-
ابراہیم رئیسی :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
- سیاسی
- گھر
ابراہیم رئیسی :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
544
M.U.H
06/06/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
۲۰ مئی کو ایران میں ناقابل فراموش ہیلی کاپٹرحادثہ رونما ہواجس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ،وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان ،تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ آل ہاشم اور دیگر افراد مارے گئے ۔یہ حادثہ اس وقت رونما ہواجب ابراہیم رئیسی ایران اور آذربائیجان کے سرحدی علاقےسے ڈیم کا افتتاح کرکے واپس لوٹ رہے تھے ۔اثنائے راہ میں اچانک ان کا ہیلی کاپٹر حادثہ کا شکار ہوگیاجبکہ ان کی حفاظت میں تعینات دیگر دوہیلی کاپٹر منزل مقصود پر سلامت پہونچ گئے ۔اس حادثےکے فوراً بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہاکہ یہ ایک قدرتی حادثہ تھا جس سے ملک ہر گز متاثر نہیں ہوگا۔ان کا یہ بیان انتہائی مشکل وقت میں سامنے آیاتھا اس لئے انہوں نےملت ایران اور عالمی منظر نامے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس حادثہ کو طبعی اور ملک پر اثر انداز نہ ہونے والا قراردیا۔کیونکہ ان سے زیادہ کوئی ایرانی عوام کی نفسیات کو نہیں جانتا اور نہ وہ عالمی صورت حال سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل ہیں ۔اس لئے یہ بیان بروقت اور ان کی سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تھا ۔مگر تاحال اس حادثے سے پیداشدہ اندیشے و امکانات کو مسترد نہیں کیاجاسکتا۔
اس حادثے کو بعض نے طبعی قراردیا اور بعض اس کو دشمن کی سازش کا حصہ مان رہے ہیں ۔کیونکہ ایران میں یہ پہلا ایساحادثہ نہیں ہے جو دشمن کی سازشوں کے نتیجے میں ہواہوبلکہ اس سے پہلے لاتعداد واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔حتیٰ کہ بیک وقت ۷۰ سے زیادہ اراکین حکومت کو بم دھماکے میں موت کے گھاٹ اتاردیاگیا تھا جن کی قبریں بہشت زہرا میں موجود ہیں اور اسلام دشمن عناصر کی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔گزشتہ کچھ سالوں میں استعماری طاقتوں نے ایران کے اسلامی نظام کو ٹھیس پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور بارہا خطے میں ابھرتے ہوئے مقاومتی محاذ کو ختم کرنے یا کمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔عراق میں جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی پر ڈرون حملہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ایرانی شخصیات ہمیشہ دشمن کے نشانے پر رہتی ہیں ۔جنرل سلیمانی کے بعد دشمن نے ایران کے جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کو ٹارگیٹ کرکے قتل کردیا ،جس سے یہ معلوم ہواکہ دشمن ایران میں کس حد تک نفوذ پاچکاہے ۔جنرل سلیمانی اور محسن فخری زادہ کا قتل ایران کے لئے غیر معمولی نقصان نہیں تھا ۔شہید سلیمانی کا انتقام تو امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کرکے لے لیا گیا جبکہ رہبر انقلاب اسلامی نے کہاتھاکہ یہ فقط دشمن کے رخسار پر ایک طمانچہ تھا،اصل اتنقام ابھی باقی ہے ۔گویا ان کا اشارہ خطے سے امریکی فوجوں کے انخلاء اور اس کی عالمی ساکھ کو برباد کرنے کی طرف تھا،جس پر ایران مسلسل کام کررہاہے ۔محسن فخری زادہ کا قتل ایران کی سرزمین پر ہواتھا اس لئے ان کا انتقام امریکہ یا اسرائیل کے فوجی مراکز پر حملہ کرکے نہیں لیاجاسکتاتھا،لہذا ایران نے بھی دشمن کو اس کے گھر میں ٹارگیٹ کرنے کی حکمت عملی تیارکی ،جس کے بعد اسرائیل میں کئی اہم شخصیات کے قتل کے واقعات رونما ہوئے ۔البتہ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ان واقعات میں ایران ملوث تھاکیونکہ ایران نے کبھی ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی جس طرح اسرائیل نے ایران میں رونما ہونے والے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔
ایران بیک وقت دومحازوں پر نبردآزماہے ۔ایک داخلی مورچہ ہے اوردوسراخارجی محاذ ۔ایران کے لئے ہمیشہ خارجی مسائل موجود رہے ہیں اور رہیں گے کیونکہ وہ استعمارکی آنکھ میں کھٹکتے ہوئے کانٹے کی طرح ہے۔لیکن ایران کے لئے داخلی مسائل زیادہ پریشان کن اور قابل توجہ ہیں ۔دشمن ہمیشہ ایران کے نظام کو گزند پہونچانے کی فکر میں رہتاہے اور اس کے لئے وہ ایسے مہروں کا استعمال کرتاہے جو ایران کی سرزمین پر موجود ہیں ۔ایرانی انٹلیجنس ہمیشہ داخلی مسائل سے نمٹنے میں پریشانیوں کا سامنا کرتی رہی ہے اور کبھی غالب اور کبھی مغلوب رہی ہے ۔دشمن نے کبھی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کو اٹھاکر داخلی نظام پر حملہ کیا ۔