں سے دیکھناچاہاہے۔ بیت المقدس کے ساتھ مسلمانوں سمیت مسیحیوں کی مذہبی وابستگی اظہرمن الشمس ہے۔ اس مقدس سرزمین کے بارے میں یہودیوں کے عزائم کھل کرسامنے آچکے ہیں۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیرجدید کے بہانے یہودی بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کابس نہیں چلتاکہ حضرت عیسی علیہ السلام اور دوراسلامی کی تمام باقیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔ یہودی جس طرح امت مسلمہ کے دشمن ہیں اسی طرح کل انسانیت بھی ان کے شراورفسادسے محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیل کے قیام کے لیے دوناگزیرعالمی جنگیں کرانے والی تحریک صہیونیت نے اس زمین کوظلم سے بھردیاہواہے۔ چنانچہ امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر کے عالمی مذہنی وسیاسی تناؤکی سیٹی بجادی ہے۔ ابھی تک بھی اسرائیل کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جانے والے طوفان کو بہت زیادہ مصنوعی سہاروں نے روک رکھاتھا۔ اب کی بارجو آندھی چلے گی تویقینی طورپروہ ان مصنوعی سہاروں کو ساتھ بہالے جائے گی۔ اوراسرائیل کے بعد کامشرق وسطی بلاشبہ اسلامی قرون اولی کی تاریخ تازہ کردینے والا ایمان افروزاجالاہوگاجس کے سایہ عاطفت میں کل انسانیت امن و سکون کا سانس لے گی، انشااﷲتعالی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)