-
بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی فسادات کے ۲۹ سال!
- سیاسی
- گھر
بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی فسادات کے ۲۹ سال!
625
M.U.H
06/12/2021
0
0
تحریر: شکیل رشید
ٹھیک ۲۹ سال پہلے بھی ایک ۶،دسمبر آیا تھا ۔ کل پیر کا دن ہے لیکن ۲۹ سال پہلےکے ۶، دسمبر کو اتوار کا دن تھا ۔ وہ دن میرے حافظے میں آج بھی یوں تازہ ہے جیسے یہ بس ابھی کی بات ہو ۔ اس کے باوجود کہ ان دنوں نہ آج کی طرح ٹی وی خبروں کا عام چلن تھا ، نہ ہی بہت سارے نیوز چینل تھے ، اور نہ آج کی طرح نیٹ اور اسمارٹ فونوں کی سہولت ، لیکن یہ خبر شام تک مل گئی تھی کہ اتر پردیش ( یو پی ) کے ایک چھوٹے سے شہر ایودھیا میں بابری مسجد شہید کر دی گئی ہے ۔ میں ۷،دسمبر کے روز ، شہر کے حالات سے بےخبر اپنے دفتر جانے کے لیے نکلا ، راستوں پر خلافِ معمول سناٹا تھا ۔ سیوڑی ریلوے اسٹیشن پر میں کچھ دیر لوکل ٹرین کے انٹظار میں کھڑا رہا ، پتہ چلا کہ دیر سے کوئی ٹرین نہیں آئی ہے ۔ میں بس پکڑنے کے لیے اسٹیشن سے باہر نکل آیا ، لیکن بسیں بھی سڑکوں سے غائب تھیں ۔ میں نے من ہی من میں کہا کہ پیدل ہی کیوں نہ دفتر چلیں ۔ اورپیدل چل پڑا ۔ سیوڑی سے پریل ، وہاں سے لال باغ اور بائیکلہ ہوتے ہوئے جب جے جے اسپتال کے کچھ قریب پہنچا تو دیکھا سڑکوں پر بے شمار بوتلیں اور ان کے ٹوٹے ہوئے کانچ ، پتھر اور چپلیں بکھری پڑیں ہیں اور پولیس کی ایک بھاری جمیعت تعینات ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کی خبر کے پھیلنے کے بعد مسلمانوں کی ایک بھیڑ ، جن میں اکثریت نوجونوں کی تھی ، سڑکوں پر احتجاج کے لیے اتری تھی ، اس نے بھنڈی بازار اور اطراف کے علاقوں میں کچھ دوکانوں اور کچھ گاڑیوں کو نشانہ بنایا تھا ، ان کا غم ، غصہ اور ان کا طیش فطری تھا ۔ عام طور پر انتظامیہ طاقت کا استعمال کر کے ایسے مظاہروں کو ناکام بنا دیتی ہے ، یا مظاہرین اور احتجاجیوں کو بھگا دیتی ہے ، لیکن اس روز پولیس نے سیدھے گولیاں چلائی تھیں ، وہ بھی سینوں پر ۔ میں نے جے جے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں خون سے شرابور ، نوجوانوں کی لاشیں پڑی دیکھی تھیں ۔ مجھ پر ، شہر کے تشدد سے بے خبر ، ہندو اکثریتی علاقوں سے دفتر تک خیر خیریت سے پہنچنے کے بعد ، جو ایک طرح کا خوف طاری ہوا تھا ، اس نے شدید رنج و غم کی کیفیت اختیار کر لی ۔ لگا کہ بابری مسجد کی شہادات کوئی عام سا واقعہ نہیں ہے ، عام واقعہ ہوتا تو کیوں اتنے لوگ سڑکوں پر اترتے اور سینوں پر پولیس کی گولیوں کو جھیلتے ! میں اس دن کو یاد کرتا ہوں تو وہی کیفیت پھر طاری ہو جاتی ہے۔اس روز پولیس کی گولی باری کے بعد، ممبئی جل اٹھی تھی ،دو مرحلوں میں یہ فسادات ہوئے تھے۔ کئی سوال ہیں جو آج بھی جواب طلب ہیں ۔ کیا کبھی ممبئی کی اس پولیس کو ، جس نے پولیس مینول کو نظر انداز کرکے سیدھے احتجاجیوں کے سینوں کو نشانہ بنایا تھا ، سزا ملے گی؟ اور سب سے بڑا سوال ، کہ کیا انہیں ، جو ممبئی کے فسادات کے قصوروار ہیں کبھی قانون کی گرفت میں لایا جائے گا؟