کبھی فرد کی آزادی اور شخصی زندگی میں حکومتی مداخلت جیسے حساس موضوعات کے ذریعہ ایرانی عوام کے جذبات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ۔اس کی مثال مہساامینی کی موت کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ پیش کی جاسکتی ہے ۔ان احتجاجی مظاہروں کے پس پردہ دشمن کی سازشیں کارفرما تھیں لیکن آلۂ کار ایرانی افراد تھے جنہیں ’ضد انقلاب‘ بھی کہاجاتاہے ۔ایران کو امریکہ اور اس کی حلیف طاقتوں سے زیادہ ان داخلی عناصر سے خطرہ لاحق ہے جو اپنی حکومت اور ملک کے خلاف استعمال ہوتے رہتے ہیں ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدرابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیں ۔گویا یہ طبقہ انسانی اور اخلاقی سطح پر بھی مسلسل گرواٹ کا شکار ہے ۔ایسے افراد نظام کے لئے خطرہ ہوسکتے ہیں ۔جبکہ ایران ان افراد پر شکنجہ کسنے کے بجائے ان تمام حادثات کا ذمہ دار ان خارجی عناصر کو سمجھتارہاہے جو اس کے اندر موجود ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی حادثے کے بعد پاکستانیوں ،افغانیوں اور دیگر مہاجرین کے خلاف کاروائیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔اس طرح ایرانی انٹلیجنس اور پولیس ایرانی عوام کو مہاجرین سے بدظن کررہے ہیں جو بالکل غیر مناسب حکمت عملی ہے ۔اگر مہاجرین ایرانی نظام کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں تو ان پر قانونی کاروائی ہونا چاہیے لیکن ایسانہیں ہے کہ ہر واقعے کے پس پردہ صرف مہاجرین کاہاتھ ہوتاہے ۔اس لئے ایرانی انٹلیجنس کو دشمنوں کی شناخت اور ان سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے جو ان کے اپنے لوگ ہیں ،جن کا مہاجرین سے کوئی تعلق نہیں ۔البتہ بعض واقعات میں خارجی عناصر کا ہاتھ بھی رہاہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ تمام واقعات میں مہاجرین ملوث ہوتے ہیں ۔اگر ایساہے توپھر جنرل قاسم سلیمانی ،محسن فخری زادہ کےقتل اورمہساامینی کی موت کے بعد رونما ہونے والے احتجاجات میں کس مہاجر کا ہاتھ تھا؟ اس پر صدرایران ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے کو بھی شک کے دائرے سے خارج نہیں کیاجاسکتاجیساکہ عالمی تجزیہ نگار دعویٰ کررہے ہیں ۔بعض وہ لوگ جو اس حادثے کو مشکوک قراردینے والوں پر سخت معترض ہیں اور انہیں استعمار کا آلۂ کار بتلارہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی خودساختہ انقلابی فکر پر ازسرنو غور کریں !آخر ہم کسی بھی مفکر دماغ پر کیسے قدغن لگاسکتے ہیں؟کسی بھی واقعہ پر غورکرنا اور سیاق و سباق کے تناظر میں واقعہ کا تجزیہ کرنا انسانی ذہن کا خاصہ ہے ،اس لئے اس حادثے پر بھی غورہونا چاہیے تاکہ اس کے نتائج تک رسائی ممکن ہوسکے ۔ہم کسی بھی انسان کے ذہن کو تجزیہ و تحلیل اور غوروفکر سے روک نہیں سکتے اور نہ ہمیں ایساکرنا چاہیے ۔
ابراہیم رئیسی پہلے ایسے ایرانی صدر تھے جنہیں رہبر انقلاب اسلامی اور ایرا نی سپاہ کا اعتماد حاصل تھا ۔بلکہ یوں کہاجائے تو شاید غلط نہیں ہوگاکہ انہیں صدارتی مسندتک لانے میں ان دونوں طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔اس لئے ابراہیم رئیسی کی موت نے دونوں طاقتوں کو بہت نقصان پہونچایاہے لیکن یہ سوچنا عبث ہوگاکہ ابراہیم رئیسی کے بعد ایران سیاسی انتشار کا شکار ہوگاکیونکہ ایران اپنے نظام پر منحصر ہے ۔شخصیات کا آنا جانا لگارہتاہے ۔یقیناً ابراہیم رئیسی کی موت ایران کا بڑا نقصان ہے مگر ایسا نقصان بھی نہیں ہے کہ ایرانی نظام مفلوج ہوکر رہ جائے ۔دوسری طرف وزیر خارجہ امیر عبداللہیان جنہیں ابراہیم رئیسی کی طرح رہبر انقلاب اسلامی اور سپاہ کی حمایت حاصل تھی ،اپنی قوت فیصلہ کے لئے جانے جاتے تھے ۔ان دونوں نے جس طرح عالمی سطح پر ایران کی طاقت کو متعارف کروایا اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ۔ خاص طورپر ابراہیم رئیسی نے جس طرح قرآن اوراسلام مخالف طاقتوں کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں للکاراوہ بے نظیر کارنامہ تھا۔انہوں نے خطے میں اسلامی مقاومت کی تقویت کے لئے راہیں استوار کیں اور موانعات کو دورکیا ۔انہوں نے مسئلہ فلسطین کو دنیا کے سامنے نئے انداز میں پیش کیا اور اس مسئلے کی سنجیدگی کو باور کرایا۔یقیناً ہر اس موقع پر جب اسلامی حمیت اور مقاومتی محاذ کی کامیابیوں کا تذکرہ ہوگا ابراہیم رئیسی اور حسین امیر عبداللہیان ضرور یاد آئیں گے ۔ان کی موت نے عالم اسلام کے بڑھتے ہوئے فکری ،انقلابی اور مزاحمتی کارواں کو نقصان ضرورپہونچایاہے لیکن بہت جلد اس نقصان کی تلافی ہوسکے گی ،ایسا ہر بندۂ مومن کا یقین ہے ۔کیونکہ ؎
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے