راحت علی صدیقی قاسمی
برما میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات کی طویل داستان ہے، درد تکلیف مصائب کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے، سولہوی صدی کے نصف میں قربانی کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، مسلمانوں کے جذبات کو بر انگیختہ کیا گیا، مذہبی فریضہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور ان کے خون سے اپنی خوشی کا سامان مہیا کیا گیا، 1752 میں پھر اس طرح کے واقعات رونما ہوئے، مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ 1782عیسوی میں تاریخ کے سینے پر وہ ہولناک مناظر رقم ہوئے، جنہیں تاریخ کے جسم کا بدنما داغ قرار دیا جائے، تو بیجا نا ہوگا۔ وہ قوم جو محبت کی پیاممبر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، جانوروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہے، چیونٹی کے قتل کو بھی باعث گناہ خیال کرتی ہے، اس قوم کے بادشاہ بوددھاپہ نے مسلمانوں کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا، انکار کرنے پر انہیں قتل کرڈالا، علماء قتل کئے گئے، بچے بوڑھے جوان تہ تیغ کردئے گئے، جانوروں کی بلی روکنے والوں نے انسانوں کے خون سے اپنی تلواروں کی پیاس بجھائی، 1938 میں انگریزوں کے خلاف مقابلہ کرتے ہوئے، ان لوگوں نے مسلمانوں کے خون کی ارزانی کا ثبوت پیش کیا اور انہیں ڈھال بنا کر استعمال کیا ان کے اوپر گولیاں برسی، بہت سے مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔
1962سے 1982 تک ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا، 1997سے، 2001 تک مسلمانوں پر ظلم وجور کے مسلسل واقعات ہیں، مسلمانوں پر عرصئہ حیات تنگ کیا گیا، ان کے حقوق چھینے گئے، ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا، ان کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا گیا، کپڑے اتار دئے گئے کھالیں نوچ لی گئیں، سر دھڑھ سے جدا کردئے گئے، بچے نیزوں پر اچھالے گئے، 2011 برما میں جمہوریت قائم ہوئی اور آن سانگ سوچی کی جہد مسلسل کامیاب ہوئئی، قلب پر یہ احساس وارد ہوا کہ مسلمانوں پر ہورہے مظالم ختم ہوجائیں گے، ان پر ہورہی سختیاں آسانیوں میں بدل جائیں گی، انہیں کھلی فضاء میں سانس لینے کا موقع فراہم ہوگا، ان کی خوشیاں لوٹ آئینگی، مگر یہ خیال خام ثابت ہوا، اور 2012میں ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کیا، اسلام سے دشمنی رکھنے والے بغض و عناد حسد و کینہ رکھنے والے اس عمل کو برداشت نہ کرسکے، اور اس کی مخالفت کے لئے کمربستہ ہوگئے، پھر سے مسلمانوں کے خون سے برما کی گلیاں رنگین کی گیئں، جمہوریت کی عزت تار تار کی گئی، انسانیت کو شرمسار کیا گیا، اقوام متحدہ کے مطابق حالات اتنے سنگین تھے کہ 80 ہزار مسلمانوں کو وطن عزیز چھوڑنا پڑا، ہجرت پر مجبور ہونا پڑا، اور یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ 2013 میں پھر سے بقرعید مین جانور ذبح کرنے پر پابندی لگائی گئی، جانوروں کی حفاظت کا ڈھونگ رچ کر انسانوں کو قتل کردیا گیا، 50سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے، اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی، امن کے دعوی داروں کو سانپ سونگ گیا، محبت کا راگ الاپنے والے گونگے ہوگئے، انسانیت کا نعرہ بلند کرنے تماشاء بنے رہے، وحشت و دہشت کا کھیل جاری رہا، آج بھی جاری ہے لاکھوں مسلمان ہجرت کرچکے ہیں، 40 ہزار ہندوستان میں ہیں، لاکھوں کی تعداد ترکی اور پاکستان میں ہے، بنگلہ دیش میں ہیں، بنگلہ دیش کی وزیر آعظم ان کو نکالنے لئے بے چین ہیں، شاید انہیں انسانی جانوں کی قیمت کا اندازہ نہیں ہے، یا وہ برما کہ حالات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ انہیں برمی مسلمان کی موجودگی کھائے جارہی ہے، اور وہ انہیں پل بھر میں باہر نکالنا چاہتی ہیں، برمی مسلمانوں سے بنگلہ دیش کو صاف کردینا چاہتی ہے، ہندوستان کے وزیر آعظم بھی یہی چاہتے ہیں، حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ انسانوں کی حفاظت دنیا کے تمام قوانین کے مطابق اولین فریضہ ہے، پھر ساری کائنات کیا کررہی ہے ؟ کیوں برمی مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت نہیں کی جارہی ہے ؟ کیا وہ صرف ترکی ایران اور پاکستان ہی کی ذمہ داری ہے ؟ کیا برمی مسلمانوں نے وہاں قبضہ کیا ہے ؟ ان سوالوں کے جوابات عیاں کرتے ہیں، کہ یہ جنگ اسلام مخالف ہے، مذہبی عناد کی بناء پر مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے، ورنہ تاریخ گواہ اراکان 1784تک مسلمانوں کا ملک تھا، وہ اس میں آزادی سے رہتے تھے، اپنے اعتقاد کے مطابق زندگی گذارتے تھے، پھر انہیں غلام بنا لیا گیا، اور وہ ایک ظالم قوم کے عتاب کا شکار ہوگئے، اس حقیقت کی بنیاد پر سمجھا جاسکتا ہے قابض کون ہے ؟ روہنگیاں مسلمانوں کونکالنے کا دعوی کیا جارہا ہے، لیکن اعداد و شمار بیان کرتے ہیں روہنگیاں قوم پوری دنیا میں صرف 14 لاکھ 20 ہزار ہے، اور برما میں صرف 8 لاکھ جب کہ برما میں مسلمانوں کی تعداد 20 لاکھ ہے، اور برما کی اکثر آبادی ان کے خون کی پیاسی ہے، روہنگیا کے نام پر تمام مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے ؟
