ڈاکٹر سلیم خان
مرکز ی اقتدار کے بعد گجرات کا وکاس پاگل ہوکر ویناش میں بدل گیا اور اس نے نام نہاد وکاس پوروش کو گھائل کردیا۔ دراصل ہوا یہ کہ دور کے سہانے ڈھول کی پول کھل گئی اور مودی جی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ کچھ لوگوں مایوسی پھیلائے بغیر نیند نہیں آتی حالانکہ یہ سارے سوامی، سنہا اور شوری کوئی غیر نہیں ان کے اپنے پریوار کےلوگ ہیں۔ وارانسی میں مہادیو کا مندر ہے اس لیے ہرہر مہادیو کا نعرہ لگتا ہے۔ فسادات کے دوران ہندو حملہ آوروں پر اپنی دھونس جمانے کے لیے مسلمان نعرہ تکبیر بلند کرتے تھے تاکہ پتہ چلے ہم بیدار و تیار ہیں۔ اس کے جواب میں ہندو ہر ہر مہادیو کا نعرہ لگاتے تھے یہ جتانے کے لیے ہم بڑی تعداد میں ہیں لیکن جب فساد پوروش مودی نے وارانسی سے نامزدگی کے کاغذات داخل کیے تو نعرہ لگا ’’ہرہر مودی گھر گھر مودی‘‘ گویا مودی جی کو مہادیو بنا کر پیش کردیا گیا۔ اس پر کچھ خواص نے اعتراض کیا مگر عوام نے انہیں ان پر ووٹ کی ایسی برسات کی کہ کیجریوال گنگا میں بہہ گئے اورسماجوادی پوترگھاٹ پر جل کر راکھ ہوگئی۔
اس پرلیہ(قیامت)کے بعد وارانسی کو جاپان کے معروف شہر کیوٹو میں بدلنے کا سنکلپ کیا گیا مگر ساڑھے تین سال بعد مودی جی وہاں پر عزت گھر کی سنگ بنیاد رکھتے ہوئے نظر آئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کانگریس کی قدیم اسکیموں کو نئے نام دے کر اپنے نام کرنے میں اس قدر ماہر ہوچکے ہیں کہ انہوں نے مہارت سے کام لیتے ہوئے بیت الخلاء کو عزت گھر کے نام سے منسوب کردیامگر بنارس ہندو یونیورسٹی میں طالبات کی بدسلوکی اور سرکاری مظالم نے ثابت کردیا کہ خواتین بیچاری نام نہاد عزت گھر سے نکل کر جب سڑک یا تعلیم گاہ میں آتی ہیں تو ان کا عزت و ناموس خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ وائس چانسلر بڑی ڈھٹائی سے ان پر ہونے والی جنسی زیادتی کویہ کہہ کر حق بجانب ٹھہراتا ہے کہ لڑکے ہیں تو یہی کریں گے۔ شاید ترپاٹھی جی کوان اوباش نوجوانوں میں اپنی کھوئی ہوئی جوانی نظر آتی ہے۔ سرکاری تفتیش نے اس سانحہ کے لیے وائس چانسلر کے بروقت اقدام کرنے میں کوتاہی کو ذمہ دار ٹھہرا دیا لیکن دھرم رکشک سنگھ پریوار بے حیائی کے ساتھ ان کی پشت پناہی کررہاہے۔ خواتین کی یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ بھگوا دھاری یہ ہمارے رکشک ہیں بھکشک۔ اس رویہ نے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا دہلی، پنجاب، جئے پور اور حیدرآباد میں صفایہ کردیا پھر بھی یہ عقل کے ناخون نہیں لے رہے ہیں۔ دراصل جب وکاس کا کھوکھلا نعرہ پاگل ہوجائے تو اسی طرح کا ویناش ہوتا ہے۔
مودی جی کس طرح کے وکاس میں یقین رکھتے ہیں اس کا نظارہ سنسد آدرش گرام یوجنا کے تحت ان کے اپنے لے پالک گاوں جیا پورا میں کیا جاسکتا ہے۔ اس گاوں کو کفالت میں لینے کے بعد تین سال کے عرصے میں 430 خاندانوں کے لیے624 عزت گھر(بیت الخلا) تعمیر کیے جاچکے ہیں جس پر تقریباً 99 لاکھ روپئے خرچ ہوا۔ اس کے باوجود عوام رفع حاجت کے لیے کھلے میں جانے کے لیے ہنوز مجبور ہیں۔ بیت الخلا کے عدم استعمال کی مختلف وجوہات ہیں کچھ تو اتنی دور ہیں کہ ان کا استعمال ناممکن ہے۔ کچھ ابھی ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ ایسے بھی ہیں کہ جن میں پانی اور نکاسی کا بندوبست نہیں ہے اور گندگی کے باعث ناقابل استعمال ہوگئے ہیں۔ آخری وجہ اپنی پرانی عادت سے مجبور ی ہے۔ یہ ہے مودی جی کے اپنے منتخبہ گاوں میں جعلی وکاس کا ایک نمونہ۔ اس گاوں کے راجہ رام نے الزام لگایا کہ گرام پردھان نے ایک ہی گھر میں کئی بیت الخلاء بنوادیئے جس کے سبب 194 کی اضافی تعداد کے باوجود کئی خاندان ہنوز محروم ہیں۔ ٹائمز کا صحافی اگر جیاپورا جاکر حقائق معلوم نہ کرتا تو سرکاری کاغذات پر اس گاوں کی عزت بحال ہوچکی تھی۔
مودی جی اپنی ایک بیوی کو نہیں سنبھال سکے مگر دو دو حلقہ انتخاب کی نگہداشت کرتے ہیں۔ یہ کام کس خوش اسلوبی سے ہوتا ہے اس کی جھلک مودی جی کے دوسرے حلقۂ انتخاب بڑودہ میں دیکھیں۔ مودی جی نے اس حلقۂ انتخاب کو بحالت مجبوری طلاق تو دے دی لیکن آشنائی باقی ہے مبادہ برے وقت میں کام آجائے۔ اس بدقسمت شہر کو انہوں اسمارٹ سٹی کی فہرست میں شامل کروادیاجس کے سبب تزئین کاری منصوبہ کے تحت ایک جھگی بستی کو توڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ عجیب مذاق ہے انتخاب سے قبل نیتا ہاتھ جوڑ جھگیوں میں جاتے ہیں اور امیت شاہ تو وہاں خوب جم کر بھوجن کرتے ہیں اور تصویریں شائع کرواتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد ان غریب باشندوں کا متبادل انتظام کیے بغیر انہیں جاڑ دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ شہر کے باپود علاقے میں ہوا پھر کیا تھا ناراض خواتین نے گئورکشکوں کی اتباع کرتے ہوئےحکمراں بی جے پی کے ایک مقامی كارپوریٹر کی درخت سے باندھ کر پٹائی کر دی۔ پولیس نے اس سلسلے میں 30 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
اس سانحہ کے بعد مارکھانے والے ہنس مکھ پٹیل کی ہنسی تو چھن گئی لیکن وزیراعظم کا مسکراتا ہوا چہرہ بھی مرجھایا ہوا نظر آیا۔ ہنس مکھ پٹیل دہائی دیتے رہے کہ جھونپڑي کو ہٹانے کا فیصلہ بلدیہ کمشنر کیا ہے اور اس سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے، مگر کسی نے ان کی ایک نہیں سنی اور پٹائی جاری رہی۔ جو وزیراعظم کسی کی نہیں سنتا بلکہ اپنے من کی بات کہے جاتا ہے اس کے رائے دہندگان بھلا کسی کی کیوں سنیں وہ اپنی من مانی کیوں نہ کریں ؟ مودی جی جب اگلی مرتبہ بڑودہ جائیں تو انہیں اسمارٹ سٹی کا ذکر احتیاط سے کرنا ہوگا ورنہ یہ جھگی جھونپڑی والے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو اپنے کارپوریٹر کے ساتھ کیا تھا اس لیے کہ انہیں احساس ہوجائیگا چوری تو داڑھی والے نے کی تھی انہوں نے بلاوجہ مونچھوں والے کو دھودیا۔ ان مثالوں کے پیش نظرمودی جی کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنا حلقۂ انتخاب بدل دیں ورنہ رائے دہندگان اپنا نمائندہ بدل دیں گے۔ جب ۵۶ انچ کے سینے والا وزیراعظم انتخاب ہار جائے گاتو کیسا لگے گا؟ لیکن یہ تو ہونا ہی ہے بقول عتیق اثر؎
یہ کج کلاہ نئے وقت کے نہ ٹھہریں گے
کھنچی کمان مرے شہریار باقی رکھ
گجرات کو بی جے پی والوں نے نمونے کا صوبہ بناکر پیش کیا تھا اور یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ سارے ملک کو گجرات بنادیں گے۔ 22 سالوں تک حکومت کرنے بعد اس صوبے کی جو درگت بنی ہے اس کے سبب آئندہ انتخاب جیتنے کے لیے بی جے پی کے ہاتھ پیر پھول رہے ہیں۔ امیت شاہ نے گجرات کو پھر ایک بار فتح کرنے کی خاطر دو گورو (فخر) یاترا وں کو ہری جھنڈی دکھائی ان میں سے پہلی ولبھ بھائی پٹیل کے گاوں کرم ساد سے شروع ہوئی تو دوسری کاآغازگاندھی جی کی جنم بھومی پوربندر سے ہوا۔ اس موقع پر امیت شاہ نے کانگریس کے ذریعہ ولبھ بھائی پٹیل اور مرارجی دیسائی پر ہونے والی زیادتی کا خوب ماتم کیا۔ امیت شاہ شاید نہیں جانتے کہ یہ تینوں گجراتی رہنما پکے کانگریسی تھے۔ ولبھ بھائی پٹیل کو وزارت عظمیٰ سے محروم رکھنے کا فیصلہ جس گاندھی نے کیا وہ اندرا گاندھی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی تھے جن کے پوربندر سے بی جے پی اپنی یاترا شروع کی ہے اور یہ سب کےسب سنگھ پریوار کے کٹرّ مخالف تھے۔ امیت شاہ کو ان کے دروازے پر جاکر کانگریس کی مخالفت کرنے میں شرم آنی چاہیے۔
گاندھی جی کے قاتلوں نے عوام کے اندر علاقائی عصبیت پھیلانے کی غرض سے گاندھی بھکتی کا چولا اوڑھ لیا ہے۔ مہاتما گاندھی جیسے عالمی رہنما کو کسی ایک صوبے تک محدود کرنا ان کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟شاہ جی نےکرم ساد کارخ پٹیل برادری کو راضی کرنے کے لیے کیا تھا لیکن پٹیل ابھی تک اپنے احتجاج پر ڈنڈے برسانے والے اور پھر اس کا بہانہ بناکر آنندی پٹیل کو ہٹانے والے شاہ جی کو نہیں بھولے جس نے اپنی برادری کےوجئے روپانی کو گجرات کا وزیراعلیٰ بنادیا۔ اس لیے اول تو لوگ یاترا کے شبھ مہورت پر پہنچے ہی نہیں۔ امیت شاہ اپنی قیام گاہ سے شرکاء کی تعداد دریافت کرتے رہے نتیجتاً یاترا دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی اور جو لوگ آئے بھی تو انہوں نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے’جنرل ڈائر واپس جاو‘ اوربی جےپی مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ایک سال قبل ستمبر میں بھی سورت کے اندر امیت شاہ کو اپنی تقریر درمیان میں بند کرکے بھاگنا پڑا تھا اس لیے کہ وزیراعلیٰ کے سامنے جلسہ گاہ میں کرسیاں چلنے لگی تھیں۔ بی جے پی اب کانگریس کی ناانصافی کا رونا نہیں رو سکتی اس لیے کہ لوگ پوچھیں گے 22 سال صوبائی حکومت پر قابض ہونے بعداور4 سال سے مرکزمیں اقتدار کے باوجودبھی وہ اس ظلم وزیادتی کا ازالہ کیوں نہیں کرسکی؟ گجرات کے عوام کی مودی بیزاری کا یہ عالم ہے کہ نوساری کے زراعتی درسگاہ کے طلباء مودی جی کی خاطر ان کت تحقیقی کھیتوں کو کاٹنے کے خلاف میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
ہندوستان کے سنگ تراشوں نے ایک زمانے میں پہاڑوں کو کاٹ کر اجنتا، ایلورہ اور کھجوراہو کے مندر تعمیر کیے تھے لیکن اب یہ حالت ہے کہ مودی جی نے میک ان انڈیا کا پر فریب نعرہ لگاکر ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ کا ٹھیکہ چینیوں کو دے دیا۔ کوئی بعید نہیں کہ کل کو رام مندر کی تعمیر بھی کسی چینی یا جاپانی کمپنی کو سونپ دی جائے؟ جعلی رام بھکت کچھ بھی کرسکتاہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی کمپنی سے رشوت لینے پر بدعنوانی چھپ جاتی ہے اور صاف ستھری شبیہ بنی رہتی ہے۔ امیت شاہ نے گجرات کی عوام کے سامنے آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور بولیٹ ٹرین کے تحفوں کاذکر کیا لیکن بھول گئے عالمی شہرت یافتہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کس نے بنایا تھا نیز اے آئی ایم احمدآبادنے مودی جی کے تحفے بولیٹ ٹرین کاپوسٹ مارٹم کرکے کس حادثے سے دوچار کردیا۔ ویسے ممبئی میں الفسٹن روڈ حادثے نے مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا۔ ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ عوام کی حقیقی ضرورت کیا ہے اور انہیں کس طرح کے خوابوں سے بہلایا پھسلایا جارہا ہے؟ ریلوے انجن والے راج ٹھاکرے پہلے ہی بولیٹ ٹرین کے مخالف تھے اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ بی جے پی کو ممبئی میں بولیٹ ٹرین کے لیے ایک اینٹ بھی نہیں رکھنے دیں گے۔ اس مسئلے پر راج کو ادھو کی بھی حمایت مل جائیگی۔
مودی جی نے اپنے اقتدار کی خاطر گجراتی مسلمانوں کے ساتھ جونارواسلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور اس ظلم کے لیے انہیں نہ مورخ معاف کرے گا اور نہ واحدالقہار الاّ یہ کہ توبہ نصیب ہوجائے لیکن گجرات کے دلتوں کا جو حال بی جے پی نے کیا ہے وہ بھی قابل مذمت ہے۔ اونا میں دلت نوجوان کے بہیمانہ قتل کے بعد وزیراعظم نے سینہ کوبی کرتے ہوئے کہا مجھے گولی مارو لیکن دلتوں پر ہاتھ نہ اٹھاو۔ اس واقعہ کو ایک سال بھی پورا نہیں ہوا کہ جب مودی جی لال قلعہ سے خطاب کی ریہرسل کررہے تھےتوان کے گجرات میں اونا سانحہ کو پھر سےدوہرایا گیا۔ آنند ضلع کے کاسورگاوں میں 15 راجپوتوں نے ایک45 سالہ دلت خاتون اور اس کے بیٹے کو پہلے ننگا کیا اور پھر چھڑی سے بری طرح پٹائی کی۔ ان بیچاروں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مردہ جانوروں کی کھال اتارنے کے پیشے سے وابستہ دلت تھے۔
اس سانحہ کے دوماہ بعد آنند ضلع ہی کے بھندرانیا گاوں میں جئےایش سولنکی نامی ایک دلت نوجوان کو پٹیل برادی کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔ 23 سالہ پرکاش بھائی سولنکی کے مطابق اس کے عم زاد جئے ایش کا قصور صرف یہ تھا وہ مندر کے باہر دیوار پر بیٹھ کر گربا دیکھ رہے تھے۔ اس پر سنجے بھائی پٹیل نے ان کو ذات کا طعنہ دے کر کہا تم لوگ یہاں کیا دیکھ رہے ہو۔ جئے ایش نے جواب دیا ہم وہی دیکھ رہے ہیں جو آپ دیکھ رہے ہو۔ بس پھر کیا تھا آگ بگولا سنجے وہاں سے لوٹا اور 8 لوگوں کے ساتھ واپس آکر حملہ کردیا اور جئے ایش کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اس اندوہناک واقعہ کے چند گھنٹوں بعد امیت شاہ کی گورو یاترا کا بھندارنیا کے سے دس کلومیٹر کے فاصلے سے پہنچی لیکن کسی نے گاوں میں جاکرتعزیت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس سفاکی کی وجہ یہ ہے کہ گجرات کے دلت کانگریس کووٹ دیتے ہیں اور ان پر حملہ آور پٹیلوں کو بی جے پی مزیدناراض نہیں کرنا چاہتی لیکن انتخابی جوڑ توڑ سے الگ انسانیت بھی تو کوئی چیز ہے؟ خیر بھگوادھاری کیا جانیں ؟ بحث و تکرار تو دور گجرات کے گاندھی نگر میں دو مختلف واقعات کے اندر دلتوں کو راجپوتوں کے ہاتھوں صرف مونچھیں رکھنے کی بناء پر زدو کوب کیا گیا۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی آدرش گجرات ہے جس پر بی جے پی فخر جتاتی ہے اور سارے ہندوستان کو اس میں رنگ دینا چاہتی ہے۔ اس سوال کا جواب یوگی جی اثبات میں دیں گے ۔ ان کے اقتدار سنبھالتے ہی اترپردیش میں مسلمانوں کے علاوہ دلت سماج بھی آئے دن نت نئے مظالم کا شکار ہورہا ہے۔ 