-
کیا نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان میں تبدیلی لا سکے گی ؟
- سیاسی
- گھر
کیا نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان میں تبدیلی لا سکے گی ؟
1053
M.U.H
01/08/2020
1
0
تحریر:محمد علم اللہ
ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا ہندوستان ایک خطرناک وبائی مرض سے جوجھ رہا ہے، کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، مرکزی کابینہ نے اناً فاناً نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی ہے۔ جب کہ سول سوسائٹی اور اہل علم نے پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان کھڑے کئے تھے اور اسے ایک مخصوص نظریہ کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ آزاد ہند میں یہ تیسری تعلیمی پالیسی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب 1968 ء اور 1986 میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں۔ تاہم 1986 ء کی پالیسی پر نظرثانی 1992ء میں کی گئی تھی، جب پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم تھے۔
قومی تعلیمی پالیسی اور بی جے پی کے بارے میں اگر دیکھا جائے تو 1977- 79 ء میں جب وہ جنتا حکومت کے حلیف کی حیثیت سے حکمران تھی، اْس وقت بھی اس نے کوشش کی تھی کہ نئی تعلیمی پالیسی پیش کی جائے، لیکن ان کا دیا ہوا خاکہ سنٹرل ایڈوائزری ایجوکیشن بورڈ نے نامنظور کر دیا تھا۔
اب جبکہ بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے، حکومت نے قومی تعلیمی پالیسی کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے، باوجود یہ کہ اس مسودہ میں بے شمار خامیوں کی نشاندہی اہل علم نے کی تھی اور ملک کے متعدد دانشوروں نے اسے ناقص، خطرناک اور ایک مخصوص طرز فکر کا آئینہ قرار دیا تھا۔
حالانکہ مسودہ کی بابت حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ پالیسی نئے ہندوستان کی تعمیر میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس مسودے کو پاس کیا گیا ہے، اس پر جب رئے لی گئی تو اس بارے میں انسانی وسائل کی وزارت کو دو لاکھ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئیں۔ انصاف اور ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ رائے موصول ہونے کے بعد ایڈٹ شدہ مواد بھی عوام کے سامنے رکھا جاتا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا اور یوں نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری مل گئی۔ اس خطرناک قرار پا رہی تعلیمی پالیسی کے جو نکات ابھر کر سامنے آرہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
اسکولی تعلیمی نظام چار زمروں پر مشتمل ہوگا۔ تین سال کی عمر سے پری پرائمری کو تین سالوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ایک سال پری پرائمری 1 + 2 = (3 سال) دوسر ے حصّے کے طور پر تیسری، چوتھی، اور پانچویں جماعت کے 3 سالوں پر مشتمل ہوگا۔ تیسرے حصّے کے طور پر چھٹی، ساتویں اور آٹھویں 6 + 7 + 8 جماعتوں کو بھی تین سالوں پر مشتمل رکھا گیا ہے۔
چوتھا حصہ 10 + 2 پر مشتمل ہے، تاہم اس پالیسی میں 9 تا 12 ویں کلاس کے طلباء اسکولی طلباء کہلائیں گے۔ 12 ویں کا جو پری یونیورسٹی یا انٹرمیڈیٹ کورس کہلاتا ہے، اس کو ختم کر دیا جائے گا اور پورے ملک میں اسکولی تعلیمی نظام رائج رہے گا۔ 12 ویں کے بعد ہی طلباء اسکول سے فراغت حاصل کر سکیں گے۔ ہائیر سیکنڈری اور جونیر کالجز کا نظام ختم کرکے 11 ویں اور 12 ویں جماعتوں کو سکینڈری اسٹیج میں ملا دیا جائے گا۔
