-
میں یہاں معافی مانگنے نہیں،اپنا’جرم‘ قبول کرنے آیاہوں
- سیاسی
- گھر
میں یہاں معافی مانگنے نہیں،اپنا’جرم‘ قبول کرنے آیاہوں
852
M.U.H
21/08/2020
0
0
ترجمہ:نایاب حسن
میں نے معزز عدالت کا فیصلہ دیکھا۔ مجھے تکلیف ہوئی کہ مجھے اُس عدالت کی توہین کرنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے، جس کی عظمت ووقار کومیں نے مسلسل تین دہائیوں سے ایک درباری یا خوشامدی کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ ایک ادنی محافظ کی حیثیت سے، برقراراور محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے ، ذاتی طورپر بھی اور پیشہ وارانہ طریقے سے بھی۔ مجھے تکلیف اس بات کی نہیں ہے کہ مجھے سزادی جا رہی ہے؛بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ میرے تئیں عدالت کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ عدالت نے مجھے عدلیہ کے ادارے پر ’’بدنیتی کے ساتھ جان بوجھ کرگھٹیا قسم کا حملہ کرنے‘‘کا مجرم ٹھہرایاہے۔ مجھے افسوس ہے کہ عدالت اس طرح کے حملے کے میرے مقصد کا کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر ہی اس نتیجے پر پہنچی ہے۔ مجھے اس سے مایوسی ہوئی کہ عدالت نے مجھے اس شکایت کی کاپی تک بھیجنا ضروری نہیں سمجھا جس کی بنیاد پر ازخود نوٹس جاری کیا گیا تھا اور نہ ہی میرے جوابی حلف نامے اور میرے کونسل کی گزارشات کے باوجود یہ بتایا گیا کہ مجھے اپنی کن حرکتوں کا جواب دینا چاہیے۔
میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ عدالت نے میرے ٹوئٹ کو ’’ہندوستانی جمہوریت کے اس اہم ستون کی بنیاد کو غیر مستحکم کرنے والا پایا ہے‘‘۔ میں صرف اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ وہ دونوں ٹویٹس میرے ذاتی خیالات و نظریات کی نمائندگی کرنے والے تھے،جن کا اظہار کسی بھی جمہوریت میں جائز ہونا چاہیے۔ در حقیقت خود عدلیہ کی صحت مند کارکردگی کے لیے عوامی جانچ پڑتال مطلوب ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ آئین کی حفاظت کے لئے جمہوریت میں کسی بھی ادارے پر کھلی تنقید ضروری ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے ایسے لمحے سے گزر رہے ہیں، جب اعلی اصولوں کی پیروی کو معمول کی ذمے داریوں پر ترجیح دینا چاہیے ، جب آئینی فریضے کی تکمیل لازمی طور پر ذاتی اور پیشہ ورانہ فرائض پر مقدم ہونی چاہیے، جب مستقبل کے بارے میں اپنی ذمے داری کو نبھاتے وقت حال کے بارے میں زیادہ نہیں سوچنا چاہیے۔
خاص طور پر مجھ جیسے عدلیہ سے وابستہ شخص کے لئے حق کے اظہار میں ناکام رہ جانا فرض شناسی کی کمی ہوگی۔ میرے ٹوئٹس ہماری جمہوریت کی تاریخ کے اس نازک موڑ پرمحض اپنا فریضہ ادا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کا نمونہ تھے۔ میں نے کسی نامناسب سوچ کے ساتھ ٹوئٹ نہیں کیا تھا ۔اپنے ان ٹویٹس کے لئے معافی مانگنا،جو میرے خیالات و نظریات کے نمایندہ تھےاور ہیں، میرے لئے بے غیرتی کی بات ہوگی اوریہ ایک توہین آمیزعمل ہوگا؛لہذا میں صرف عاجزی کے ساتھ وہی عرض کرسکتا ہوں جوباباے قوم مہاتما گاندھی نے اپنے مقدمے میں کہا تھا:’’ میں معافی کی درخواست نہیں کروں گا۔ میں آپ سے کشادہ ظرفی کا مظاہرہ کرنے کی بھی اپیل نہیں کروں گا۔ میں یہاں خوشی سے اس سزا کوقبول کرنے کے لیے کھڑاہوا ہوں،جسے کورٹ نے کسی جرم کا مرتکب ہونے کی وجہ سے مجھ پر عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جو مجھے اس ملک کا ایک شہری ہونے کے ناطے اپنی اعلی ترین ذمے داری بھی معلوم ہوتی ہے‘‘۔