کل بابری مسجد کی شہادت اور کو اور ایک دان بعد ،شہادت کے نتیجے میں پھوٹنے والے ممبئی کے ’مسلم کش فسادات ‘کو ۲۹ ؍برس بیت جائیں گے ۔
یہ گذرے ہوئے ۲۹سال ناانصافی،سرکاری بے حسی اورسیاسی لاچاری کے سال ہیں۔اس دوران بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ بھی ’ انجام ‘ کو پہنچا ہے ، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ، آج کے راجیہ سبھا کے رکن ، رنجن گگوئی نے بابری مسجد کی جگہ ان عناصر کو رام مندر بنانے کے لیے سونپ دی ہے ،جو بابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش تھے ۔اس فیصلے کو بھی دو سال بیت چکے ہیں ۔رہی بات ممبئی فسادات کی ، تواس کے متاثرین کوآج تک انصا ف نہیں مل سکاہے۔جن کے اعزاءورشتے دار اوراحباب واہل خانہ مارے اورزخمی کئے گئے تھے‘اورجولوٹے کاٹے اورتباہ وبرباد کیے گئے تھے‘ آج بھی انصاف کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔سرکار روزِاوّل ہی کی طرح بے حس ہے۔رہے سیاست داں اورسیاسی پارٹیاں تووہ’سیاسی مفادات‘کی بناء پر اس قدرمجبوراورلاچارہیں کہ’خاطیو ں‘اور’مجرموں‘کی طرف انگلیاں اٹھانے کی ان میںہمت نہیں ہے بلکہ اب اتنے برس بیت جانے کے بعدتویوں لگتا ہے کہ ان کے ذہنوں سے یہ ’حقیقت ‘محوہو چکی ہے کہ ۹۳-۹۲ میں شہرممبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات میں جل اٹھاتھا۔اب ان کی زبانوں سے بھی کبھی ممبئی کے دومرحلوں کے مسلم کش فسادات کاذکرنہیں ہوتا!مجھے آج بھی ریٹائرڈجسٹس بی این شری کرشنا کی .....جن کی سربراہی میں ممبئی کے فسادات کی جانچ کے لیے کمیشن بناتھا‘اورجن کی رپورٹ نے،جسے’شری کرشناکمیشن رپورٹ‘کے نام سے جاناجاتا ہے ،فسادات میں سیاست دانوں اورپولس والوں کے رول کو نہ صرف واضح کیاتھا بلکہ انہیں’خاطیوں‘اور’قصورواروں‘کی فہرست میں شامل بھی کیاتھا........بات یادآرہی ہے،موقع انگریزی کی جرنلسٹ مینامینن کی ممبئی فسادات پر انگریزی کتاب کی رونمائی کاتھا ‘ جسٹس شری کرشنا اس موقع پر موجودتھے اورانہوں نے کہاتھا کہ وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی رپورٹ پر عملدرآمد ہو ، تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے ۔ یقوب میمن کی پھانسی کے ایک دن بعدانہوں نے یہ سوال اٹھایاتھا کہ ’ یعقوب میمن کو تو اس کے جرم کی سزا مل گئی ممبئی کے فسادیوں کو کب سزا ملے گی ؟ ‘یہ سوال آج تک جواب طلب ہے ۔
وہ جنہوںنے مسلمانوںکی جان اور مال کا نقصان کیاتھا ،آج بے فکری سے آزادگھوم رہے ہیں ۔ وہ پولس والے جو فسادیوں کے ساتھی تھے آج تک ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے ۔ اورسیاسی پارٹیوں ‘ فرقہ پرست تنظیموں اورپولس کے فرقہ پرستانہ چہرے کوجس سری کرشنا کمیشن رپورٹ نے اُجاگرکیا تھا وہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دی گئی ہے ۔ کانگریس کا کرداراس معاملے میں انتہائی گھناؤنا رہا ہے ، بجائے اس کے کہ یہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ پرعمل کرتی اس کی تقریباًتین سرکاروں نے انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھـ’ مسلمان کانگریسیوں‘ کی مدد سے ایسا چکر چلایا کہ کمیشن کی رپورٹ پرعمل درآمد کا سوال عدالت کے گلیاروں میں آج تک گردش کررہا ہے ، اور نہ جانے کب تک گردش کرے گا ! رہے وہ افراد جوعدالتوں میں انصاف کی جنگ لڑرہے تھے ، تو وہ یا تواب نہیں رہے یا مزید قانونی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہاربیٹھے ہیں ۔ اورسب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جِن عناصر نے ۹۳-۹۲ میں ممبئی کو دومرحلوں میں فسادات کی آگ میں جھونکا تھا ، ان میں سے ایک کی ، آج ریاست مہاراشٹر پر حکومت ہے ‘ لہٰذا ان سے انصاف کی امید رکھنا ہی بے کار ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اس روز ممبئی کے مسلمانوں پر گولیاں کیوں چلائی گئی تھیں،وہ توایک جمہوری ملک میں، غیرجمہوری اندازمیں اپنی عبادت گاہ شہید کئے جانے کی مجرمانہ واردات سے مغموم تھے اور مشتعل بھی اس لیے انہوںنے سڑکوںپر اترکرجمہوری انداز میں احتجاج اورمظاہرے کرنے کی کوشش کی تھی ؟ شاید منصوبہ ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو مظاہرہ نہ کرنے دیا جائے ، انہیں خوب مشتعل کیا جائے اور جب وہ تشدد پراتر آئیں تو ان پر گولیاں برسا دی جائیں ۔ ایسا ہی ہوا ‘ پولس کی گولی باری نے سینکڑوں نوجوانوں کے سینوں کو سرخ کردیا ۔ یہ فسادات کا آغازتھا ! ۶، دسمبر ۱۹۹۲ء اورپھر ۵ ، جنوری ۱۹۹۳ء دومرحلوں میں ہونے والے فسادات میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۹سو افراد ہلاک ہوئے جِن میں مسلمانوں کی تعداد ۵۷۵ اورہندوؤں کی تعداد ۲۷۵ تھی ۔ پولس کے فرقہ پرستانہ رویّے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ اس کی گولی باری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۳۵۶ تھی ۔ پولس کی گولیاں ‘ پولس مینول کے اصول وضوابط کے برخلاف سینوں پرچلیں‘ کمرسے نیچے نہیں ۔
ایک جانب پولس ‘فسادی اورشیوسینک تھے ۔ ان کے ساتھ بی جے پی کے لیڈراور کارکنان بھی تھے ۔ حدتو یہ ہے کہ کئی جگہ آرپی آئی اورکانگریسی لیڈروںنے بھی فسادیوں کا ساتھ دیا۔ شیوسینا اور شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا ۔شری کرشنا کمیشن رپورٹ‘میں جسٹس سری کرشنا نے تمام ’حقائق‘ کو عیاں کردیا ہے، رپورٹ میں واضح لفظوں میںتحریر ہے: ’’ ۸،جنوری ۱۹۹۳ء سے تواس میںکوئی شبہ ہی نہیںکہ شیوسینا اورشیوسینکوں نے اپنے لیڈروںکی رہنمائی میں مسلمانوں اوران کی املاک پر منظم حملے کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا ‘شاکھا پرمکھوں سے لے کرشیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے تک کی رہنمائی انہیں حاصِل تھی ، بال ٹھاکرے کسی تجربہ کار جنرل کی طرح اپنے وفادار شیوسینکوں کوہدایت دے رہے تھے کہ وہ مسلمانوں پرمنظم حملے کرکے ان سے انتقام لیں۔ ‘‘ کمیشن نے اپنی رپورٹ میںشیوسینکوں بالخصوص بال ٹھاکرے کے بیانات اوران کے ہندی اور مراٹھی روزنامہ ’سامنا ‘ کے اشتعال انگیزاداریوں کے حوالے دے کراس سچائی کی جانب تو جہ دلائی تھی کہ اس طرح کے بیانات اوراداریوں نے ’ہندوؤں ‘کو مشتعل کیا ۔‘‘ رپورٹ میں ایک جگہ تحریر ہے :’’ شیوسینک لیڈروں کے بیانوں اورسرگرمیوں اوربال ٹھاکرے کی تحریروںاور ہدایتوں کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی چلی گئی ، شیوسینا نے جوفسادات شروع کئے تھے وہ مقامی مجرم پیشہ عناصر نے ہائی جیک کرلیے اورفوری فائدہ اٹھالیا۔ اورجب تک شیوسینا کو یہ احساس ہوکہ ’انتقام ‘ خوب لے لیاگیا تب تک تشدد اس کے لیڈروں کے کنٹرول کی پہنچ سے دورنکل گیاتھا ‘‘۔ کمیشن کی رپورٹ میںفرقہ وارانہ کشیدگی کے پھیلنے اور ممبئی کے فسادات کے اسباب میں بابری مسجد کی شہادت ، بی جے پی کے لیڈروں کی رتھ یاترائیں اورسنگھ پریوار کی اشتعال انگیزی بھی شامل ہیں ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ’ممبئی کے فسادات ‘ کوسارے سنگھ پریوار کی کارستانی قرار دیاتھا توغلط نہیںہوگا ۔ ظاہرہے کہ یہ رپورٹ نہ اس وقت شیوسینا اور بی جے پی کوبھائی تھی اورنہ آج ہی شیوسینا کو بھائے گی۔ جب ممبئی کے فسادات کے بعدشیوسینا بی جے پی کی حکومت بنی تھی تب کمیشن کی رپورٹ کو جو۱۹۹۸ءمیںپیش کی گئی تھی ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیاتھا۔ اس وقت کےوزیراعلیٰ منوہر جوشی اورریاستی سرکار نے ‘ریاستی اسمبلی اور کونسل میں اس رپورٹ کی پیشی کے بعداِسے ردّ کرکے ایوان میں ’ایکشن ٹیکن رپورٹ ‘ پیش کی تھی اور یہ کہا تھاکہ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ ’’ ہندو مخالف ’مسلم موافق اورجانبدارانہ ہے ‘‘۔
شیوسینا اوربی جے پی کی ریاستی سرکار سے یہی توقع تھی۔ رپورٹ میں شیوسینا اوربی جے پی کو فسادات کا قصوروار قرار دیاگیاتھا اور بال ٹھاکرے سمیت کئی شیوسینکوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیاگیاتھا… شیوسینا اوربی جے پی کی حکومت اپنے قصورکو مان بھی کیسے سکتی تھی ! لیکن ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘ جوردکی گئی تھی دوبارہ اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے کہنے پر پھرسے ’زندہ ‘کی گئی ۔ ریاستی سرکار نے جسٹس شری کرشنا پریہ ذمہ داری عائد کی کہ وہ صرف فسادات کی نہیں ۱۲، مارچ ۱۹۹۳ء کے ممبئی کے سلسلہ واربم دھماکوں کی چھان بین بھی کریں اور فسادات اوربم دھماکوں میںکیا مطابقت ہے یا ان دونوں کا کیا ’رشتہ ‘ ہے ‘اسے بھی اپنی رپورٹ میں شامل کریں ۔ جسٹس سری کرشنا نے یہ چھان بین بھی کی اورمزیدچھان بین نے ان کی اس ’رپورٹ ‘کومزید تقویت بخشی کہ فسادات سنگھی ذہن رکھنے والوںکی سازش کا نتیجہ تھے اوریہ بم دھماکے نہ ہوتے اگر بابری مسجد شہید نہ ہوتی اورممبئی میں دومرحلوں میںفسادات نہ ہوئے ہوتے۔ بھلا ممبئی کے فسادات کوآج ۲۹سال کی طویل مدت کے بعد بھی نظراندازکیوںکیاجارہا ہے ؟کیا کوئی یہ نہیں جانتا کہ واقعی میںمسلمانوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اورانہیں انصاف مِلناچاہئے ،بالکل اسی طرح جس طرح ۱۹۸۴ءکے سکھ مخالف فسادات کے متاثرین کوانصاف فراہم کیاگیا ہے ؟ ممبئی کے فسادات اپنی شدت وبربریت ‘سنگدلی اوربے رحمی میںگجرات کے فسادات سے کم نہیںتھے ۔ جس طرح گجرات میںخواتین کا ریپ کیاگیا ‘لوگوںکو زندہ جلایا گیا اور بے رحمی کے ساتھ ‘لوگوں کی املاک تباہ کی گئیں اسی طرح ممبئی میںہوا تھا ۔ ’سری کرشنا کمیشن رپورٹ ‘میں کئی واقعات کی تفصیلات موجود ہیں ۔ مثلاً اگرپولس کی بربریت کی مثال چاہئے توممبئی کے محمد علی روڈ پرواقع سلیمان عثمان بیکری اوراس سے لگ کر دارالعلوم امدادیہ اور سیوڑی علاقہ کی ہری مسجد میںکی گئی گولی باریوںکی مثالیں موجود ہیں۔
سلیمان عثمان بیکری ابراہیم رحمت اللہ روڈپرواقع ہے ‘ ۹،جنوری ۱۹۹۳ءکے روزوہاں پولیس کے،اس وقت کے جوائنٹ پولس کمشنر رام دیوتیاگی (جو بعدمیں ممبئی کے پولس کمشنر بنے ) اپنے اسپیشل آپریشن اسکواڈ کے ہمراہ پہنچے،اور سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسکواڈ کے لوگوں نے ’’صدردروازہ توڑدیا اوربیکری میں داخل ہوگئے ۔پولیس نے وہاںفائرنگ کی جس میں ۹ افراد مارے گئے اور ۷۸افرادحراست میں لئے گئے ‘‘۔ پولس کے بیان پر جسٹس سری کرشنا خودموقعہ واردات پر پہنچے اور انہوںنے جائزہ لینے اورگواہوں سے مِِلنے کے بعدرپورٹ میںتحریر کیا :’’ بیکری میں موجود افراد غیرمسلح اورنہتے تھے اورانہیں بے دردی سے گولی ماری گئی تھی …ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پولس کواندھا دھند فائرنگ کی ضرورت تھی‘ پولس نے خوشی خوشی گولیاںچلائی تھیں اور ۹ بےگناہ افراد کو ہلاک کیاتھا۔ اس سارے معاملے کی ذمہ داری جوائنٹ پولس کمشنر آرڈی تیاگی ‘اے پی آئی دیشمکھ اورپولس انسپکٹر لہانے پرعائد ہوتی ہے ‘‘۔ اتنی واضح رپورٹ کے باوجود تیاگی ممبئی کے پولس کمشنر بنے اور سارے الزامات سے بری کردیئے گئے ۔ سیوڑی کی ہری مسجد میں ظہر کی نماز کے موقع پر ایک پولس اہلکار نکھل کاپسے نے گھس کرگولی باری جس میں۹،مسلمان شہید ہوئے۔کمیشن کی رپورٹ میں مسجدکے اندرمسلمانوں کی شہادت کا ذمے دار نکھل کاپسے کی اندھا دھند اور بلااشتعال فائرنگ کو قرار دیاگیاہے۔افسوس کہ آج تک کاپسے کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی ہے۔کارروائی صرف شیوسینا کے ایک ایم پی مدھوکر سرپوتداراور ان کے دو شیوسینک ساتھیوں جینت پرب اور اشوک شندے کے خلاف ہوئی۔خصوصی عدالت نے انہیں فسادات کا قصوروار قرا ر دیا مگر انہیں فوری ضمانت مل گئی۔اور دو سال بعدسرپوتدار کی موت ہو گئی۔یہ معاملہ بھی اب ختم ہو چکاہے۔بال ٹھاکرے کے خلاف ان کی موت تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔کیا ممبئی فسادات کے متاثرین یہ امید رکھیں کہ انہیں دیرسویر انصاف ملے گا ؟کیا واقعی ان سیاستدانوں کو اوران پولس افسران کو جو فسادات کے دوران فسادیوں کی بھیڑمیں گھس کر خود فسادی بن گئے تھے سزائیں ملیں گی؟ان سوالو ںکے جواب یقیناًہمارے پاس نہیں ہیں۔لیکن متاثرین ومظلومین امید تو رکھ سکتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کیا چارہ ہے ! لیکن کیا اب ، بابری مسجد کی ملکیت کے بارے میں ’ غیر منصفانہ عدالتی فیصلے ‘ کے بعد کسی طرح کی امید رکھی جا سکتی ہے؟
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)