چھٹی جماعت سے سہ لسانی فارمولا اختیار کیا جائے گا۔ مقامی زبانوں کے علاوہ درج فہرست زبانوں میں سے علاقائی اعتبار سے زبانیں پڑھائی جائیں گی، سنسکرت کو بھی شامل کیا جائے گا۔ انگریز ی زبان پر توجہ کم کر دی جائے گی۔ اساتذہ کو درس و تدریس کے علاوہ دیگر حکومتی و ترقیاتی کاموں کی زحمت نہیں دی جائے گی۔ ان کی الیکشن کے موقع پر ڈیوٹی یا سرکاری اسکولوں میں دوپہر کے کھانے کے انتظامات کی ذمہ داری بھی نہیں ہوگی۔ استاد کا کام صرف پڑھانا ہوگا اور معیاری تعلیم کی طرف توجہ مرکوز کرنا ان کی اہم ذمّہ داری ہوگی۔
جاری بی ایڈ نظام تعلیم میں تبدیلی لائی جائے گی۔ 3 سالہ بی ایڈ گریجویشن کورس کو ختم کرکے 4 سالہ بی ایڈ کورس متعارف کرایا جائے گا۔ ہر سطح کے تعلیمی ارکان خواہ وہ میڈیکل، انجینئرنگ کالجز کے ہی کیوں نہ ہوں، پڑھانے کے لیے بی ایڈ کرنا لازمی ہوگا۔ ہرسال اپنے پیشہ ورانہ مہارت کو فروغ دینے کیلئے 50 گھنٹے سی ڈی پی میں صرف کرنا ہوگا۔ موجودہ تمام غیر معیاری بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالجز مکمل طور پر ختم کر دیے جائیں گے۔
جدید تعلیمی پالیسی میں ٹیچرس ٹریننگ اور معیاری تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ ڈاکٹروں کی طرح 4 سالہ بی ایڈ گریجویشن کے بعد ٹیچنگ میں 2 سالہ تدریسی عمل سے گزرنا ہوگا۔ بی ایڈ 6 سال میں مکمل ہوگا۔
ریجنل انسٹی ٹیوشن آف ایجوکیشن سے دو سالہ کورس تکمیل کرنے والوں کو نوکریوں میں ترجیح دی جائے گی۔ نج کاری اور پبلک اسکول کی تعبیر و تشریح مکمل طور پر بدل دی جائے گی، جو اسکول حکومت اور عوامی عطیات سے قائم ہوں گے، وہی لفظ "پبلک" لکھنے کے مجاز ہوں گے۔ باقی تمام پرائیویٹ انتظامیہ والے اسکول جو اپنے اپنے اسکول کے ساتھ "پبلک اسکول" لکھیں گے اسے غیر قانونی مانا جائے گا۔ پرائیویٹ اسکولوں کو تعلیمی فیس طے کرنے کی آزادی ہوگی لیکن وہ فیس من مانے طور پر وصول نہیں کرسکیں گے۔
اعلی تعلیم و تحقیقی شعبوں میں تمام مروجہ نظام کو بدل کر ایک نیا تعلیمی نظام متعارف کروایا جائے گا، جس کے مطابق 3 طرح کے ادارے ہوں گے۔
پہلے نمبر پر جدید تحقیقات و مطالعات کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیا جائے گا۔ جس میں انڈر گریجویٹ اور پی ایچ ڈی نیز ماسٹر و پیشہ ورانہ اور وکیشنل پروگرام ہوں گے۔ معیاری تعلیمی اداروں سے فارغ طلباء کو ان اداروں میں داخلہ دیا جائے گا جس میں نئی نسل کی ذہن سازی کے لیے عملی نمونہ تیار کیا جائے گا اور اگلے 20 سالوں میں ایسے 150 تا 300 اعلی تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے۔ دوسرے نمبر پر تدریسی ادارے ہوں گے جس میں تدریسی صلاحیتوں اور اعلیٰ تعلیمی معیار کو فروغ دینے کے لیے اساتذہ تیار کیے جائیں گے، اس میں پیشہ ورانہ اساتذہ کی تعلیم و تربیت لازمی ہوگی۔ تیسرے مرحلے میں ایسے ادارے ہوں گے جو انڈر گریجویٹ اوراختیاری مضامین کے مطابق چلائے جائیں گے۔
یونیورسٹیوں کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
اول: پبلک، دوم: پرائیویٹ، سوم: پرائیوٹلی ایڈڈ۔
