-
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد
- سیاسی
- گھر
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگ بنیاد
928
M.U.H
10/08/2020
0
0
تحریر: محمد عاقل حسین
ہندستانی سیاست میں کانگریس اور بھاجپا ایک ہی سکہ کے دو پہلو
ایودھیا میں5 ؍ اگست 2020؍ کو رام مندر کا سنگ بنیاد ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے رکھا۔ جبکہ اس سے پہلے کانگریس حکومت میں 1989؍ میں رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ جب رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جارہا تھا تو ایک خصوصی مذہب کے ماننے والوں کے ذریعہ ملک میں ’رام راج‘ کی بات کہی جارہی تھی۔ مگر انہیں نہیں پتہ تھا کہ 1989؍ میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی رام راج کی بات کہہ چکے ہیں۔ لیکن ملک کا آئین ہی ایسا ہے کہ وہ آئین ملک کو ’رام راج‘ بننے سے روکتا ہے۔ ویسے رام مندر کے نام پر کانگریس نے 1989؍ میں فصل لگائی تھی مگر کانگریس کی غلط پالیسیوں کے سبب 6؍ دسمبر 1992؍ کے بعد ملک میں بھاجپا کو فائدہ ہونے لگا۔ بیچ بیچ میں کانگریس آئی ضرور مگر انہیں اکثریت نہیں ملی اور کانگریس کی لگائی فصل کو بھاجپا کاٹ لے گئی۔ ویسے ہندستان کی جمہوریت 1989؍ میں ہی پوری دنیا میں اس وقت داغدار ہوگئی تھی جب اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اترپردیش کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ویر بہادر سنگھ کو منایا اور رام جنم بھومی مندر کے قفل کھلوائے۔ نیز نومبر 1989؍ کو وشوہندو پریشد کو رام مندر کے سنگ بنیاد کی اجازت دی تھی۔ تبھی تو ہندوئوں کو بھگوان شری رام کے درشن کا موقع ملا۔ اتنا ہی نہیں‘ بلکہ 1989؍ میں وہ اکثر ملک میں ’رام راج‘ لانے کا وعدہ کرتے ہوئے انتخابی تقاریر کی شروعات کرتے تھے۔ چنئی میں اپنے آخری پریس کانفرنس میں جب راجیو گاندھی سے رام مندر پر سوال پوچھا گیا تو انہوںنے کہاتھا کہ اس پر عام رائے بنانے کی کوشش جاری ہے، ایودھیا میں ہی رام مندر بنے گا۔ 1989؍ میں بہار کے بھاگل پور میں فسادات بھی ہوئے،بہتوں کی جان بھی گئی۔ وہ فسادات 1947؍ کی آزادی کی لڑائی سے بھی زیادہ دن چلتے رہے- سال 1989؍ کے عام انتخابات میں کانگریس کی راجیو حکومت کا اختتام ہوگیا اور کانگریس کو 1989؍ کے عام انتخابات میں 197؍ ہی سیٹ مل سکی۔ جبکہ وی پی سنگھ کی پارٹی جنتادل کو 147؍ اور کمل پھول کو 85؍ سیٹ ملی۔ جس کے بعد وی پی سنگھ کی قیادت میں مرکز میں حکومت بنی۔ سال 1990؍ میں بھاجپا لیڈر لال کرشن اڈوانی رام مندر کے لئے رتھ یاترا پر نکل پڑے مگر اس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے رتھ کو بہار میں داخل نہیں ہونے دیا۔ اڈوانی 22؍ اکتوبر 1990؍ کی شام پٹنہ پہنچے۔ پٹنہ کے بعد وہ سمستی پور چلے گئے۔ 23؍ اکتوبر 1990 ؍ کی صبح ہی بہار کے سمستی پور میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کے حکم پر اڈوانی کو گرفتار کرلیا گیا۔ سمستی پور میں گرفتار کرنے کے لئے افسروں کی جس ٹیم کو پٹنہ سے بھیجا گیا تھا اس کی قیادت آئی اے ایس افسر آر کے سنگھ کررہے تھے جو سخت تیور کے افسر مانے جاتے تھے۔ بعد میں آر کے سنگھ مرکزی ہوم سکریٹری بھی بنے۔فی الحال وہ بہار کے آرہ سے بھاجپا رکن پارلیامنٹ ہیں۔ اڈوانی کے ساتھ کچھ دیگر نیتائوں کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے 23؍ اکتوبر 1990؍ کو کہاتھا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے ان کی رتھ یاترا پر روک لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اتنا ہی نہیں‘ بہار میں ہم نے رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ سے متعلق کسی بھی طرح کے جلوس نکالنے کی ممانعت کردی ہے۔ بعد میں اٹل بہاری واجپئی نے 26؍ اکتوبر 1990؍ کو پراسرار افتتاحی پروگرام کیا اور اٹل بہاری واجپئی نے دہلی میں کہا کہ ان کی پارٹی اور وی پی حکومت کے درمیان یہ خفیہ اتفاق ہوا تھا کہ لال کرشن اڈوانی اپنی رتھ یاترامکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایودھیا میں مذہبی امور بھی انجام دیںگے۔ یہ معاہدہ20؍اکتوبر 1990؍ کو ہوا تھا اور یوپی کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کو بھی اس بات کی جانکاری تھی۔ اٹل بہاری واجپئی نے کہاکہ انہیں معلوم نہیں کہ اس معاہدہ سے واپس جانے کی وجہ کوئی دبائو تھا یا جنتادل کے اندرونی رسہ کشی اس کی ذمہ دار تھی؟ واجپئی نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم اور ملائم سنگھ کے درمیان اختلافات کے سبب اڈوانی گرفتار کئے گئے ہوں۔ اڈوانی کی گرفتاری کے سبب ہی بی جے پی نے وی پی سنگھ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی جس کی وجہ سے وی پی سنگھ کی حکومت گرگئی تھی۔ اس واقعہ نے ملک کی سیاسی سمت بدل دی تھی۔ وی پی سنگھ حکومت کے بعد کانگریس کی مدد سے 10؍ نومبر 1990؍ میں چندرشیکھر وزیر اعظم بنے تھے لیکن اختلافات کے سبب راجیو گاندھی نے حمایت واپس لے لی تھی۔ محض 7؍ مہینہ تک ہی چندرشیکھر وزیر اعظم رہے تھے۔ سال 1991؍ کی بات ہے‘ کانگریس نے عام انتخابات میں سب سے زیادہ 244؍ سیٹ جیتی تھی۔ یہ طے تھا کہ حکومت کانگریس کی سربراہی میں بنے گی مگر سوال تھا کہ اس گرنے والی حکومت کی قیادت کون کرے گا؟ ویسے تو پارٹی میں کئی قدآور نیتا تھے۔ 21؍ مئی 1991؍ کو راجیو گاندھی کا قتل ہوچکا تھا۔ راجیو گاندھی کی شہادت کے بعد یہ چہ مگوئی تیز تھی کہ اگر پارٹی جیتی تو شرد پوار اور ارجن سنگھ وزیر اعظم عہدہ کے سب سے مضبوط دعویدار ہوںگے۔ تیسرا نام ظاہری طور پر پی وی نرسمہا رائو کا تھا۔ کیوںکہ وہ اس وقت کانگریس کے صدر تھے۔ جب کانگریس کی طرف سے وزیر اعظم عہدہ کی بات ہوئی تو متذکرہ تینوں نے اپنی دعویداری پیش کی۔ یہ 20؍ جون 1991؍ کی بات ہے۔ اخیر میں نرسمہا رائو پارٹی کی طرف سے وزیر اعظم منتخب کرلئے گئے۔ مرکز میں نرسمہارائو حکومت میں وزیر رہے ماکھن لال پھوتے دار اپنی سوانح ’دے چنار‘ میں لکھتے ہیں: میں نے وزیر اعظم سے استدعا کی کہ وہ فضائیہ سے کہے کہ فیض آباد میں تعینات چیتک ہیلی کاپٹر سے ایودھیا میں موجود کار سیوکوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے چلوائیں۔ رائو نے کہا: میں ایسے کرسکتا ہوں‘۔ میں نے کہا: ایسے ایمرجنسی حالات میں مرکز کے پاس جو بھی فیصلہ ضروری ہو‘ لینے کی سبھی طاقت موجود ہے‘۔ میں نے ان سے استدعا کی کہ: رائو صاحب! کم از کم ایک گنبد تو بچا لیجئے تاکہ بعد میں ہم اسے ایک شیشے کے کیبن میں رکھ سکیں اور ملک کے عوام کو کہہ سکیں کہ بابری مسجد کو بچانے کی ہم نے اپنی طرف پوری کوشش کی۔ وزیر اعظم چپ رہے اور طویل وقفہ کے بعد بولے: پھوتے دار جی! میں آپ کو دوبارہ فون کرتا ہوں۔ پوتے دار آگے لکھتے ہیں: میں وزیر اعظم کی بے حسی سے بہت زیادہ مایوس اور غمزدہ ہوا۔ میں نے صدر جمہوریہ شنکر دیال شرما کو فون کر ان سے ملاقات کا وقت مانگا۔ انہوںنے مجھے شام ساڑھے 5؍ بجے آنے کو کہا۔ جب میں ان سے ملنے کے لئے اپنے گھر سے نکلنے لگا تو میرے پاس وزیر اعظم کا فون آیا کہ شام 6؍ بجے کیبنٹ کی بیٹھک رکھی گئی ہے۔ میں پھر بھی صدر جمہوریہ سے ملنے گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو انہوںنے مجھے دیکھ کر بچوں کی طرح رونا شروع کردیا اور بولے: پی وی نے یہ کیا کردیا ہے؟ میں نے صدر جمہوریہ سے کہاکہ وہ ملک کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خطاب کریں۔ وہ اس کے لئے راضی بھی ہوگئے مگر ان کے اطلاعات افسر نے بتایا کہ اس کے لئے انہیں وزیر اعظم سے اجازت لینی ہوگی اور مجھے شک ہے کہ وہ یہ اجازت دیںگے۔ ماکھن لال پھوتے دار لکھتے ہیں: میں کیبنٹ کی میٹنگ میں 15؍ یا 20؍ منٹ تاخیر سے پہنچا۔ وہاں ہر ایک کو چپ دیکھ کر میں نے چٹکی لی کہ سب کی بولتی کیوں بند ہے؟ اس پر مادھو رائے سندھیا بولے: پھوتے دار جی! آپ کو تو پتہ نہیں کہ بابری مسجد گرادی گئی ہے؟ میں نے وزیر اعظم کی طرف دیکھ کر پوچھا: رائو صاحب کیا یہ صحیح ہے؟ وزیر اعظم مجھ سے آنکھ نہیں ملا سکے۔ ان کے بجائے کیبنٹ سکریٹری نے جواب دیا کہ یہ صحیح ہے۔ میں نے سبھی کیبنٹ وزراء کے سامنے رائو سے کہاکہ وہ اس کے لئے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک لفظ بھی کچھ نہیں کہا۔ ویسے نومبر 1992؍ میں 2؍ انہدام کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ایک بابری مسجد کی اور دوسری نرسمہا رائو حکومت کی۔ سنگھ پریوار بابری مسجد گرانا چاہ رہے تھے اور کانگریس میں ان کے نمائندے نرسمہا رائو کو۔ رائو کو پتہ تھا کہ بابری مسجد گرے یا نہ گرے‘ ان کے مخالفین ضرور 7؍ آرسی آر سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ نومبر 1992؍ میں سی سی پی اے کی کم از کم 5؍ بیٹھک ہوئی۔ اس میں ایک بھی کانگریس لیڈر نے نہیں کہاکہ کلیان سنگھ کو برخواست کردینا چاہئے۔ کیوںکہ بابری مسجد انہدامی منصوبہ میں کانگریس بھی کہیں نہ کہیں شریک تھی۔ 6؍ دسمبر 1992؍ کو مسجد گرائے جانے کے بعد ملک کے 3؍ بڑے صحافی نکھل چکرورتی، پربھاش جوشی اور آر کے مشرا نے وزیر اعظم رائو سے پوچھا کہ 6؍ دسمبر 1992؍ کو آپ نے ایسا کیوں ہونے دیا؟ تب نرسمہا رائو نے کہاتھا کہ کیا آپ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ مجھے سیاست نہیں آتی؟ رائو نے کہاکہ میں اس کے معنی یہ نکالتا ہوں کہ اپنی سیاست کے تحت اور یہ سوچ کر کہ بابری مسجد منہدم کردی جائے گی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مندر کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔ انہوںنے اسے روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ میرا ماننا ہے کہ کانگریس کے وزیر اعظم مسٹر رائو کسی غلط فہمی نہیں‘ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ساز باز کے سبب نہیں بلکہ اس خیال سے کہ وہ بی جے پی سے یہ مدعا چھین سکتے ہیں۔ انہوںنے ایک ایک قدم اس طرح اٹھایا کہ بابری مسجد گرادی جائے۔ اس کے کچھ سال بعد ملک میں بھاجپا کی حکومت سال 1996؍ میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں بن گئی لیکن اکثریت حاصل نہیں کرسکی اور 13؍ دن میں ہی حکومت گرگئی۔ پھر 1998؍ میں وزیر اعظم بنے مگر وہ حکومت بھی محض 13؍ مہینے ہی چلی۔ سال 1999؍ میں پارلیامانی انتخابات میں بھاجپا کو اکثریت حاصل ہوئی اور کچھ اتحادی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی جو سال 2004؍ تک چلی۔ لیکن رام مندر تعمیر کا مدعا بنارہا۔ اٹل کی حکومت میں مندر کو لے کر کچھ خاص نہیں ہوا جس کے بعد پھر مرکز میں کانگریس کی حکومت 2004؍ میں منموہن سنگھ کی قیادت میں بن گئی۔ 2009؍ میں بھی کانگریس کی حکومت منموہن سنگھ کی قیادت میں بنی جبکہ سال 2014؍ کا پارلیامانی انتخاب آیا تو اڈوانی کے رتھ یاترا کے بعد ملک بھر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک ہندوتوا وادی پارٹی کی حیثیت سے مقبولیت ملی۔ اس میں اہم کردار نبھانے والے بھاجپا لیڈر نریندر مودی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور رام مندر تعمیر پھر انتخابی مدعا بن گیا۔ اس میں بڑی اکثریت سے 2014؍ میں نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں بھاجپا کی حکومت بنی۔ اس کے ساتھ ہی بحیثیت وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیا میں رام مندر تعمیر کا مدعا اٹھاتے رہے۔ 6؍ دسمبر 1992؍ کو بابری مسجد گرنے کے بعد معاملہ عدالت جا پہنچا اور عدالت میں طویل بحث کے بعد 2019؍ میں سپریم کورٹ کے اس وقت چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت میں عدالتی بنچ نے فیصلہ سنایا کہ رام مندر بابری مسجد والی زمین پر ہی تعمیر ہوگی اور بابری مسجد تعمیر کے لئے الگ سے 5؍ ایکڑ زمین دینے کے لئے یوپی حکومت کو حکم دیا گیا۔ وہیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کے سبکدوش ہونے کے بعد بھاجپا حکومت نے یکطرفہ فیصلہ دینے کے عوض میں رنجن گگوئی کو راجیہ سبھا ممبر بناکر انعام دیا۔ ویسے حکومت کے حق میں فیصلہ دینے والے سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا کو کانگریس حکومت بھی راجیہ سبھا بھیج چکی ہے۔ ان پر سکھ فسادات میں حکومت کے حق میں فیصلہ دینے کا الزام ہے۔ ملک میں ایک طرف کورونا دور میں ہزاروں اموات ہوچکی ہے۔ لاکھوں افراد کورونا سے تباہ ہیں لیکن مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی بھاجپا حکومت اپنے مینوفیسٹو پر عمل کرتے ہوئے 5؍ اگست 2020؍ کو ایودھیا پہنچ کر وزیر اعظم نریندر مودی نے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ جبکہ بھارت کا آئین کہتا ہے کہ حکومت سیکولر بن کر کام کرے مگر اب ملک کے آئین کو علیحدہ کرتے ہوئے بحیثیت وزیر اعظم مذہبی پروگرام میں شامل ہوا جارہا ہے۔ ویسے بھارت کی سیاست میں کانگریس پارٹی ہو یا بھاجپا‘ دونوں ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔مگرفرق انتاہی ہے کہ کانگریس رات اندھیروں یا پھر پیچھے سے وار کرتی ہے۔جبکہ کے بی جے پی سامنے سے وار کر اپنے اکثریتی ووٹ کو بڑھانے کا کام کرتی رہی ہےاور اس کا منصوبہ بھی ہیہ ہے کہ آگےا سی طرح ملک میں کام کرتی رہے گی۔ویسے رام مندر تعمیر کے نام پر مرکز سے لیکرریاستی حکومتیں گرتی رہی ہے اور نئی حکومتوں کا آغاز ہوتا رہا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ بھومی پوجن کے بعد رام مندر کی تعمیر ہوتی ہے یا نہیں؟ یا بھاجپا تعمیر کے نام پر ووٹ بینک رام مندر کو ہی بناتی رہے گی؟ کیوں کہ ابھی تک صرف سنگ بنیاد ہوا ہے، مندر تعمیر کا مرحلہ بہت دور ہے۔ یہاں تک کہ ابھی رام مندر کے نقشہ تک کو منظوری نہیں ملی ہے۔ یہ تو اب آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ رام مندر تعمیر ہوتا ہے یا پھر یہ ملک میں انتخاب کا مدعا ہی بنا رہے گا!