3 اکتوبر کو الہ آباد میں کے کرنل گنج علاقہ میں بہوجن سماج پارٹی کے رہنماراجیش یادو کو گولی مارکر قتل کردیا گیا۔پولیس سپرنٹنڈٹ سدھارتھ شنکر مینا نے بتایا کہ بھدوہی کے دوگونا گاوں میں رہنے والے راجیش یادو اپنے دوست ڈاکٹر مکل سنگھ کے ساتھ کار سے الہ آباد یونیورسٹی کے تارا چند ہوسٹل میں کسی سے ملاقات کرنے گئے تھے۔ وہاں پر کچھ طلباء کے ساتھ بحث و تکرار ہوگئی جس کے بعد کسی نے راجیش کو گولی ماردی۔ اس قتل کے بعد تشدد پھوٹ پڑا مشتعل ہجوم نے پتھربازی کی سرکاری بسوں کو نذرِ آتش کردیا۔
اس سانحہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے کہا کہ فرقہ وارانہ اور نسلی فسادات کے بعد اب یوپی میں سیاسی قتل و غارتگری کی ابتداء ہوگئی ہے۔ مایاوتی بھول گئیں کہ شروعات تو یوگی کے اقتدار میں آتے ہی ہوگئی تھی جب انتخابی رنجش کے سبب الہ آباد ہی کے مئوامہ تھانہ میں بی ایس پی رہنما محمد سمیع کو بی جے پی کے حملہ آوروں نےگولی مار دی تھی۔ اس کے بعد بی جے پی کے بلاک سرابرہ سمیت چار افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔ ابھی حال میں دلتوں پر زیادتی کا ایک واقعہ لکھنو کے کوتوالی موہن لال گنج میں بھی پیش آیا جہاں پورن پور گاوں کے تین درجن دلت خاندانوں کو غنڈوں نےمحض آرکسٹرا بجانے کے جرم میں دوڑا دوڑا کر پیٹا۔ ایک طرف یہ سب ہورہا ہے اور دوسری جانب مودی و یوگی دلتوں کے غم میں آنسو بہا رہے ہیں ایسے میں اگر جنوب کے معروف اداکار پرکاش راج کا جی کرتا ہے کہ وہ اپنے سارے تمغے وزیراعظم کو دے دیں تو اس میں کیا غلط ہے؟ انہوں نے یوگی کو ڈبل رول کرنے والے اداکارکے خطاب سے نوازاہے۔
مودی جی یقیناً بہت بڑے اداکار تھے لیکن اب ان کی اداکاری کا سحر ٹوٹنے لگا ہے۔یہی وجہ ہے کہ د سہرہ کے دن رام لیلا گروانڈ پر اچانک دوردرشن والوں کو اپنا کیمرہ وزیراعظم سے ہٹا کر عوام کی جانب موڑنا پڑا۔ مودی جی کے راج میں آسارام، رام دیو، رام پال اور رام رحیم جیسوں نے مردیا دہ پرشوتم رام جی کے نام کو خاک میں ملادیا۔ رام سیوک دکشت نے تو گونڈا میں فساد بھڑکانے کے لیے گائے کو ذبح کرڈالا اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ اس صورتحال میں مودی جی نے حکم دیا ایسا کرو اس سال راون کےپتلے کو 80 فٹ سے بڑھا کر 210 فٹ کردو۔ جب راون نے اس اونچائی سے اپنے آپ کو دیکھا تو وجہ دریافت کی۔ اس کو بتایا گیا کہ مودی جی اس کا دہن کرنے آرہے ہیں۔ یہ سن کر وہ ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ سجدہ ریز ہوگیا۔ (کھوکھلی بلندی اسی طرح زمین بوس ہوتی ہے)۔ روان کو پھرسے کھڑا کرکے مودی جی کے ہاتھ میں تیر کمان سے لیس کر دیا گیا لیکن مودی جی کے لمس کی تاب نہ لاپانے والی کمان ٹوٹ گئی مجبوراً بے کمان تیر کو مودی جی نے راون کی جانب اچھال کر اسے بھسم کردیا۔ کون جانے یہ بلند ست بلندتر راون بنانے اور بغیر کمان کے تیر چلانے کا کھیل کب تک چلے گا؟ یہ مہابھارت کب ختم ہوگی؟ لیکن ہندوستان کی عوام مودی جی کے چوپٹ راج کو آسانی سے بھول نہ پائیں گے اور مودی جی بھی رام لیلا میدان پر کمان کے بے وقت ٹو ٹنے کوآنس معین کے اس شعر کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھیں گے؎
اب کے مری شکست میں ان کا بھی ہاتھ ہے
وہ تیر جو کمان کے پنجے میں گڑ گئے
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)