یونیورسٹیز سے مروّجہ ایم فل ڈگری کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا اور او۔ ڈی۔ ایل پروگرام (فاصلاتی تعلیم) کو فروغ دیا جائے گا نیز اسے آن لائن کے تحت مربوط کرکے طلباء کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کیا جائے گا۔ اس میں یوگا کو بھی اہمیت دی گئی ہے، جب کہ اخلاقی تعلیمات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق کاروباری تعلیم، زندگی گزارنے کے مختلف مواقع جس میں باغبانی، الیکٹرک ورک، دست کاری اور صنعت و حرفت وغیرہ کو ابتدائی جماعتوں سے سکھانے کے انتظامات جائیں گے۔
عالمی سطح پر ہندوستان کو اعلیٰ مقام تک لے جانے کیلئے دنیا کی 200 سے زائد یونیورسٹیوں اور اس کی شاخوں کے طلبہ کو یہاں داخلہ دیا جائے گا۔ (یہ الگ بات ہے کہ ادھر گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ بیرونی ممالک میں بھیجے جانے والے طلبا میں ہندوستان سرفہرست ہے، یہاں سے ہر سال تقریباً تین لاکھ طلبہ بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جا رہے ہیں، جب کہ اس کے بر عکس بین الاقوامی طلبہ کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہی یعنی 46 ہزار طلبہ بیرونی ممالک سے ہندوستان آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ ہندوستان میں تحقیق کے معاملے میں ہماری جی ڈی پی کی آمدنی سے 0.84 فیصد 2008 ء سے لے کر 2014 ء تک 0.69 فیصد ہے۔)
اس تعلیمی پالیسی میں نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا بھی ذکر ہے۔ جو ریسرچ کرنے والی تنظیموں پر نگراں ہوگی، اس کا احیاء اور تشکیل آئین کے مطابق ہوگا۔ اس کیلئے سالانہ 20 ہزار کروڑ روپئے سیِڈ مَنی (ابتدائی تعاون) کے طور پر دیے جائیں گے۔ اس تعلیمی پالیسی میں "راشٹریہ شکشا آیوگ" کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی تشکیل بھی پارلیمنٹ کے قانون کے مطابق ہوگی۔ اس کے سربراہ خود وزیر اعظم ہوں گے اور ایڈوائزری باڈیز کے ذریعہ اس کی تعمیل و تشکیل ہوگی۔
اس میں نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن، این سی ای آر ٹی، نیشنل ٹیسٹنگ ایجوکیشن، ہائر ایجوکیشن، گرانٹ کونسل اور ریاستی تعلیمات کے ارکان شامل ہوں گے۔
اس طرح اس مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ موجودہ وزارت تعلیم، فروغ انسانی وسائل کے بجائے اسے وزارت تعلیم کہا جائے گا۔ جس میں وزیر تعلیم اور راشٹریہ شکشن آیوگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے علاوہ یونین منسٹر آف یونین ایجوکیشن مختلف لوگوں کی نامزدگی کریں گے۔
جدید تعلیمی پالیسی کے مسودہ میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور ان کے تعلیمی رویے کے بابت محض ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل بے ربط انداز میں چند باتیں درج ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے سلسلہ میں پالیسی سازوں نے مکمل طور پر معاندانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی بقاء اور فروغ کے سلسلہ میں پالیسی ساز بالکل خاموش ہیں۔
ڈرافٹ کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اب تمام اختیارات، مرکزی حکومت کے ہاتھ میں آ جائیں گے، جس کے مطابق حکومت تعلیمی سیکٹر کیلئے اپنی پبلک فنڈنگ آہستہ، آہستہ ختم کر دے گی۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم و ریسرچ پر قومی بجٹ کا 6/فیصد خرچ کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں 2/فیصد بھی بجٹ نہیں دیا جاتا۔
ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی پالیسی کے مطابق آہستہ آہستہ سرکاری اداروں کو کم کردے گی۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ جتنے ملک میں عطیہ جاتی ادارے ہیں انہیں بھی معیار تعلیم کے لیے لازمی طور پر مطلوب عوامل و وسائل کے مطابق نہ رہنے کا بہانہ بناتے ہوئے اقلیتی تعلیمی اداروں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020ء میں ایسے اشارے بھی ملتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہندوتوا تحریکات اور آر ایس ایس کے کارکنوں کا ہر تعلیمی ادارے میں عمل دخل ہوگا، پالیسی دستاویز میں اس کا ہلکا سا ذکر کیا گیا ہے کہ کارکنان تعلیمی اداروں کے درس و تدریس کے نظام پر نظر رکھیں گے۔ حالانکہ اس کی صراحت نہیں ہے کہ یہ کارکنان کون لوگ ہوں گے؟ ان کے کیا اختیارات ہوں گے؟
نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں دیے گئے مشوروں اور تجاویز پر عمل آوری کے لئے جو ایکشن پلان ہونا چاہیے تھا اس کا بھی کہیں ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ نئے نظام میں تقرری اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا ذکر بھی ضروری تھا۔ ساتھ ہی ہر ریاست کے لئے علیحدہ ایکشن پلان ہونا چاہیے تھا۔ اس پالیسی کے نفاذ کے لئے ادارہ جاتی فائنانس ایک بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کیلئے دیا جانے والا بجٹ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تناسب سے نہایت ہی کم ہے۔ جب تک بجٹ میں اضافہ نہ ہو تعلیمی پالیسی کے دیے ہوئے رہنما اْصول پر عمل آوری ناممکن ہے۔
اس پالیسی کے مطابق قدیم ہندوستانی ویدک تہذیب اور نالندہ کے طریقہ تعلیم کو رائج کرنے کی کوشش ہوگی۔ جس میں میوسیقی اور رقص کی کلاسیں ایک ساتھ ہوں گی، سرسوتی پوجا، یوگا نیز ہندو، مذہبی تعلیمات کو لازمی طور پر شامل رکھنے کی بات بھی مسودہ میں شامل ہے۔
مسلمانوں کے 87 فیصد بچّے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اگر سرکاری اسکولوں کا بجٹ کم کر دیا جائے یا پھر سرکاری نصاب میں ان تمام مذہبی تعلیمات کو لازم کر دیا جائے، جیسا کہ اس وقت دیگر اہلیتی امتحانات میں کثرت سے یہ کام انجام دیے جا رہے ہیں تو اس میں اندیشہ ہے کہ اسکریننگ ٹیسٹ کے نام پر مخصوص طلباء کو داخلے سے روک دیا جائے گا، اس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جانے کا امکان ہے۔
افسوس اس قدر حساس موضوع پر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور مسلم قائدین کی جانب سے جس قسم کے رد عمل کا اظہار کیا جانا چاہیے تھا، وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آ سکا بلکہ دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی مسلم قائدین اور ملی تنظیموں کی جانب سے خاموشی اور سرد مہری کا رویہ ہی دیکھنے کو ملا۔
ایسا لگتا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر مسلم زعماء اور قائدین ملّت، گذشتہ سال پیش کیے گئے قومی تعلیمی پالیسی کے مسودہ کو پڑھنے سے قاصر رہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ اس پر احتجاج کرتے اور بڑی تعداد میں سیکولر طبقے کو ساتھ لے کر ہندوستان کو مستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے بچانے اور نونہالوں کے ذہن کو مسموم کرنے والے عمل کے خلاف آواز اٹھاتے مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہو سکا اور اب متنازعہ نکات پر مشتمل یہ قومی پالیسی پارلیمنٹ میں منظور کر دی گئی ہے۔