دوسرا سوال روہنگیاں کو قتل کرنے کا کیا مطلب ؟کس جرم کے بدلہ میں انہیں سزائے موت دی جارہی ہے، اور وہ بھی اتنے بھیانک انداز سے، انہیں ہجرت بھی نہیں کرنے دی جارہی ہے، آخر کیوں ؟ ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے، اقوام متحدہ کیا کررہا ہے ؟ سلامتی کونسل نے کیا کیا ؟کیا قراداد منظور ہوئی، کس نے اس پر عمل کیا ؟ان سوالات کے ضمن چند حقائق سے روبرو کرانا ضروری سمجھتا ہوں، دسری جنگ عظیم کی ہولناک تباہی اور خوفناک مناظر کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پوری دینا کو محبت کے رنگ میں رنگا جائے، لوگوں کی جانوں اور ان کے حقوق کی حفاظت کے پختہ انتظام کئے جائیں، معصوم بے گناہ افراد کا قتل نہ کیا جائے، ان کے حقوق تلف نہ ہوں۔
ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے، اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، 25 اپریل 1945سے 26 جون 1945 تک امریکہ میں پچاس ملکوں کی کانفرنس منعقد ہوء 24اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کی پیدائش ہوئی، لوگوں حفاظت ملکوں کے آپسی تعلقات اس تنظیم کا اولیں فریضہ تھا، اور حقوق کا دعویدار کون تھا، یہ سنیں گے تو چونک اٹھیں گے، دوسری جنگ عظیم کی تباہی کا ہیرو امریکہ، اس تنظیم کا نام رکھنے والا فرینکلن ڈلانوروزولیٹ دوسری جنگ عظیم کا قائد جاپان میں انسانیت کا قہر برپا کرنے والا، آج وہ انسانیت کا ہمدر بن رہا تھا، جس نے اپنے ملک میں رہنے والے ایک لاکھ بیس ہزار جاپانیوں کو گرفتار کرایا تھا، حالانکہ اس کی خفیہ ایجنسیاں اور محققین کا طبقہ انہیں خطرہ نہیں گردان رہا تھا، جس نے زندہ انسانوں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا تھا، شہر کو کھنڈر میں تبدیل کردیا تھا، لوگ اس کی اطاعت کے لئے تیار ہوگئے حالانکہ ابھی تباہی کے نشانات موجود تھے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے، یہ اطاعت تھی یا مجبوری خدا جانے، سب سے پہلے صدر کے طور پر ناروے کے بادشاہ کو اس تنظیم کا صدر بنایا گیا، حالانکہ ناروے میں آئینی ملوکیت تھی، اور بادشاہ عیسائی کیتھولک تھا، یہودیوں اور کیتھولکس کا پیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اسی شخص کی صدارت میں تنظیم نے 14مء 1948میں اسرائیل کو ملک تسلیم کرلیا، فلسطین پر ہورہے مظالم سے آنکھیں موند لیں قبضہ کرنے والوں کو مالک قرار دے دیا، اسی دوران 4جنوری 1948کو برما آزاد ہوا، راکھین الگ ملک تھا، تاریخ حقائق عیاں کرتے ہیں، اور آزادی میسر آنے کے بعد راکھین کے باشندہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے، لیکن حالات نے ان کی چاہت کو پورا نہیں ہونے دیا، اقوام متحدہ کہاں تھا ؟کیوں ان لوگوں کا ساتھ نہیں دیا گیا ؟ اقوام متحدہ کو آخر کس لئے بنایا گیا تھا ؟ کیا یہ عالمی مسئلہ نہیں تھا ؟
کیا اس کے حل کی ضرورت نہیں تھی ؟جب کہ مسلمانوں کے حقوق پر آزادی سے قبل بھی ڈاکے ڈالے جارہے تھے، آگے بڑھئے 1961تا 1982 مسلمانوں نے برما میں سخت تریں حالات دیکھے، اور 1961سے 1971تک اقوام متحدہ کا صدر اوتھان نامی شخص برما کا باشندہ تھے، جہاں انسانی حقوق کا جنازہ نکل رہا ہے لوگوں کی آزادی سلب کرلی گئی، وہاں سے آپ پوری دنیا کو حقوق کی حفاظت کا پیغام دینے کا ڈھونڈ کیسے کرسکتے ہیں ؟ کیا اقوام متحدہ زور نہیں ڈال سکتا تھا ؟ طاقت کا مظاہرہ نہیں کر سکتا تھا ؟ انسانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے سختی نہیں برت سکتا تھا ؟اوتھان کو عہدہ سے برخواست نہیں کرسکتا تھا ؟ اگر یہ سب نہیں تو اقوام متحدہ کا کیا فائدہ ہے ؟کتنے لوگ ہیں جنہیں وہ ظلم سے بچا سکا ہے ؟ یا پھر اس کا مقصد چند لوگوں کی مرضی کو قانون کے دائرے میں شامل کرنا ہے، اور مظلوموں سے بے توجہی برتنا ہے، جیسا کہ عیاں ہے، اور ہم اس سے امید لگائے بیٹھے ہیں، اقوام متحدہ سے امید کرنے کے بجائے تمام مسلم ممالک کو متحد ہو کر برمی مسلمانوں کی حفاظت کی کوشش کرنی چاہئے ۔